مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

28اپریل2020:آج ضلع بہاولنگر میں کیا ہوا؟

ضلع بہاولنگر سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

بہاول نگر

(صاحبزادہ وحید کھرل)

پولیس سرکل فورٹ عباس کےایس ایچ او سب انسپکٹر ریاض احمد کی سربراہی میں پولیس ٹیم کی بڑی کارروائی، عرصہ نوسال سے روپوش قتل،

اقدام قتل کے مقدمہ میں ملوث A کیٹیگری کا مجرم اشتہاری گرفتار، وقوعہ سے متعلق تفتیش جاری،

تفصیلات کے مطابق ڈی پی او قدوس بیگ کی ہدایت پر ضلع بھر میں مجرمان ا شتہاری کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے،

Aکیٹیگری کا مجرم اشتہاری محمد وقاص سکنہ خان کالونی فورٹ عباس عرصہ نوسال سے قتل، اقدام قتل کے مقدمہ میں مطلوب تھا، ملزم گرفتاری کے خوف سے مختلف اضلاع میں بھیس بدل کر رہائش پذیر رہا،

ایس ایچ او ریاض احمد نے پولیس ٹیم کی بھاری نفری کے ہمراہ مختلف اضلاع اور ملزم کے مسکن پر گرفتاری کے لیے ریڈ کیے،جدید ٹیکنالوجی اور تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ملزم وقاص کو گرفتار کیا،

وقوعہ سے متعلق ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے، اس موقع پر ڈی پی او قدوس بیگ نے کہا کہ ضلعی پولیس جرائم پیشہ، سماج دشمن عناصر، ڈاکوؤں، چوروں،

اشتہاریوں اور عدالتی مفروران کے خلاف ہراول دستے کا کردار ادا کررہی ہے، جرائم کے خاتمے تک پولیس افسران اسی طرح جانفشانی سے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے رہیں گے۔..


بہاول نگر//

(صاحبزادہ وحید کھرل)

ڈپٹی کمشنر شعیب خان جدون نے کہا ہے کہ حکومت پنجاب کی ہدایات پر کورونا وائرس کے خطرات کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ہر ممکن انسدادی و احتیاطی تدابیر و اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

تاہم ان حکومتی اقدامات کو کامیاب بنانے کے عوام گھروں پر محدود رہیں اور لاک ڈاؤن کی پابندی پر عمل کرکے وائرس کو پھیلنے سے روکیں

یہ بات انہوں نے ڈی سی آفس بہاول نگر کے کمیٹی روم انسداد کرونا جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی جس میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو سیف اللہ ساجد، ڈی ایچ او ڈاکٹر وحید افسر

باجوہ سی ای او ہیلتھ ، پولیس ودیگر متعلقہ محکموں کے افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں کوروناسے متعلق بھی ڈی ایچ او ڈاکٹر وحید افسر نے بریفنگ میں بتایا کہ

ضلع میں 655مشتبہ مریضوں میں سے 590کے کورونا ٹیسٹ نیگیٹو ہیں اور ضلع میں سات مریض کورونا کو شکست دیکر

صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ ضلع بھر میں 41 کورونا پازیٹو کیس ہیں اور 24کیسز کے رزلٹ کا انتظار ہے۔..


بہاولنگر//

(صاحبزادہ وحید کھرل)

بہاولنگر شہر ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ناجائز منافع خور بے لگام انتظامیہ ناکام

سبزیاں،پھل اور دیگر اشیاء خوردنوش مہنگی فروخت ہونے لگیں،پرائس کنٹرول کمیٹیاں خاموش

تفصیلات کے مطابق ماہ رمضان شروع ہوتے ہی سبزیوں پھلوں اور اشیاء خوردنوش مہنگے داموں فروخت ہونے لگیں ناجائز منافع خور بے لگام ہوگئے

اور خود ساختہ مہنگائی پیدا کر کے شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے شہر اور سبزی منڈی میں من مانے ریٹس وصول کیے جانے لگے

تو دوسری جانب پرائس کنٹرول کمیٹیاں اپنی ذمہ داریوں سے انتہائی غافل دیکھائی دے رہی ہیں اور ضلع بھر میں اس حوالے سے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے

دوکاندار من مانے ریٹس وصول کر رہے ہیں جبکہ پہلے ہی غربت اور لاک ڈاون کی چکی میں پسی عوام چیزیں خریدنے کی بجائے انہیں دیکھ کر ہی گزارا کرنے لگی

متوسط طبقے کی چیخ وپکار عام سنائی دے رہی ہے شہریوں نے وزیر اعلی پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ

خود ساختہ مہنگائی کے مرتکب دوکانداروں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے تاکہ عوام مقرر نرخوں پر اشیاء خوردنوش خرید سکیں۔.


بہاولنگر

(صاحبزادہ وحید کھرل)

پولیس تھانہ صدر بہاولنگر کی بڑی کاروائی،عرصہ آٹھ سال سے روپوش ڈکیتی کے مقدمہ میں ملوث مجرم اشتہاری A کیٹیگری عمران گرفتار،مجرم اشتہاری سے وقوعہ بالا سے متعلق تفتیش جاری۔

تفصیلات کے مطابق آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے ویژن،ڈی پی او قدوس بیگ کی ہدایت پر ضلع بھر میں مجرمان اشتہاری،عدالتی مفروران اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔

تھانہ صدر بہاولنگر کے مقدمہ نمبر 87/12بجرم395/412ت پ میں ملوث مجرم اشتہاری A کیٹیگری عمران وقوعہ کے بعد سے ہی مفروراورگرفتاری کے خوف سے بھیس بدل کر

مختلف اضلاع میں روپوش تھا۔ایس ایچ او شاہد حمید نے پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ کاروائی کرتے ہوئے ملزم عمران کو جدید ٹیکنالوجی اورتمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ملزم کو گرفتار کیا۔

اس موقع پر ڈی پی او قدوس بیگ نے کہا کہ ڈسٹرکٹ پولیس جرائم پیشہ افراد کے خلاف اسی طرح کاروائیاں بھرپور انداز میں جاری رکھے گی

اور جرائم کے مکمل خاتمے تک اپنے فرائض منصبی پوری ایمانداری اور جانفشانی سے سرانجام دے رہے ہیں۔.


بہاول نگر//

(صاحبزادہ وحید کھرل)

ڈپٹی کمشنر شعیب خان جدون کی زیر صدارت کورونا کی صورت حال کا جائزہ اجلاس ڈی سی آفس کے کمیٹی روم میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو سیف اللہ ساجد، سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر شاہد سلیم، ایم ایس ، ڈی ایچ او، اور متعلقہ محکموں کے افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ضلع میں655 مشتبہ مریضوں کی سیمپلنگ ہو گئی ہے

اور 590 کے رزلٹ نیگیٹو ہیں اور 24 کے رزلٹ کا انتظار ہے جبکہ 8 مریض کورونا کو شکست دیکر صحت یاب ہوگئے ہیں۔ اس وقت ضلع میں 41کورونا پازیٹو ہیں۔ اجلاس میں ڈپٹی کمشنر شعیب جدون نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کورونا کو ہر حال میں شکست دیں گے

اور انشااللہ عوامی تعاون سے اس وائرس کا خاتمہ کرکے دم لیں گے۔نیزایک اور اجلاس میں ڈپٹی کمشنر شعیب خان جدون نے ڈی سی آفس کے کمیٹی روم میں گندم کی خریداری مہم کے جائزہ اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو سیف اللہ ساجد نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ

ضلع میں سولہ لاکھ سے زائد گندم کی بوریاں خریدی جا چکی ہیں اور یہ مجموعی خریداری کا 46 فیصد ہے اور انشااللہ آئندہ دس روز میں گندم کی خریداری کا تین لاکھ پچپن ہزار سے زائد میٹرک ٹن ہدف حاصل کرلیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ 79 فیصد باردانہ جاری کردیا گیا ہے جبکہ 780 ٹن سے زائد گندم کی غیرقانونی ذخیرہ اندوزی کو قبضے میں لیکر خریداری مراکز میں جمع کروائی گئی ہے

نیز 12 مقدمات کا بھی اندراج کیا گیا ہے۔ اس کے بعدڈپٹی کمشنر شعیب خان جدون کی زیر صدارت احساس ایمرجنسی پروگرام کا جائزہ اجلاس ڈی سی آفس کے کمیٹی روم میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں اے ڈی سی آر سیف اللہ ساجد اور متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ وزیراعظم کے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے

دوران ضلع بہاول نگر میں ابتک مجموعی طور پر 75 کروڑ66 لاکھ 48 ہزار روپے کی رقم 61973مستحقین میں تقسیم کردی گئی ہےاور مستحقین میں رقوم کی تقسیم کی شرح 83.75فیصد ہے۔..


بہاولنگر//

(صاحبزادہ وحید کھرل )

تھانہ فقیر والی پولیس نے ایک کروڑ سے زائد مالیت کا مال مسروقہ برآمدکرکے اصل مالکان کے حوالے کردیا۔مدعی مقدمہ کی جانب سے پولیس ٹیم کے لیے ایک لاکھ روپے کا

چیک بطور انعام پیش، ایس پی انوسٹی گیشن طارق محمود نے تفتیشی ٹیم کی جانب سے انعامی چیک کی رقم کورنا وائرس متاثرین کے لیے وقف کرنے کا اعلان کرکے انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثال قائم کردی-

تفصیلات کے مطابق تھانہ فقیروالی پولیس نے بڑی کاروائی کرتے ہوئے بین الاصوبائی گینگ کے دو ملزمان گرفتار کیے اور ملزمان کے قبضہ سے ایک کروڑ روپے سے زائد مالیت کا مال مسروقہ برآمد کیا۔

ایس پی انوسٹی گیشن طارق محمود نے ڈی ایس پی ہارون آباد کے دفتر میں پریس کانفرنس کے دوران مال مسروقہ اصل مالکان کے حوالے کیا تو مقدمہ نمبر63/20بجرم395/412ت پ کے مدعی نے

پولیس کی جانب سے مکمل مال مسروقہ برآمد کرنے پرپولیس ٹیم کے لیے بطور انعام ایک لاکھ روپے کاچیک پیش کیا۔

ایس پی انوسٹی گیشن طارق محمود نے تفتیشی ٹیم کی جانب سے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی ٹیم نے مقدمات کو ٹریس کرنے میں جہاں نہایت پروفیشنلزم کا مظاہرہ کیا

وہیں انعامی رقم کرونا وائرس کے متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کرکے انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثال قائم کی اور محکمہ کا وقار بلند کیا ہے۔

پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایس پی انوسٹی گیشن نے کہا کہ ضلعی پولیس عوام کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ ساتھ موجودہ ہنگامی صورتحال میں شہریوں کے لیے راشن تقسیم کرنے کا بھی بندوبست کررہی ہے،

مصیبت کی اس گھڑی میں بہاولنگر پولیس غریب، مستحق افراد کی مدد کے لیے فرنٹ لائن پر موجود ہے۔

انہوں نے مزید کہا وہ قومیں ہمیشہ آباد رہتی ہیں جو مشکل وقت میں یکجہتی کا مظاہرہ کرتی ہیں،

پریس کانفرنس میں موجودسول سوسائٹی، انجمن تاجران اور صحافی برادری نے بہاولنگر پولیس کی اس کاوش کو خراج تحسین پیش کیا۔.


بہاول نگر//

(صاحبزادہ وحید کھرل)

ڈپٹی کمشنر شعیب خان جدون کی زیر صدارت ضلع میں کلورین سپرے مساجد میں نماز اور تراویح کے دوران ایس او پی ایز کی پابندی اور ڈس انفیکشن سپرے اور

نماریوں میں کورونا کے پیش نظر حفاظتی فاصلے کو یقینی بنانے کا جائزہ اجلاس منعقد ہوا جس میں متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ایم بی مظہر نے

مختلف تحصیلوں کے پبلک مقامات اور بالخصوص مساجد میں جراثیم کش سپرے اور مساجد میں سماجی فاصلے کے لیے دائرے بنانے پر تفصیلی رپورٹ پیش کی۔

اجلاس میں ڈپٹی کمشنر شعیب جدون نے ہدایت کی کہ لوکل گورنمنٹ اور بلدیاتی ادارے صفائی اور سپرے کو خصوصی اہمیت دیں اور مساجد میں علماء کرام سے رابطہ رکھیں

اور کورونا سے بچاو کے اقدامات میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔.


کالم
(عثمان بزدار کاشتکاروں کی خوشحالی کے لیے پرعزم )

تحریر( خدا یار خان چنڑ )

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی 70 سے75 فیصد آبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ زرعی شعبہ سے منسلک ہے ۔ یہاںہرموسم کے لحاظ سے فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔

پنجاب میں دنیا کا قدیم ترین مگربہترین نہری نظام موجود ہے ۔پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کاحصہ تقریباً 20 فیصد ہے۔اپریل کامہینہ گندم کی کٹائی کا ہوتا ہے۔

حکومت پنجاب نے چھوٹے کاشتکاروں کو ان کی پیداوار کا جائز منافع دلانے کیلئے خریداری مہم شروع کی ہے تاکہ

مڈ ل مین کی کمیشن سے بچا جا سکے۔حکومت اس سیزن میں158 ارب روپے سے زائد مالیت کی گندم خریدے گی

جس کیلئے گندم کی کم از کم قیمت خرید1400 روپے فی من مقرر کی گئی ہے اس مقصد کیلئے صوبہ بھر میں 382 گندم خریداری مراکز قائم کئے گئے ہیں۔

خریداری مراکز پر کاشتکاروں کے نمائندگان موجود ہوں گے او رکمپیوٹر ائزڈ سسٹم کے ذریعے کسانوں کی رجسٹریشن کی جائے گی ۔

خریداری کو آسان بنانے کیلئے گرداوری اور فردملکیت کی تصدیق ضروری نہ ہوگی ۔ کاشتکاروں کو فی بوری ڈلیوری چارجز کی ادائیگی 9 روپے کی جائے گی-

کاشتکارکو 100 بوری گندم کی نقد ادائیگی کی جائے گی ۔ اس کے علاوہ پنجاب بھر میں کسی بھی بینک کی برانچ سے رقم کی آسان اورفوری وصولی کی جائے گی ۔

کاشتکاروں کی شکایات کے فوری ازالہ کیلئے صوبائی اور ضلع سطح پر شکایات سیل قائم کئے گئے ہیں۔
کرونا وائرس کی وبا کے پیش نظر خریداری مراکز میں سینی ٹائزراور ہاتھ دھونے کیلئے

صابن اور پانی کا خاص بندوبست کیاگیاہے۔ حکومت پنجاب نے گندم کی کٹائی اور گہائی کے دوران کرونا وائرس سے بچنے کیلئے کسانوں کو احتیاطی تدابیر بھی جاری کی ہیں ۔

وزیراعلی پنجاب کی جانب سے صوبائی وزرا، معاونین اور مشیران کو کرونا کے ساتھ خریداری کے عمل کو صاف شفاف بنانے ، چھوٹے کاشتکاروں کے حقوق کے تحفظ، بغیر کسی رکاوٹ کے باردانہ کی تقسیم

اور خریداری کے عمل کی مانیٹرنگ کا ٹاسک سونپا گیاہے ۔ وزیراعلی عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ رواں برس 45لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

گندم خریداری مہم کے دوران 15 بین الصوبائی داخلی اور خارجی راستوں کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ کاشتکار ہمارے محسن ہیں،

گندم کے دانے دانے اور کاشتکار کی پائی پائی کا تحفظ کریں گے۔کاشتکاروں کی خوشحالی کیلئے پرائم منسٹر زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت پنجاب میں 300 ارب روپے کے پراجیکٹ لائے جا رہے ہیں۔

گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کیلئے ساڑھے 12 ارب روپے کی لاگت سے پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا ہے۔

رواں برس کاشتکاروں کو تصدیق شدہ بیج کی 4 لاکھ بوریاں رعایتی نرخ پر فراہم کی گئی ہیں جبکہ اگلی فصل کیلئے بیج کی 12 لاکھ بوریاں دیں گے۔

فصل بیمہ سکیم کا دائرہ کار بڑھا کر اڑھائی لاکھ کاشتکاروں کی فصل کی انشورنس کی گئی ہے۔کاشتکار کی خوشحالی کیلئے پیداواری لاگت کم کرنا بے حد ضروری ہے۔

پیداواری لاگت کم کرنے کیلئے 52 لاکھ کاشتکاروں کو کھادوں کی خریداری پر ساڑھے 8 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے۔

پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے 28 ارب روپے کی لاگت سے پنجاب میں 10 ہزار کھالوں کو پختہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت پنجاب زرعی ترقی کیلئے مختلف سبزیوں ،

پھلوں اور اجناس کی 80 نئی اقسام متعارف کرا چکی ہے۔غیر معیاری اور جعلی ادویات و کھادوں کے سدباب کیلئے کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم شروع کیا گیا ہے۔

ای کریڈٹ سکیم کے تحت کاشتکاروں کو 15 ارب روپے کے بلاسود قرضے دیئے گئے ہیں۔ زراعت میں کمبائن ہارویسٹر جیسی جدید مشینوں کے استعمال سے نہ صرف وقت بلکہ سرمائے کی بھی بچت ہوتی ہے۔

12.5ایکڑ تک اراضی کے مالک کاشتکاروں کیلئے بلا سود قرضوں کی فراہمی اور 15 ایکڑ زمین کے مالک کاشتکاروں اور مزارعین کو ترجیحی بنیادوں پر قرضوں کا اجرا کیاجارہاہے ۔

چھوٹے کاشتکاروں کی آسانی کیلئے بلا سود قرضہ اب تین کی بجائے ایک قسط میں جاری کیاجائے گا ۔بلا سود زرعی قرضہ رجسٹرڈ کاشتکاروں کو فراہم کیاجائے گا۔

غیر رجسٹرڈ کاشتکار قریبی اراضی ریکارڈ سنٹر پر مفت رجسٹریشن کرواکے قرضہ حاصل کرسکتے ہیں ۔حکومت نے کسانوں کی سہولت اور ان کی فصلوں کی پیداوار کو بروقت منڈیوں تک پہنچانے کیلئے نیاپاکستان منزلیں آسان پروگرام کا آغاز کیاہے ۔

حکومت نے گذشتہ سال کے 28 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کے مقابلہ میں رواں مالی سال میں زرعی ترقی کےلئے 40 ارب 76 کروڑ روپے مختص کئے ہیں –

اس بات سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ حکومت کاشتکاروں کی فلاح و بہبود اور پیداوار بڑھانے میں سنجیدگی سے کام کررہی ہے ۔


(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭….
کالم

صدرمملکت اور علماء کرام کے درمیان معاہدہ
تحریر
(صاحبزادہ وحید کھرل)

آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا صدر مملکت اور علماۓ کرام کے درمیان طے شدہ 20 نکاتی معاہدے نے اپنا رنگ دکھایا اور اکثر مساجد میں جمعہ کی نماز پر جھگڑے شروع ہوگئے۔

ہر نمازی کےدرمیان چھ فٹ فاصلے کی شرط نے جہاں سو نمازیوں کی صف میں سے 75 کو باہر کرکے 25 تک محدود کردیا وہیں پندرہ صفوں میں سے پانچ کم کرکےدس رہ گئیں۔

اس کا نتیجہ یہ کہ پندرہ سو کی جگہ صرف ڈھائی سو نماز ادا کرسکے اور دیگر منہ دیکھتے رہے۔سرکاری دانشوروں نےاس کا حل یہ تجویز کیا تھا کہ

تین مرتبہ خطبہ کرکے الگ الگ جماعت پڑھائی جائے گویا جمعہ نہ ہوا سینما کے شو ہوگئے۔اس کےباوجود لوگوں کی اکثریت جمعہ کی سعادت سے محروم رہ گئی

اور جھگڑوں کی نوبت آگئی۔مسجد اور مدارس سے حکمرانوں اور ان کےآقاؤں کی دشمنی کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں۔

اس کا آغاز ضیاء الحق دور سے ہوا جب مرحوم نے سرکاری طور پر نظام صلوٰۃ قائم کرکے دینی مدارس کی سرپرستی کرتے ہوئے اسلامی اصلاحات کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی۔

یہ اقدام انکل سام اور ان کے چیلوں کو پسند نہ آیا۔یہی وجہ تھی کہ اُس دور میں این جی اوز کے ذریعے مدارس میں زنجیروں سے بندھے بچوں کی وڈیوز کا پروپیگنڈا کرکے انہیں بدنام کرنے کی بھیانک کوششیں کی گئیں۔

مگر مدارس میں دینی تعلیم کے فروغ کا جو سلسلہ شروع ہؤا تھا وہ نہ رک سکا۔لہٰذا ضیاء الحق سے چھٹکارا پانے کے بعد ان قوتوں نے دو دو مرتبہ بے نظیر اور نواز شریف کو حکومت کرنے کا موقع

اسی شرط پر دیا تھا کہ وہ دینی مدارس کا خاتمہ کریں گے۔ لیکن وہ ناکام رہے چنانچہ انہیں ہر بار اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے رخصت کر دیا گیا

اور ان کی جگہ فوجی کمانڈو کو لایا گیا۔اس کمانڈو نے اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے لال مسجد اور اس سےمنسلک مدرسے پر چڑھائی کردی اور بےشمار طالبات اور ان کے اساتذہ کو بلاسبب بمباری سے جلا کر راکھ کردیا۔

کمانڈو اوراس کے چیلے اپنےانجام سے دوچار ہیں۔مگر ان کی جگہ لینے والوں نے تاریخ سے مطلق سبق حاصل نہیں کیا۔

اللہ کے گھر میں صرف اللہ کا حکم چلے گا۔ اس حقیقت سے روگردانی کرنے والوں کو اقتدار کی ہوس اور ڈالروں کی چمک نے اندھا کردیا ہے۔

جس شیطانی وائرس کی آڑمیں انہوں نے پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہےاس کا کمال یہ ھےکہ اس نےخود اپنے خالقوں کو نشانہ بنارکھا ہے-

تازہ ترین خبروں کےمطابق کرونا نےدوماہ میں 50 ہزار سے زائد امریکی ماردیۓ جبکہ متاثرین کی تعداد 9 لاکھ سے اوپر ہے-اسکے برعکس پاکستان میں گزشتہ 2 ماہ کے دوران محض

248 افراد جاں بحق ہوۓ جن میں کرونا کا شائد ایکا دوکا مریض تھا اکثر دیگر امراض کا شکار ہونے والوں پر کرونا کا لیبل لگا کر زبردستی گنتی بڑھائی جارہی ہے-

اسکے اسباب اورمثالیں روزانہ سامنےآتی جا رہی ہیں-ایک شہری نےرو داد سنائی کہ اسکا بھائی پندرہ سال سےجگر کا مریض تھا بدقسمتی سے ہسپتال لے گئے وہاں فوت ہوگیا

تو انتظامیہ نےکرونا کا شکار قرار دےکر قبضے میں لے لیا اور لواحقین کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا-بڑی جدوجہدکے بعد پولیس کو 20 ہزار کی رشوت دے کر لاش حاصل کی

اور قبرستان والوں نے ایک لاکھ روپے لے کر تدفین کی اجازت دی- ایسی بے شمار داستانیں روز ترتیب پا رہی ہیں-دوسری جانب حکمرانوں کاحال یہ ہےکہ

کرونا کی لعنت سےمحفوظ رہنے پر اللہ کا شکر ادا کرنے اور ملکی صنعت وتجارت کو فروغ دینےکی بجاۓ الٹا اس وباء کو فرضی اعدادو شمار کے ذریعے بڑھا چڑھا کر پیش کرنےمیں مصروف عمل ہیں-وہ محاورہ تو آپ نے سنا ہو گا کہ پڑوسن کا منّہ لال دیکھا تو اپنا پیٹ کر کر لیا-

حکمرانوں کا یہ ذوق وشوق بلا سبب نہیں-باخبر ذرائع کے مطابق صیہونی طاقتوں کی آلہ کار نام نہاد اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اس کلچر کو شہ دیتے ہوۓ ایک ہزار ڈالر فی کرونا مریض ادائیگی کررہا ھےتاکہ دنیا بھر میں خوف وہراس کو مزید بڑھایا جاۓ-

لہٰذا 25 اپریل کے اخبار میں شائع 11736 مریضوں کی کل پاکستانی تعداد کو اتنے ہزار ڈالروں میں تبدیل کرکےحساب لگایا جاسکتا ہے- یہی وجہ ہےکہ حکمران صوبے کے ہوں یا مرکز کےکرونا کےفرضی مریضوں کی تعداد روزانہ بڑھ چڑھ کر بیان کرنے میں مصروف ہیں

اور لاک ڈاؤن جاری رکھنےکیلئےایڑی چوٹی کا زور لگا رہےہیں-دوسری جانب شہری ان کی جان کو رو رہے ہیں کہ جلد ازجلد بلا وجہ کے لاک ڈاؤن کےعذاب سے ان کونجات دلائی جاۓ-

اس سلسلے میں سندھ حکومت کی بےچینی اور بےتابی قابل دید ہے کہ اس نے سخت لاک ڈاؤن کو جاری رکھنے کیلۓ بوکھلاہٹ میں گائنی کے ڈاکٹروں سے ہی پریس کانفرنس کروا دی

جن کا کرونا کےعلاج سےدور کا بھی واسطہ نہیں بنتا نہ انھیں اس بارے میں کوئی معلومات حاصل تھیں-ان کا سارا زور مساجد اور تمام کاروبار بند کرکے لاک ڈاؤن سخت کرنے کے مطالبے پر رہا-

اس حوالے سے سندھ کے وزیروں کےبارے میں جو حقائق اب تک منظر عام پرآچکےہیں ان کے مطابق وہ حکمرانی کے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوۓ خلق خدا کو تنگ کرنے میں مصروف ہیں-

وہ چھوٹی بڑی صنعتوں اور تجارتی تنظیموں سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے عوض کروڑوں اور اربوں روپےکی رشوتیں کمانے میں مصروف ہیں-

یہ صورتحال اس امر کی نشاندھی کرتی ھےکہ پاکستان میں کرونا نام کی کوئی جان لیوا وباء موجود نہیں ہے-اگر ایسی کوئی خوفناک لہر موجود ہوتی تو سب سے پہلے یہ پیدا گیر حضرات اپنے بلوں میں

گھستے اور موت کے خوف سے ان کی آواز تک نہ نکلتی-ان کی دیدہ دلیری اس بات کی عکاسی کرتی ہےکہ محض بیرونی آقاؤں کے اشارے اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر ملکی عوام کو ڈرا دھمکا کر

اور ناجائز دباؤ ڈال کر ان سے مال بٹورنےمیں مصروف ہیں-مگر اسکے نتیجے میں ملکی معیشت کا جو بیڑاغرق ہورہا ہےاسکا انہیں کوئی احساس نہیں-

صاف ظاہر ہے جس ملک کی بیوروکریسی کے 22 ہزار 700 سے زائد افسران اور ان کے خاندانوں کے پاس بیرونی ممالک کی شہریت ہوگی اس کے سیاستدان بھی تو دوہرے پاسپورٹ رکھتے ہیں-

لہٰذا ان سے کسی خیر کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے-باخبر ذرائع کے مطابق کرونا فراڈ کی حقیقت جاننے کیلۓ اس سال 6 مارچ کے معروف برٹش میڈیکل جنرل کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں

جس کے مطابق ایک قابل ترین طبّی ماہرکا کہنا ہےکہ کرونا کوختم کرنا ہے تو اس کے ٹیسٹوں کاسلسلہ ختم کردیں آپکی زندگی پہلے جیسی نارمل ہوجائیگی

کیونکہ ان ٹیسٹ کٹس کی اپنی کوئی مستند حیثیت نہیں ہے-اسکی مثال دیتے ہوۓ ایک بھارتی ماہر نےبتایا کہ گذشتہ ہفتے گوہاٹی میں ایک ڈاکٹرکی موت واقع ہوئی جو کرونا سے نہیں بلکہ

کرونا کےخوف سے ہوئی تھی-بھارتی ماہر نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ اسکے علاوہ بھی جو لوگ آۓ دن کرونا کے نام پر موت کاشکار ہو رہے ہیں

یہ وہ افراد ہیں جن کوملیریا، ایبولا اور ایچ آئی وی کےساتھ ساتھ دیگر اینٹی بائیوٹک ادویات دی جارہی ہیں-اسکے باوجود اگر کوئی زندہ بچ جاتا ہے تو یہ اسکی قسمت ہے-

لہٰذا اکثر لوگ دنیا بھرمیں کرونا وائرس سےنہیں بلکہ ان الٹی سیدھی ادویات سے مر رہے ہیں جو علاج کےنام پر ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے تجرباتی طور پر دھڑا دھڑ ان پر آزمائی جارہی ہیں

کیونکہ اصل میں تو اب تک کرونا کی دوا دریافت ہی نہیں ہو سکی ہےتوعلاج کیا ہوگا-اسی بھارتی ڈاکٹر نے ایک اور راز سے بھی پردہ اٹھایا-

اس کےمطابق ڈبلیو ایچ او کےحوالےسے انکشاف ہؤا ہےکہ حال ہی میں اس نے”سالیڈیریٹی ٹرائل” کےنام سے ایک آرڈر جاری کیا ہے کہ کرونا کےجو بھی مریض آئیں

ان پر چار ادویات میں سےکوئی ایک آزمائی جاۓ جن میں ملیریا کی دوا، ایبولا کی دوا،ایچ آئی وی کی دوا یا پھر کچھ بھی نہیں شامل ہے-اسکا واضح مطلب یہ ہے کہ

اسوقت دنیا بھر کے انسانوں کو لیبارٹری کے چوہے بنا دیا گیا ہے-مثلاً ایبولا وائرس کی جو دوا ہے وہ ابھی تک کسی بھی سطح پر منظور نہیں ھوئی نہ ہی اسے کسی انسان یا حیوان پر آزمایا گیا تھا۔

اس کیلۓ انتظار کیاجارہا تھا کہ کب کچھ لوگ ہتھے چڑھیں تو ان پر آزمائی جاۓ۔کرونا کے شوروغل نے یہ نادر موقع فراہم کردیا اور اب اسکی ٹیسٹنگ بے گناہ انسانوں پردل کھول کرکی جارہی ہے۔


کالم
(عثمان بزدار کاشتکاروں کی خوشحالی کے لیے پرعزم )

تحریر( خدا یار خان چنڑ )

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی 70 سے75 فیصد آبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ زرعی شعبہ سے منسلک ہے ۔ یہاںہرموسم کے لحاظ سے فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔

پنجاب میں دنیا کا قدیم ترین مگربہترین نہری نظام موجود ہے ۔پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کاحصہ تقریباً 20 فیصد ہے۔اپریل کامہینہ گندم کی کٹائی کا ہوتا ہے۔

حکومت پنجاب نے چھوٹے کاشتکاروں کو ان کی پیداوار کا جائز منافع دلانے کیلئے خریداری مہم شروع کی ہے تاکہ مڈ ل مین کی کمیشن سے بچا جا سکے۔

حکومت اس سیزن میں158 ارب روپے سے زائد مالیت کی گندم خریدے گی جس کیلئے گندم کی کم از کم قیمت خرید1400 روپے فی من مقرر کی گئی ہے اس مقصد کیلئے صوبہ بھر

میں 382 گندم خریداری مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ خریداری مراکز پر کاشتکاروں کے نمائندگان موجود ہوں گے او رکمپیوٹر ائزڈ سسٹم کے ذریعے کسانوں کی رجسٹریشن کی جائے گی ۔

خریداری کو آسان بنانے کیلئے گرداوری اور فردملکیت کی تصدیق ضروری نہ ہوگی ۔ کاشتکاروں کو فی بوری ڈلیوری چارجز کی ادائیگی 9 روپے کی جائے گی-

کاشتکارکو 100 بوری گندم کی نقد ادائیگی کی جائے گی ۔ اس کے علاوہ پنجاب بھر میں کسی بھی بینک کی برانچ سے رقم کی آسان اورفوری وصولی کی جائے گی ۔

کاشتکاروں کی شکایات کے فوری ازالہ کیلئے صوبائی اور ضلع سطح پر شکایات سیل قائم کئے گئے ہیں۔
کرونا وائرس کی وبا کے پیش نظر خریداری مراکز میں سینی ٹائزراور ہاتھ دھونے کیلئے صابن

اور پانی کا خاص بندوبست کیاگیاہے۔ حکومت پنجاب نے گندم کی کٹائی اور گہائی کے دوران کرونا وائرس سے بچنے کیلئے کسانوں کو احتیاطی تدابیر بھی جاری کی ہیں ۔

وزیراعلی پنجاب کی جانب سے صوبائی وزرا، معاونین اور مشیران کو کرونا کے ساتھ خریداری کے عمل کو صاف شفاف بنانے ، چھوٹے کاشتکاروں کے حقوق کے تحفظ، بغیر کسی رکاوٹ کے

باردانہ کی تقسیم اور خریداری کے عمل کی مانیٹرنگ کا ٹاسک سونپا گیاہے ۔ وزیراعلی عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ رواں برس 45لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

گندم خریداری مہم کے دوران 15 بین الصوبائی داخلی اور خارجی راستوں کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ کاشتکار ہمارے محسن ہیں، گندم کے دانے دانے اور کاشتکار کی پائی پائی کا تحفظ کریں گے۔

کاشتکاروں کی خوشحالی کیلئے پرائم منسٹر زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت پنجاب میں 300 ارب روپے کے پراجیکٹ لائے جا رہے ہیں۔گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کیلئے ساڑھے 12 ارب روپے کی لاگت سے پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا ہے۔

رواں برس کاشتکاروں کو تصدیق شدہ بیج کی 4 لاکھ بوریاں رعایتی نرخ پر فراہم کی گئی ہیں جبکہ اگلی فصل کیلئے بیج کی 12 لاکھ بوریاں دیں گے۔ فصل بیمہ سکیم کا دائرہ کار بڑھا کر اڑھائی لاکھ کاشتکاروں کی فصل کی انشورنس کی گئی ہے۔

کاشتکار کی خوشحالی کیلئے پیداواری لاگت کم کرنا بے حد ضروری ہے۔ پیداواری لاگت کم کرنے کیلئے 52 لاکھ کاشتکاروں کو کھادوں کی خریداری پر ساڑھے 8 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے۔

پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے 28 ارب روپے کی لاگت سے پنجاب میں 10 ہزار کھالوں کو پختہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت پنجاب زرعی ترقی کیلئے مختلف سبزیوں ،

پھلوں اور اجناس کی 80 نئی اقسام متعارف کرا چکی ہے۔غیر معیاری اور جعلی ادویات و کھادوں کے سدباب کیلئے کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم شروع کیا گیا ہے۔

ای کریڈٹ سکیم کے تحت کاشتکاروں کو 15 ارب روپے کے بلاسود قرضے دیئے گئے ہیں۔ زراعت میں کمبائن ہارویسٹر جیسی جدید مشینوں کے استعمال سے نہ صرف وقت بلکہ سرمائے کی بھی بچت ہوتی ہے۔

12.5ایکڑ تک اراضی کے مالک کاشتکاروں کیلئے بلا سود قرضوں کی فراہمی اور 15 ایکڑ زمین کے مالک کاشتکاروں اور مزارعین کو ترجیحی بنیادوں پر قرضوں کا اجرا کیاجارہاہے ۔

چھوٹے کاشتکاروں کی آسانی کیلئے بلا سود قرضہ اب تین کی بجائے ایک قسط میں جاری کیاجائے گا ۔بلا سود زرعی قرضہ رجسٹرڈ کاشتکاروں کو فراہم کیاجائے گا۔

غیر رجسٹرڈ کاشتکار قریبی اراضی ریکارڈ سنٹر پر مفت رجسٹریشن کرواکے قرضہ حاصل کرسکتے ہیں ۔حکومت نے کسانوں کی سہولت اور ان کی فصلوں کی پیداوار کو بروقت منڈیوں تک

پہنچانے کیلئے نیاپاکستان منزلیں آسان پروگرام کا آغاز کیاہے ۔حکومت نے گذشتہ سال کے 28 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کے مقابلہ میں رواں مالی سال میں زرعی ترقی کےلئے

40 ارب 76 کروڑ روپے مختص کئے ہیں -اس بات سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ حکومت کاشتکاروں کی فلاح و بہبود اور پیداوار بڑھانے میں سنجیدگی سے کام کررہی ہے ۔

(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)


٭….
کالم

صدرمملکت اور علماء کرام کے درمیان معاہدہ
تحریر
(صاحبزادہ وحید کھرل)

آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا صدر مملکت اور علماۓ کرام کے درمیان طے شدہ 20 نکاتی معاہدے نے اپنا رنگ دکھایا اور اکثر مساجد میں جمعہ کی نماز پر جھگڑے شروع ہوگئے۔

ہر نمازی کےدرمیان چھ فٹ فاصلے کی شرط نے جہاں سو نمازیوں کی صف میں سے 75 کو باہر کرکے 25 تک محدود کردیا وہیں پندرہ صفوں میں سے پانچ کم کرکےدس رہ گئیں۔

اس کا نتیجہ یہ کہ پندرہ سو کی جگہ صرف ڈھائی سو نماز ادا کرسکے اور دیگر منہ دیکھتے رہے۔سرکاری دانشوروں نےاس کا حل یہ تجویز کیا تھا کہ تین مرتبہ خطبہ کرکے الگ الگ جماعت پڑھائی جائے

گویا جمعہ نہ ہوا سینما کے شو ہوگئے۔اس کےباوجود لوگوں کی اکثریت جمعہ کی سعادت سے محروم رہ گئی اور جھگڑوں کی نوبت آگئی۔مسجد اور مدارس سے حکمرانوں اور ان کےآقاؤں کی دشمنی کی

تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں۔اس کا آغاز ضیاء الحق دور سے ہوا جب مرحوم نے سرکاری طور پر نظام صلوٰۃ قائم کرکے دینی مدارس کی سرپرستی کرتے ہوئے اسلامی اصلاحات کی جانب پیش قدمی کی

کوشش کی۔یہ اقدام انکل سام اور ان کے چیلوں کو پسند نہ آیا۔یہی وجہ تھی کہ اُس دور میں این جی اوز کے ذریعے مدارس میں زنجیروں سے بندھے بچوں کی وڈیوز کا پروپیگنڈا کرکے انہیں بدنام کرنے کی

بھیانک کوششیں کی گئیں۔مگر مدارس میں دینی تعلیم کے فروغ کا جو سلسلہ شروع ہؤا تھا وہ نہ رک سکا۔لہٰذا ضیاء الحق سے چھٹکارا پانے کے بعد ان قوتوں نے دو دو مرتبہ بے نظیر اور نواز شریف کو حکومت کرنے کا موقع اسی شرط پر دیا تھا کہ وہ دینی مدارس کا خاتمہ کریں گے۔

لیکن وہ ناکام رہے چنانچہ انہیں ہر بار اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ فوجی کمانڈو کو لایا گیا۔اس کمانڈو نے اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے لال مسجد اور اس سےمنسلک مدرسے پر چڑھائی کردی

اور بےشمار طالبات اور ان کے اساتذہ کو بلاسبب بمباری سے جلا کر راکھ کردیا۔کمانڈو اوراس کے چیلے اپنےانجام سے دوچار ہیں۔مگر ان کی جگہ لینے والوں نے تاریخ سے مطلق سبق حاصل نہیں کیا۔اللہ کے گھر میں صرف اللہ کا حکم چلے گا۔

اس حقیقت سے روگردانی کرنے والوں کو اقتدار کی ہوس اور ڈالروں کی چمک نے اندھا کردیا ہے۔جس شیطانی وائرس کی آڑمیں انہوں نے پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے

اس کا کمال یہ ھےکہ اس نےخود اپنے خالقوں کو نشانہ بنارکھا ہے-تازہ ترین خبروں کےمطابق کرونا نےدوماہ میں 50 ہزار سے زائد امریکی ماردیۓ

جبکہ متاثرین کی تعداد 9 لاکھ سے اوپر ہے-اسکے برعکس پاکستان میں گزشتہ 2 ماہ کے دوران محض 248 افراد جاں بحق ہوۓ جن میں کرونا کا شائد ایکا دوکا مریض تھا

اکثر دیگر امراض کا شکار ہونے والوں پر کرونا کا لیبل لگا کر زبردستی گنتی بڑھائی جارہی ہے-اسکے اسباب اورمثالیں روزانہ سامنےآتی جا رہی ہیں-

ایک شہری نےرو داد سنائی کہ اسکا بھائی پندرہ سال سےجگر کا مریض تھا بدقسمتی سے ہسپتال لے گئے وہاں فوت ہوگیا تو انتظامیہ نےکرونا کا شکار قرار دےکر قبضے میں لے لیا

اور لواحقین کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا-بڑی جدوجہدکے بعد پولیس کو 20 ہزار کی رشوت دے کر لاش حاصل کی اور قبرستان والوں نے ایک لاکھ روپے لے کر تدفین کی اجازت دی-

ایسی بے شمار داستانیں روز ترتیب پا رہی ہیں-دوسری جانب حکمرانوں کاحال یہ ہےکہ کرونا کی لعنت سےمحفوظ رہنے پر اللہ کا شکر ادا کرنے اور ملکی صنعت وتجارت کو فروغ دینےکی بجاۓ

الٹا اس وباء کو فرضی اعدادو شمار کے ذریعے بڑھا چڑھا کر پیش کرنےمیں مصروف عمل ہیں-وہ محاورہ تو آپ نے سنا ہو گا کہ پڑوسن کا منّہ لال دیکھا تو اپنا پیٹ کر کر لیا-

حکمرانوں کا یہ ذوق وشوق بلا سبب نہیں-باخبر ذرائع کے مطابق صیہونی طاقتوں کی آلہ کار نام نہاد اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اس کلچر کو شہ دیتے ہوۓ ایک ہزار

ڈالر فی کرونا مریض ادائیگی کررہا ھےتاکہ دنیا بھر میں خوف وہراس کو مزید بڑھایا جاۓ-لہٰذا 25 اپریل کے اخبار میں شائع 11736 مریضوں کی کل پاکستانی تعداد کو اتنے ہزار ڈالروں میں

تبدیل کرکےحساب لگایا جاسکتا ہے- یہی وجہ ہےکہ حکمران صوبے کے ہوں یا مرکز کےکرونا کےفرضی مریضوں کی تعداد روزانہ بڑھ چڑھ کر بیان کرنے میں مصروف ہیں

اور لاک ڈاؤن جاری رکھنےکیلئےایڑی چوٹی کا زور لگا رہےہیں-دوسری جانب شہری ان کی جان کو رو رہے ہیں کہ جلد ازجلد بلا وجہ کے لاک ڈاؤن کےعذاب سے ان کونجات دلائی جاۓ-

اس سلسلے میں سندھ حکومت کی بےچینی اور بےتابی قابل دید ہے کہ اس نے سخت لاک ڈاؤن کو جاری رکھنے کیلۓ بوکھلاہٹ میں گائنی کے ڈاکٹروں سے ہی پریس کانفرنس کروا دی

جن کا کرونا کےعلاج سےدور کا بھی واسطہ نہیں بنتا نہ انھیں اس بارے میں کوئی معلومات حاصل تھیں-ان کا سارا زور مساجد اور تمام کاروبار بند کرکے لاک ڈاؤن سخت کرنے کے مطالبے پر رہا-

اس حوالے سے سندھ کے وزیروں کےبارے میں جو حقائق اب تک منظر عام پرآچکےہیں ان کے مطابق وہ حکمرانی کے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوۓ خلق خدا کو تنگ کرنے میں مصروف ہیں-

وہ چھوٹی بڑی صنعتوں اور تجارتی تنظیموں سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے عوض کروڑوں اور اربوں روپےکی رشوتیں کمانے میں مصروف ہیں-یہ صورتحال اس امر کی نشاندھی کرتی ھےکہ پاکستان میں کرونا نام کی کوئی جان لیوا وباء موجود نہیں ہے-

اگر ایسی کوئی خوفناک لہر موجود ہوتی تو سب سے پہلے یہ پیدا گیر حضرات اپنے بلوں میں گھستے اور موت کے خوف سے ان کی آواز تک نہ نکلتی-ان کی دیدہ دلیری اس بات کی عکاسی کرتی ہےکہ

محض بیرونی آقاؤں کے اشارے اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر ملکی عوام کو ڈرا دھمکا کر اور ناجائز دباؤ ڈال کر ان سے مال بٹورنےمیں مصروف ہیں-مگر اسکے نتیجے میں ملکی معیشت کا جو بیڑاغرق ہورہا ہے

اسکا انہیں کوئی احساس نہیں-صاف ظاہر ہے جس ملک کی بیوروکریسی کے 22 ہزار 700 سے زائد افسران اور ان کے خاندانوں کے پاس بیرونی ممالک کی شہریت ہوگی اس کے سیاستدان بھی تو دوہرے پاسپورٹ رکھتے ہیں- لہٰذا ان سے کسی خیر کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے-

باخبر ذرائع کے مطابق کرونا فراڈ کی حقیقت جاننے کیلۓ اس سال 6 مارچ کے معروف برٹش میڈیکل جنرل کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق ایک قابل ترین طبّی ماہرکا کہنا ہےکہ

کرونا کوختم کرنا ہے تو اس کے ٹیسٹوں کاسلسلہ ختم کردیں آپکی زندگی پہلے جیسی نارمل ہوجائیگی کیونکہ ان ٹیسٹ کٹس کی اپنی کوئی مستند حیثیت نہیں ہے-

اسکی مثال دیتے ہوۓ ایک بھارتی ماہر نےبتایا کہ گذشتہ ہفتے گوہاٹی میں ایک ڈاکٹرکی موت واقع ہوئی جو کرونا سے نہیں بلکہ کرونا کےخوف سے ہوئی تھی-

بھارتی ماہر نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ اسکے علاوہ بھی جو لوگ آۓ دن کرونا کے نام پر موت کاشکار ہو رہے ہیں یہ وہ افراد ہیں جن کوملیریا،

ایبولا اور ایچ آئی وی کےساتھ ساتھ دیگر اینٹی بائیوٹک ادویات دی جارہی ہیں-اسکے باوجود اگر کوئی زندہ بچ جاتا ہے تو یہ اسکی قسمت ہے-لہٰذا اکثر لوگ دنیا بھرمیں کرونا وائرس سےنہیں بلکہ

ان الٹی سیدھی ادویات سے مر رہے ہیں جو علاج کےنام پر ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے تجرباتی طور پر دھڑا دھڑ ان پر آزمائی جارہی ہیں

کیونکہ اصل میں تو اب تک کرونا کی دوا دریافت ہی نہیں ہو سکی ہےتوعلاج کیا ہوگا-اسی بھارتی ڈاکٹر نے ایک اور راز سے بھی پردہ اٹھایا- اس کےمطابق ڈبلیو ایچ او کےحوالےسے انکشاف ہؤا ہےکہ حال ہی میں اس نے”سالیڈیریٹی ٹرائل” کےنام سے ایک آرڈر جاری کیا ہے کہ

کرونا کےجو بھی مریض آئیں ان پر چار ادویات میں سےکوئی ایک آزمائی جاۓ جن میں ملیریا کی دوا، ایبولا کی دوا،ایچ آئی وی کی دوا یا پھر کچھ بھی نہیں شامل ہے-

اسکا واضح مطلب یہ ہے کہ اسوقت دنیا بھر کے انسانوں کو لیبارٹری کے چوہے بنا دیا گیا ہے-

مثلاً ایبولا وائرس کی جو دوا ہے وہ ابھی تک کسی بھی سطح پر منظور نہیں ھوئی نہ ہی اسے کسی انسان یا حیوان پر آزمایا گیا تھا۔

اس کیلۓ انتظار کیاجارہا تھا کہ کب کچھ لوگ ہتھے چڑھیں تو ان پر آزمائی جاۓ۔کرونا کے شوروغل نے یہ نادر موقع فراہم کردیا اور اب اسکی ٹیسٹنگ بے گناہ انسانوں پردل کھول کرکی جارہی ہے۔.

%d bloggers like this: