اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کسان شوگر مافیا کا کھاج اور ملک پر راج کیوں؟ سید محمود الحق بخاری

ہمارے جو ریسرچ سینٹر ہیں. ان کو بھی اتنے فنڈز ہی نہیں مہیا کیے جاتے یا ان کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی کہ وہ وہ اس میں دلچسپی لیں.

السلام علیکم محترم بھائی ایم۔ڈی۔ گانگا صاحب آپ کا کالم شوگر مافیا۔حکمران۔اورکسان
نظر سے گزرا جس میں کافی حد تک کسانوں کے ساتھ ھونے والے مظالم لوٹ کھسوٹ پر روشنی ڈالی ہے میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس میں کسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تجویز پیش کریں شوگر کین پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینے کے بعد کسان بچاؤ تحریک کی طرف سے حکومتی اداروں کو دیں
1.گنےکی سپورٹ پرائس کا طریقہ کار کیا ھونا چاھئیے اور موجودہ طریقے میں کیا خامیاں ہیں اور کس طرح سے کسانوں کا استحصال کیا جاتا ہے؟
2۔پرمٹ کی تقسیم اور شوگر ملز مافیا کی مکمل اجارہ داری اس نظام میں غریب 12 ایکڑوں سے کم کسانوں کی پریشانی کی نشاندھی پرمٹ مڈل مین کو دے کرسستا گنا خرید کیا جاتا ہے وغیرہ شامل ہیں۔ ھمیں اس کا حل بھی تجویز کر نا چاہیے انڈیا برازیل اور دیگر ممالک میں کیا طریقہ اختیار کیا گیا ہے
3. میرا مشورہ ہے کہ تقریباً 4ماہ کے کریشنگ سیزن کا مکمل شیڈول جاری کر دینا چاہیے 2-4-6-8-10-12-20-25-50-100-150-200-300-400
ایکڑ گنا کی کاشت کے مطابق تمام گنے کے کاشتکاروں کا ڈیٹا شوگر ملز مافیا اور زراعت محکمہ کے پاس موجود ھوتا ھے ہر مل اپنی ضرورت کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر 4ماہ کاشیڈول اپنی جاری کردہ پاس بک پر پرنٹ کریں
4.کٹوتی شوگر ملز مافیا کی طرف سے کسانوں کے گنا کی کٹوتی معمول بن گیا ہے ھم اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی سال بھر کی حلال کی کمائی کو لٹتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر کچھ نہیں کر پاتے ایک اندازے کے مطابق روزانہ ایک شوگر ملز مافیا 70سے 80.من کٹوتی کرتی ہے 190 روپے کے حساب سے ایک ٹرالی سے کی جانے والی کٹوتی کی رقم 13000 کے لگ بھگ بنتی ہے فرض کریں ایک مل 24 گھنٹوں میں 24 سو گنے کی ٹرالی کریش کرتی ہے تو 24 گھنٹوں میں یہ رقم کتنی بنتی ہے آپ خود اندازہ کرلیں کسان ان اس کی کی باضابطہ درخواست ضلعی انتظامیہ کو دے میری مراد ڈپٹی کمشنر اور ہم شوگر کین کمیٹی کی میٹنگ میں میں بھی اس ایشو کو اٹھاتے ہیں تو ہمارے لیے محترم ڈپٹی کمشنر صاحبان کہتے ہیں ہیں کہ شوگر کین پالیسی میں کوئی ایسی ہدایت یا اختیار ہمیں نہیں ہے جس پر ہم متعلقہ شوگر مل کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں اور بڑے ہی دکھ کی بات ہے کہ اگر کوئی ریڑی والا کوئی چھوٹی دکان والا کم تول لے یا زیادہ ریٹ وصول کرلے تو ہماری یہی بیو کریسی ایسی شیر بن جاتی ہے اور ان کے خلاف صرف چالان بھی ہوتا ہے جرمانہ بھی ہوتا ہے ایف آئی آر بھی ہوتی ہے مگر یہ طاقتور لوگ جو دن دیہاڑے کسانوں پر ڈکیٹی مارتے ہیں. قانون کے رکھوالے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں مجھے اس بات پر بھی افسوس ہے ھماری بیوروکریسی یہ حلف لے کر آتی ہے کہ ھم ملک کے وفادار رھیں گے مظلوموں کو انصاف فراہم کریں گے مگر کسان چیختا چلاتا ھے وزیر اعظم وزیر اعلیٰ سیکرٹری وزیر کین کمشنر کوئی ادارہ بھی کسانوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا شائد اس وجہ سے میرا پاکستان ترقی نہیں کر پا رہا. ایک اور بڑا ظلم یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کسی بھی حکومت نے زراعت پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارا ہمسایہ ملک ایک وہ پیداوار کے حوالے سے اپنے آپ کو بہت آگے لے گئے ہیں مگر بدقسمتی سے سے ہمارے پالیسی ساز ہماری حکومتیں اور ہمارے ادارے تھے اس قدر پیچھے ہیں کہ ہم جتنی بھی محنت کرلیں ہم ان کے برابر نہیں ہوسکتے کوئی ریسرچ کا کام نہیں ہے دیگر جو اشیاء ہیں وہ مہنگی سے مہنگی بھی اور ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں. ہمارے جو ریسرچ سینٹر ہیں. ان کو بھی اتنے فنڈز ہی نہیں مہیا کیے جاتے یا ان کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی کہ وہ وہ اس میں دلچسپی لیں. یہ کیا وجہ ہے کہ برازیل کی فی ایکڑ پیداوار جو ہے وہ تین سے پانچ ہزار من ہے انڈیا کی فی ایکڑ پیداوار دو سے تین ہزار من پر ایکڑ ہے اور میرے ملک کے اندر پاکستان کے اندر یہ پیداوار ساڑھے چھ سو 700 من ہے کتنی شرم کی بات ہے اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ کسان کو اچھے بیج مہیا نہیں کیے جاتے ہیں پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی یونیورسٹی پشاور فیصل آباد پنڈی ملتان سندھ میں بھی بہت کم تعداد ہے اور ریسرچ سینٹر بھی کوئی قابل ذکر کامیابیاں حاصل نہیں کر پائےبنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے. میں سمجھتا ہوں یہ پرائیویٹ ادارے جو لاکھوں اربوں روپے کروڑوں روپے کسانوں سے حاصل کرتے ہیں مگر انہوں نے بھی کسانوں کی بہتری کیلئے کوئی نمایاں خدمات سرانجام نہیں دیں وہ صرف اپنے پیٹ کو دیکھتے ہیں ہیں کوئی بھی ایسا مجھے ادارہ نظر نہیں آیا یا فرٹیلائزر کی طرف سے جو شوگرملز ہے ان کی طرف سے جو ٹیکسٹائل مل ہیں جو اربوں کھربوں روپے کماتے ہیں ہیں مگر اس حوالے سے ان کی کوئی خدمت نہیں ہے تو ان چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ کہوں گا ان حالات کے تناظر میں کہ آج شوگر کے، ان کی فصل کے حوالے سے ہمیں شوگر کین جو ایکٹ اور شوگر کین پالیسی ہے اس کو وزیراعظم پاکستان سے دست بستہ ہم درخواست کریں گے کہ وہ اس پالیسی کو دوبارہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے حقیقی معنوں میں عام کسان کے مسائل اور مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے شوگر کین پالیسی اور ایکٹ کو دوبارہ سے مرتب کیے جانے کی اشد ضرورت ہے ایک اھم بات یہ بھی ہے کہ آج تک جتنے بھی حکمران آئے ہیں وہ شوگر ملز کے مالکان تھے میری مراد میاں نواز شریف۔میاں شہبازشریف آصف علی زرداری چودھری پرویز الٰہی جہانگیر ترین مخدوم خسرو بختیار ذکا اشرف ھمایوں اختر وغیرہ شامل ہیں ھمارے سیاست دان ایم این ایز اور ایم پی ایز سمیت بڑے بڑے کاروباروں میں ملوث ہیں اور انہی نے تمام حکومتی اداروں اور پالیسی سازوں کو یرغمال بنا رکھا ہے اور خریدا ھوا ہے وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب کاروباری شخصیت نہیں ھیں انہوں نے اپنی کسی شوگر ملز کو کسی ٹیکسٹائل ملز کو فلور ملز کو کسی پولٹری کے کاروبار کسی پیسٹیسائڈ کوئی سیڈ کمپنیوں کو فائدے نہیں پہنچانے ھیں مگر ایک ڈر ضرور لگا رہتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب کے اردگرد کاروباری شخصیات نے گھیرا ضرور ڈال رکھا ہے خبردار ھوشیار خان صاحب پھر نا کہنا خبر نا ھوئی تھی ابھی آپکے ساتھ چینی اور آٹا بحران کی شکل میں ہاتھ ھو چکا ھے انہوں نے پہلے کسان کو لوٹا پھر سبسڈی لی پھر ریٹ میں اضافہ کیا محترم وزیر اعظم کیا آپ کو معلوم ہے جو یہ گنے کے کسان سے اربوں روپے کی کٹوتی کرتے ہیں وہ کسی قانونی لکھت پڑھت میں نہیں آتا اس سے کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری بھی دھڑلے سے یہ شوگر مافیا کرتا ہے میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ ایف آئی اے کو حکم دیں تو وہ اصل ریکارڈ قبضے میں لے کر تحقیقات کریں تو کسانوں کی خون پسینے سے لوٹی ہوئی کٹوتی کی مد میں رقم واپس دلائی جاسکتی ہے اور کروڑوں میں ایف بی آر ٹیکس بھی وصول کر سکتی ہے مگر یہ ایک دیوانے کا خواب ہے وزیراعظم پاکستان میری آپ سے دردمندانہ اپیل ہے آپ 5 سالوں کے لیے ملک میں زرعی ایمرجنسی نافذ کریں کسان آپکو کبھی مایوس نہیں کرے گا۔ آپ اس مافیا کو اربوں میں سبسڈی دیتے ہیں اگر آپ کسانوں کو اس کی فصلوں کے صحیح ریٹ دیں اھم فصلوں کی سپورٹ پرائس مقرر کریں تو فوڈ سکیورٹی کے لیے اربوں روپے زرمبادلہ خرچ نہ کرنا پڑے جیسے دالیں۔کوکنگ آئل پتی اور دیگر اجناس قابل ذکر ہیں ظلم کی انتہا یہ ہے کہ کسانوں کو زرعی مقاصد کے لیے جو قرض فراہم کیے جاتے ہیں اس پر سود 18/ پرسنٹ تک وصول کیا جاتا ہے جس سے کسان قرضوں کی دلدل میں پھنس کر رہ جاتا ہے ان نامساعد حالات کے باوجود بھی کسان نے کبھی اپنے ملک میں اناج کی کمی نہیں ھونے دی ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ بھرپور توجہ کی ضرورت دی جائے کسان خوشحال تو پاکستان خوشحال کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے عملی اقدامات اٹھائیں کپاس نقداور فصل ھے اس فصل سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا سبب بنتی ہے کبھی وقت تھا پاکستان ڈیڑھ کروڑ گانٹھیں بناتا تھا اورھمارا ھمسایہ ملک انڈیا نوے لاکھ آج پاکستان اسی لاکھ اور انڈیا 4کروڑ گانٹھیں بنارھا ہے ایک وقت تھا جب پنجاب میں تقریباً 75لاکھ ایکڑ اور سندھ میں تقریباً 25 لاکھ ایکڑ اراضی پر کپاس کاشت ھوتی تھی اور اب پنجاب میں تقریباً 42لاکھ اور سندھ میں تقریباً 12لاکھ ایکڑ پر کاشت کی جاتی ہے اب گنا گناہ بن چکا ہے اور مادر وطن پربوجھ بھی ھم یہ سمجھتے ہیں حکومت فوری طور پر کپاس کی پر کشش سپورٹ پرائس مقرر کرے تاکہ کسان ادھر کو مائل ہو جو سبسڈی شوگر ملز مافیا کو دی جاتی ہے اس کا رخ کپاس کی طرف موڑ دیا جائے
کچھ باتیں ان کہی رہنے دو
کچھ باتیں ان سنی رہنے دو
سب باتیں اگر کہہ دیں تو
باقی کیا رہے جائے گا. آخر میں بس اتنا ہی عرض کیے دیتا ہوں کہ وطن عزیز میں کسان شوگر مافیا کا کھاج بنا ہوا ہے اور ملک پر شوگر مافیا کا راج اور ہولڈ ہے. آخر کیوں?

%d bloggers like this: