مئی 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وسیب کا فنکارکرشن لعل بھیل رخصت ہوا۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

سرائیکی خطے کے فنکاروں کی پشت سیاسی شفارش سے محروم ہوتی ہے. بیورو کریسی میں ان کی رسائی کوسوں دور کی بات ہے

گانگا دھرتی واسیں کیتے میں نہ بولاں
دھرتی واسیں کیتے میں کیوں نہ بولاں
خطہ سرائیکستان بائی پاس روڈ بھیل نگر کا رہائشی رحیم یار خان کا منفرد انداز و آواز کا مالک فنکار گلوکار کرشن لعل بھیل 7مئی 2020کو لگ بھگ 55سال کی عمر میں اس جہان فانی سے وسیب کے بہت سارے دوسرے غریب ومستحق فنکاروں ادیبوں شاعروں کی طرح نامسائد حالات، معاشی ناہمواریوں اور بیماریوں سے لڑتے لڑتے بلاآخر زندگی کی بازی ہار کر اس جہان سے جا چکا ہے.وہ گردوں کی بیماری کا شکار تھے. غربت کی وجہ اپنا مناسب علاج کروانے کی پوزیشن میں بھی نہ تھے. حکومت اور حکومتی اداروں کو وہ خود اور اس کے ورثاء التجائیں اور اپیلیں کرتے رہے.خطے کے لوگوں کے لیے بے لوث بے دھڑک اور بلاتفریق لکھنے اور آواز اٹھانے والے مرد مجاہد درویش صحافی جناب ظہور احمد دھریجہ، جام جاوید اقبال ٹانوری سمیت ہندو کمیونٹی کے سماجی سوچ کے حامل نوجوانوں رمیش جے پال، وکرم دیپال سمیت کئی لوگوں نے آواز اٹھائی مگر کہیں سے کوئی شنوائی نہ ہو سکی. علاقے کے جاگیردار وڈیروں صنعت کاروں اور سرمایہ داروں میں سے کسی کو بھی علاج کے سلسلے میں آ گے بڑھنے کی توفیق نہ مل سکی. 100کے لگ بھگ فنکار شاگرد بھی اپنے استاد کے لیے کچھ نہ کر سکے. سماجی بے حسی کے اس دور میں ایک غریب شخص کا وقت کیسے گزرتا ہے یہ تلخ حقیقت تو صرف وہی جانتے ہیں جن کے ساتھ بیتتی ہے . وہ ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا وسیب واسی انسان اور ایک اچھا فنکار تھا. شوبز گلوکاری کی دنیا میں رحیم یار خان کی پہچان اور نام روشن کرنے والوں میں سے ایک تھا.

ضلع رحیم یار خان کے علاقے یوسف کالونی چک 112نزد وائر لیس پل رحیم یار خان سرائیکی وسیب کی قدیم ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لعل ناتھ بھیل کے ہاں پیدا ہونے والے، گرو سکھ دیو جی بھیل کے چگوٹے بھائی، کرشن لعل بھیل نے اپنی گائیگی کے ذریعے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ ضلع رحیم یار خان اور سرائیکی وسیب کا نام پورے ملک اور دنیا میں روشن کرنے والے فنکاروں میں سے ایک ہیں. سرائیکی مارواڑی اور سندھی زبان میں صوفیانہ کلام اور لوک گیت گانے والا یہ فنکار اپنا ایک منفرد سٹائل رکھتا تھا.پنجابی، بلوچی اردو سمیت کئی زبانوں میں گیت گا چکا ہے. لیکن اس کی پہچان سرائیکی اور مارواڑی گلوکار کی حیثیت سے ہی تھی. ضلع اور وسیب میں ہونے والی ثقافتی و تفریحی سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات کا ایک لازمی حصہ سمجھا جاتا تھا.

وہ رحیم یار خان کا روہی میلہ ہو یا فلاور شو تقریبات ہوں وہ بہاول پور جیب ریلی کے پروگرام ہوں یا روہی چولستان میں ہونے والے دیگر ثقافتی و تفریحی پروگرامات کرشن لعل بھیل ان کی رونق بننے کے لیے اپنی پوری ٹیم سمیت موجود ہوتے تھے. یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے وسیبی فنکاروں کو وسیب میں ہونے والے پروگراموں میں لاہور کراچی سےآنے والے فنکاروں کے مقابلے میں عشر عشیر معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا .اس کے باوجود بھی خطے کے یہ فنکار اپنی دھرتی پر ہونے والے پروگراموں کو اپنا سمجھ کر لالچ کیے بغیر پرفارم کرنے کے لیے ہمیشہ خوش دلی کے ساتھ موجود ہوتے ہیں.کرشن لعل بھیل نے دوبئی مسقط، متحدہ عرب امارات، آذربائیجان،ترکمستان ترکی انگلینڈ، سمیت کئی دیگر یورپین ممالک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور درجنوں مختلف قسم کے ایوارڈ حاصل کیے.

مذہب دھرم اور عقیدے سے ہٹ کر کرشن لعل بھیل خوش دل،صابر و شاکر، ملنسار اور عاجزی جیسی بڑی صفات رکھنے والا فنکار تھا. اپنی مادری زبان مارواڑی کی طرح سرائیکی زبان سے بھی انتہا کی محبت کرنے والا تھا. وہ اپنے آپ کو دھرتی جایا سجھتے تھے.وسیب کی مٹی سے محبت، وسیب کے رنگوں اور ثقافت سے انس ان کی رگ رگ میں سمایا ہوا تھا. یہ مارواڑی خاندان حضرت خواجہ فرید ؒ کی روہی کے عاشق سمجھے جاتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ صوفیانہ کلام کی گائیگی کی وجہ سے یہ مسلمانوں کے مذہبی خاص طور صوفیائے کرام کے پروگراموں عرس کےتہواروں میں شرکت کرتے ہیں

محترم قارئین کرام،، کرشن لعل بھیل کی وفات سے میرا رحیم یار، خان میرا سرائیکی وسیب اور میرا پیارا دیس ایک دھرتی واس جنیوئن فنکار سے محروم ہو گیا ہے. مجھے یقین ہے کہ وہ فن سے اپنی سچی محبت اور منفرد کام کی بدولت موسیقی و گائیگی کی دنیا و تاریخ میں وہ اچھے لفظوں سے لکھے اور یاد کیے جائیں گے.

کرشن لعل بھیل نے پسماندگان میں ایک بیوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی ہے. آج مجھے ایک صحافی دوست کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان علی شہزاد نے حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان کو فنکاروں کو دئیے جانے والے سول ایوارڈ کے لیے رحیم یار خان سے کرشن لعل بھیل کی فائل بھیجی ہوئی ہے.

ارباب اختیار کا فیصلہ آنا باقی ہے. آیا فیصلہ کرنے والی کمیٹی کرشن لعل بھیل کا نام منظورکرتی ہے یا نامنظور.ڈپٹی کمشنر کا ایک حقدار کو حق دلانے کے لیے متعلقہ حکام بالا کو لکھنا فائل تیار کرکے بھیجنا بھی قابل ستائش عمل ہے. کرشن لعل بھیل اب ہم میں نہیں رہے. حکمران اور متعلقہ حکومتی ادارے دھرتی کے اس بیمار فنکار کے علاج معالجہ کے لیے تو کچھ نہیں کر سکے.اللہ کرے کہ اب انہیں اس کے حق کا احساس ہو جائے. چلو ان کی زندگی میں ان کے لیے کچھ نہیں کیا جا سکا تو کم ازکم اب اس کے مرنے کے بعد ڈپٹی کمشنر کی جانب سے سول ایواڈ کے لیے بھیجی جانے والی درخواست اور فائل کو منظور کرکے اس کے فن اور خدمات کا اعتراف کر کے اس کے پسماندگان کے لیے تسکین اور ریلیف کا سامان مہیا کیا جا سکتا ہے .

فیروزہ تحیصل لیاقت پور ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے نامور گائیگ و گلوکار فقیرا بھگت کو بھی غالبا بعد از وفات گیارہ سال بعد سرکاری ایوارڈ سے نوازا گیا تھا. اس کے لیے باقاعدہ خطے کے عوام نے تحریک کی صورت میں آواز اٹھائی تھی تب کر انہیں صدارتی تمغہ امتیاز کا حق دیا گیا تھا.

حکمران کرشن لعل بھیل کے ساتھ کیا کرتے ہیں اس کا فیصلہ بہت جلد آنے والا وقت ہی کر دے گا.یہاں اگر میں اپنے جائز حق سے محروم احمد پور شرقیہ ضلع بہاول پور کے عظیم گائیگ گلوکار بھائیوں کی جوڑی جمیل پروانہ نصیر مستانہ کا ذکر نہ کروں تو یہ زیادتی ہوگی اور بھی بہت سارے فنکار ہیں جو ابھی تک نظر انداز کیے جا رہے ہیں.

کیونکہ سرائیکی خطے کے فنکاروں کی پشت سیاسی شفارش سے محروم ہوتی ہے. بیورو کریسی میں ان کی رسائی کوسوں دور کی بات ہے. کچھ کم پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے اور کچھ ترقی کے کامیاب زینے خوشامد کے فن دے نا آشنا ہونے کی وجہ سے روہی کی ریت کی طرح اڑتے اور بکھرتے رہتے ہیں .کرشن لعل کا فنکار برداری میں نام عزت و مقام اور احترام کا اندازہ یہاں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ خطہ سرائیکستان پاکستان کی نامور گلوکارہ محترم ثریا ملتانیکر کی گلوکارہ صاحبزادی سابق انچارچ پی ٹی وی ملتان سنٹر محترمہ پروفیسر راحت بانو ملتانیکر نے لاہور سے مجھے کرشن لعل بھیل کی اپنے ساتھ ایک یاد گاری تصویر کے ہمراہ ان سے محبت، ان کے بچوں اور خاندان سے غمگساری، دکھ کی سانجھ جدائی کے غم اور افسوس کا جس انداز میں اظہار کیا ہے وہ اس بات اور حقیقت کا مظہر ہے کہ کرشن لعل یقینا لوگوں کے دلوں میں بسنے والا انسان تھا. کرشن لعل سرائیکی موسیقی کا ایک لعل اور ہیرا تھا. میرا وسیب میرا دیس ایک اچھے اور بھر پور ثقافتی فنکار سے محروم ہو گیا ہے. محترمہ راحت ملتانیکر کا کرشن لعل کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیشن کرنا یقینا طرفین کی مثبت سوچ، باہمی لگن و احترام کا ثبوت ہے.

%d bloggers like this: