اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فلاحی کاموں میں ہمدردی کا تڑکہ ۔۔۔ شکیل نتکانی

شاہ محمود قریشی کے لئے یہ سب تکلیف دہ تھا سلمان نعیم کے ذریعے اسے جو سیاسی زخم لگایا گیا تھا اس زخم سے ٹیسیں تو ابھی بھی اٹھتی ہوں گی

جھوٹ بولنا اور پھر اس جھوٹ کی بنیاد پر اپنے لئے ہمدردیاں سمیٹنا الگ بات اور سیاسی مقاصد کے لیے خدمت خلق کرنا الگ بات ہے۔ اخلاقی طور پر دونوں غلط حرکتیں ہیں سیاسی مقاصد کے لئے لوگوں کے کام آنا بہرحال قابلِ قبول ہو سکتا ہے لیکن خود کو کرونا پازیٹیو کہنا کہ میڈیا میں جگہ مل جائے گی بڑی عجیب حرکت ہے سلمان نعیم کے سیاسی مخالفین کا بہرکیف یہی کہنا ہے کہ وہ کرونا پازیٹیو ہے نہ طیب اردگان ہسپتال داخل ہوا ہے کیونکہ اس کا رزلٹ پہلے ہی نیگیٹو آ چکا تھا۔ شاہ محمود قریشی اس کے رفاعی کاموں سے متاثر ہوا تو اس نے اسے سیاست میں آنے کا مشورہ دیا یہاں تک کہ اس بات کا وعدہ بھی کر لیا کہ وہ اس کے نیچے صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے پی ٹی آئی کا امیدوار ہو گا۔ پھر تو ہر رفاعی کام کا مہمان خصوصی شاہ محمود ہوتا تھا ٹکٹوں کی تقسیم شروع ہوئی تو شاہ محمود نے اپنی آنکھوں میں وزیراعلی پنجاب بننے کے سپنے سجا لئے کہ عمران خان کی موجودگی میں وہ وزیراعظم تو نہیں بن سکتا تھا اور یہی وہ وقت تھا جب سلمان نعیم اور شاہ محمود قریشی کے راستے جدا ہوئے کیونکہ شاہ محمود قریشی نے جس حلقے سے سلمان نعیم کو ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا ہوا تھا وہاں سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔

پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے امیدوار چند دیگر لوگوں کی طرح جنہیں پارٹی ٹکٹ نہیں ملے سلمان نعیم نے بھی بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑنے کا اعلان دیا لیکن شاہ محمود کے لئے یہ اعلان کوئی خاص اہمیت کا حامل نہ تھا کیونکہ اسے اپنی جیت کا پورا یقین تھا۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ یہی وہ وقت تھا جب جہانگیر ترین عمران خان کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا کہ شاہ محمود جیسے بھاری بھرکم سیاسی کردار کے حامل شخص کے ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلی بننے سے عمران خان کی بطور وزیراعظم شخصیت اور کردار زیادہ ابھر کر سامنے نہیں آ سکے گا اور شاہ محمود زیادہ موثر ہو جائے گا

اس لئے اسے کسی صورت صوبائی اسمبلی کا الیکشن نہ جیتنے دیا جائے۔ جس کے بعد ترین نے دل شکستہ سلمان نعیم کو حوصلہ دیا ہر ممکن امداد کا وعدہ کیا اور سلمان نعیم دیوانہ وار اپنی الیکشن مہم پر نکل پڑا، شاہ محمود اس ساری گیم سے بے خبر اپنی آنکھوں میں وزرات اعلیٰ کے خواب سجائے شادماں گھومتا پھرتا اپنی مہم چلاتا رہا۔ ضلع کی کم و بیش تمام قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں (ایک دو کو چھوڑ کر) جیتنے کی خوشی، اپنی اور اپنے بیٹے ایک بیک وقت قومی اسمبلی کی نشتیں جیتنے کی خوشیاں اس ایک ہار کی وجہ سے بے معنی ہو گئیں۔

یہ شاید شاہ محمود قریشی کو ملنے والے سب سیاسی صدموں سے بڑا صدمہ تھا۔ سلمان نعیم نے الیکشن لڑنے کے اعلان کے کچھ دن پہلے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ جیت گیا تو وہ کبھی بھی پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہو گا لیکن جیت کے کچھ دنوں کے بعد وہ جہانگیر ترین جہاز میں بیٹھ کر عمران خان سے ملاقات کر رہا تھا

شاہ محمود قریشی کے لئے یہ سب تکلیف دہ تھا سلمان نعیم کے ذریعے اسے جو سیاسی زخم لگایا گیا تھا اس زخم سے ٹیسیں تو ابھی بھی اٹھتی ہوں گی لیکن ان ٹیسوں کی شدت میں عمران خان اور ترین کے درمیان تلخیوں اور اختلافات میں شاید اب کچھ کمی آ گئی ہو گی ترین کا یوں بے آبرو ہو کر عمران خان کے کوچے سے نکلنے سے سلمان نعیم کی سیاست کو بھی یقینی دھچکا لگا ہے اس لئے وہ اپنے فلاحی کاموں کی طرف فوراً زیادہ متوجہ ہو گیا اور لاک ڈاؤن کے دوران شہر کے دس ہزار ضرورت مندوں میں راشن تقسیم کرنے کا اعلان کیا جس کو شہری حلقوں میں نہایت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا جس سے یقیناً اسے سیاسی فائدہ حاصل ہو گا لیکن شاید اسے لگا ہو گا کہ سیاسی فائدے کو بڑھاوا بھی دیا جا سکتا ہے

اگر فلاحی کاموں میں ہمدردی کا تڑکہ لگا لیا جائےاس لئے اسنے خود میڈیا کو یہ خبر جاری کی کہ اس کا کرونا کا ٹیسٹ پازیٹیو آ گیا جبکہ اس کے مخالفین اسے ایک سیاسی ڈرامہ قرار دے رہے ہیں۔

%d bloggers like this: