مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بھٹو کا بھوت۔۔۔ سجاد بلوچ

بھٹو نے تسبیح گلے میں ڈال لی اور مولوی سے کہا کہ مصلا لے کر واپس چلا جائے کیونکہ اپنے خالق سے ملنے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے کا فیصلہ دو دن پہلے دو اپریل کو ہوا۔قانون کے مطابق سزائے موت صبح کے وقت پانچ یا چھ بجے دی جاتی ہے لیکن بھٹو کو پھانسی پر چڑھانے کا وقت دو بجے مقرر کیا گیا۔وجہ حکومت احتجاج سے بچنا چاہتی تھی۔

جلاد تارا مسیح کو بہاولپور سے لاہور لایا گیا۔بھٹوصاحب نے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگا کر اپنی وصیت لکھی۔جسے آج تک کوئی نہیں جان سکا کیونکہ تھوڑی ہی دیر بعد اس نے لائٹر سے کاغذ کو جلا کر راکھ بنادیا۔

پھانسی کی رات سے پہلے بھٹوصاحب نے اپنا شیونگ سیٹ منگوایا اور کہا کہ ”میں کسی ملا جیسا دکھائی دیتے ہوئے نہیں مرنا چاہتا”شیو کرنے کے بعد ہنستے ہوئے کہا "اب میں تیسری دنیا کا لیڈر لگ رہا ہوں” ایک مولوی بھٹو صاحب کی آخری عبادت کےلیے مصلا اور تسبیح لے کرآیا۔

بھٹو نے تسبیح گلے میں ڈال لی اور مولوی سے کہا کہ مصلا لے کر واپس چلا جائے کیونکہ اپنے خالق سے ملنے کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔

رات کے ڈیڑھ بجے جیل حکام بھٹو کو پھانسی گھاٹ لے جانے کے لیے آئے۔سپرنٹنڈنٹ نے کہا”بھٹو صاحب جانے کا وقت آگیا ہے۔ تارا مسیح بھٹو کے منہ پر سیاہ نقاب چڑھانے لگا تو بھٹوصاحب نے منع کردیا۔

ٹھیک دو بجے پھٹا کھینچ دیا گیا اور پاکستان کا صدر وزیراعظم اور سب سے زیادہ مقبول عوامی لیڈر اپنے انجام کو پہنچا۔

بھٹو کی سزائے موت نے اس کے برے کاموں کی یادوں کو مٹا دیااور ملک کے لیے کیے اچھے کاموں کو نمایاں کیا۔انہیں شہید قرار دیا جا چکا ہے۔

لوگ ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے جا رہے ہیں۔قبر کو چوم رہے ہیں اور مٹی کو اپنے چہروں پر ملتے ہیں۔

بھٹو کا بھوت اس کے مزار سے باہر آچکا ہے جوہمارے جرنیلوں کے اقتدار کے خواب کو ڈراونے خواب میں بدل رہا ہے

%d bloggers like this: