اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاور سیکٹر

سول سوسائیٹی کا پارلیمانی کمیشن برائے پاور سیکٹر آڈٹ کا مطالبہ

دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی سے بُری طرح متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان ساتویں نمبر پر آگیا ھے۔

30اپریل (کراچی، لاھور، اسلام آباد): سول سوسائیٹی نے پاور سیکٹر سےمُتعلق حال ھی میں جاری ھونے والی آڈٹ رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ھوئے ایک پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مُطالبہ کیا ھے۔

سول سوسائیٹی کے نُمائیندوں نے آج یہاں ایک آن لائن پریس کانفرنس میں کہا ھے کہ مُجوزہ پارلیمانی کمیشن اِس آڈٹ رپورٹ میں درج حقائق کی چھان بین کےساتھ ساتھ کوورنا وائرس کے تناظر میں بجلی کے شعبہ کو درپیش مالی، معاشی، سماجی اور ماحولیاتی مسائل کا وسیع النظر جائزہ لے۔

آڈٹ رپورٹ کو ‘درست سمت میں پہلا قدم’ قرار دیتے ھوئے اُنہوں نے کہا کہ پاور سیکٹر کی آڈٹ کا یہ عمل جاری رھنا چاھئے، تاھم اِس عمل کو وسیع البنیاد، جمھوُری، شراکتی اور موسمیاتی تبدیلی کے تقاضوں سے ھم آھنگ بنانے کی ضرورت ھے۔

الائینس فار کلائیمیٹ جسٹس اینڈ کلین انرجی (Alliance for Climate Justice and Clean Energy) کے نُمائندے محمد علی شاہ، ایڈووکیٹ سید غضنفر عباس اور اظھر لاشاری نے اِس آن لائن پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔

گزشتہ کئی سالوں سے بجلی کے شعبہ میں ھونے والی سرمایہ کاری اور ترقی کا رحجان زیادہ تر کوئلہ اور دیگر فاسل فیولز پر چلنے والے ایسے منصوُبوں پر رہا ھے جن سے بجلی کی درآمدی لاگت اور گردشی قرضوں کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تباہ کاری میں خطرناک حد تک اضافہ ھورہا ھے۔ نیشنل انرجی مِکس میں کوئلہ سے پیدا ھونے والی بجلی کا حصہ جو چند سال قبل محض صفر تھا آج 32 فیصد تک پہنچ چُکا ھے۔

دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی سے بُری طرح متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان ساتویں نمبر پر آگیا ھے۔ بجلی کے شعبہ میں اگر سرمایہ کاری اور ترقی کے موجودہ رحجان کو بدل کر ماحول دوست قابل تجدید توانائی کو ترجیح نہیں دی جاتی تو مستقبل میں اس سے مالی عدم استحکام، معاشی غیر فعالیت، گردشی قرضے، بیماریاں، فضائی آلوُدگی اور آبی بحران جیسے مسائل مزید پیچیدہ شکل اختیار کریں گے۔

تھر میں پہلے ھی کوئلہ کی کان کنی اور کوئلہ سے چلنے والے بجلی گھروں کی وجہ سے مقامی باشندوں کو نقل مکانی اور ذرائع معاش کے خاتمہ جیسے سنجیدہ مسائل کا سامنا ھے۔

کوئلے کے اِن منصوُبوں کی وجہ سے تھر میں پانی کا بحران شدت اختیار کر رھا ھے۔ تھر میں اگلے تیس سالوں میں کوئلہ کی کان کُنی کے لئے 4,000 بلین گیلن پانی اور کوئلہ سے 10 گیگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے  8,500 بلین گیلن پانی استعمال ھو گا۔

تھر اور صوبہ سندھ کو درپیش حالیہ آبی بحران کوئلہ کے اِن منصوُبوں کی وجہ سے مزید گھنبیر ھو گا۔ لہذا اِن حالات میں کوئلہ اور دیگر فاسل فیول سے چلنے  والے بجلی کے زیرتکمیل منصوُبوں، بالخصوص تھر کول بلاک ون کے منصوُبوں،  پر جاری کام کو فی الفور بند کرتے ھوئے ایک پارلیمانی کمیشن قائم کیا جائے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں اس وقت بجلی کی پیداواری صلاحیت طلب سے  30 فیصد زائد ھے۔ کوئلہ کے جاری منصوبوں سے بجلی کی زائد پیداواری صلاحیت مستقبل میں کئی گُنا بڑھے گی۔ اِس کے نتیجے میں بے کار اثاثوں کا حجم بڑھے گا جس سے بجلی کے شعبہ کو درپیش مالی و مُعاشی مسائل بھی بڑھیں گے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی نمو میں کمی واقع ھو رھی ھے۔ ماھرین کے مُطابق موجودہ مُعاشی حالات کے پیش نظر ملک میں بجلی کی طلب میں کوئی اضافہ کا کوئی امکان نہیں۔ اِن حالات میں مجوزہ پارلیمانی کمیشن کو توانائی کی حقیقی طلب کو سامنے رکھتے ھوئے بجلی کے جاری روائتی منصوبوں کو ازسرِنو دیکھنے  کے علاوہ پالیسی ترجیحات کی سمت صاف، ماحول دوست قابل تجدید توانئی کی جانب کرنے ضرورت ھے۔ پاور سیکٹر آڈٹ رپورٹ پر تنقید کرتے ھوئے اُنہوں نے کہا کہ آڈٹ کا یہ عمل اپنے دائرہ کار میں انتہائی محدود تھا جس کی وجہ سے مختلف شرکاء کار سے وسیع البنیاد مشاورت ھوئی اور نہ ھی بجلی کے شعبہ کو درپیش متنوع مسائل کاتسلی بخش احاطہ ھو سکا۔ اُنہوں نے کہا کہ بجلی پیدا کرنے والی ٹیکنالوجی کے انتخاب، ٹیرف کے تعین اور بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کی نگرانی جیسے تمام اھم معاملات میں نیپرا کا ایک کلیدی کردار ھے۔ تاھم آڈٹ رپورٹ میں  بڑھتے ھوئے گردشی قرضوں اور بجلی کی پیداواری لاگت میں نیپرا کے کردار کا کوئی جائزہ نہیں لیا گیا اور نہ ھی اِس سلسے میں کوئی اھم نقطہ سامنے لایا گیا ھے۔ اس طرح یک طرفہ جانچ پڑتال کا طریقہ کار اپناتے ھوُئے کمیٹی نے بجلی کے شعبہ میں ھونے والی بدعنوانی کا تمام ملبہ نجی کمپنیوں پر ڈال کر نیپرا کو یکسر مُبرا کر دیا ھے، جو انصاف اور جوابدہی کے بُنیادی تقاضوں کے منافی ھے۔  #

%d bloggers like this: