مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سانحاتی قوم کا اللّٰہ وارث ۔۔۔ ملک خلیل الرحمٰن واسنی

اس کے شاید مختلف شعبہ جات،افراد اور افسران میں حصے بخرے ہوتے ہونگے اگر نہ بھی ہو نام تو استعمال ہورہا ہے،جو کہ لمحہ فکریہ ہے

پاکستانی قوم ایک محب وطن جفاکش،ٹیلنٹ سے بھرپور،مگر بدقسمتی سے حالات کی بےرخی نے شاید اسے سانحاتی قوم بنادیا ہے اور ہر دور میں کسی سانحے کے بعد ہم کچھ سوچ و بچار کا خیال آتا ہے یا اسکے رونما ہونے کے بعد ایکشن پر مجبور ہوتے ہیں جسکی کئی مثالیں موجود ہیں اور اس قوم کے چند عناصر کسی بھی موقع کو غنیمت جاکر سانحات سے مفاد اٹھانا فرض عین سمجھتے ہیں چاہے وہ کوئی بھی فرداورطبقہ ہو،اور کسی بھی قسم کا طریقہ واردات ہو،اور وہ چند مٹھی بھر عناصر اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے دوسروں کے ارمانوں،مجبوریوں،لاچاریوں اور بے بسی سے کھلواڑ کر کے،اپنی سیاست چمکا کریا چند ٹکے کماکر رزق حلال اور اچھائی کی امید میں دنیا کیساتھ ساتھ عاقبت تو خراب کرتے ہی ہیں مگر معاشرے میں بھی بگاڑ کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں

جسکی مثالیں خود ساختہ مہنگائی،روزمرہ اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت وغیرہ وغیرہ ،اسی طرح کچھ موجودہ کرونا وائرس بحران کے حالات کے پیش نظر پنجاب حکومت کیطرف سے دیہاڑی دار طبقے کی معاونت کا اعلان ہوا تو چند مافیاز اور حکومتی بے توجہی کے باعث چند مختلف نمونے کے فارمزمنظر عام پر آگئے جن کو پر کرنے اور حصول کا باقاعدہ معاوضہ مقرر ہوا،جس پر متعلقہ انتظامیہ کو ایکشن لینا پڑااورکمشنر ڈی جی خان نے بذات خود کاروائی کی اور ایکشن لیا اسی طرح امداد ایپ اور ویب سائٹ پر آن لائن فارم پر کرنے کے لیئے بھی کئی جگہوں پر 30سے 100روپے غریب و سادہ لوح عوام سے لوٹے گئے،

پھر ایس ایم ایس آیا تو بھی 30روپے فی شناختی کارڈ لیکر ایس ایم ایس کرنے والوں نے لیئے اور موقع پراس علاقے میں شکایت اسوجہ سے نہ کی گئی کہ غریب لوگ ہیں دونوں کا نقصان ہوگا۔اور ضلع راجن پور کی انتظامیہ نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہر بڑے شہر میں تین موبائل نمبر بھی رابطے کے لیئے سوشل میڈیا کے توسط سے جاری کیئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا ہر کے توسط میں ہےکیا ہر ایک کو اسکی دسترس حاصل ہے،نہیں کیونکہ یہ سب چیزیں اعلی تعلیم یافتہ اور مہذب معاشروں میں مثال دی جاسکتی ہیں مگر ہمارے ہاں انکا تصور بھی نہیں ہے۔

اگر ہوتا تو مغربی ممالک یا دیگر غیر مسلم ممالک جو کہ کرونا وائرس لپیٹ میں تھے انہوں نے اشیائے خوردونوش و روزمرہ ضروریات زندگی کی اشیاء کے اپنے اپنے علاقوں میں سٹال لگا رکھے تھے کہ جو جس کی ضرورت ہو لیجائےمگر ہم اسکا صرف سوچ بھی نہیں سکتے بدقسمتی سے(اللّٰہ معاف فرمائے)لیکن اس میں بھی پاکستان بھرمیں کوئی شک نہیں کہ مخیر اور امداد کرنے والے افراد،اداروں کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔

لیکن اخلاقی بد اعمالیوں کے سبب اوران سب چیزوں جو کہ مخلوق خدا کو فائدہ پہنچانے کی بجائے نقصان کا موجب ہوں کے بعد بھی ہم خداوند کریم سے خیر کی توقع رکھیں تو شاید یہ طوطا چشمی تو ہوسکتی ہے مگر مصیبتوں اور پریشانیوں سے چھٹکارا بالکل نہیں ہوسکتی اور غریب و مجبور لوگ بھی لالچ میں آکر اس طرح کی غلطیاں کر کے معاشرے میں مزید بگاڑ کا باعث بنتے ہیں،کیونکہ گذشتہ دنوں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے علاقے میں اور بھی اس طرح کے واقعات ہوئے ہونگے مگر میری سماعت کا جو حصہ بنا جس کے ثبوت بھی موجود ہیں

پنجاب پولیس نے دفعہ 144کے تحت دو افراد کو اٹھایا،تھانے میں چند گھنٹے بٹھائے رکھا کیونکہ ڈی پی او راجن پور کا ایک نشریاتی پیغام کانوں سے گزرا کہ حوالات میں حالات کے مد نظرعام لوگوں کو بند نہ کیا جائے بلکہ ڈرا دھمکا کر انکو قوانین پر عمل درآمد کاپابند کیاجائے اور اسی شام وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ٹی وی کے ذریعے اپنے حکم میں کہا کہ لاک ڈائون میں گرفتار افراد کو رہا کیاجائے مگر بدقسمتی سے ان دو افراد کو چھوڑ تو دیا گیا مگر تین ،تین ہزار روپے لیکر۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے شاید مختلف شعبہ جات،افراد اور افسران میں حصے بخرے ہوتے ہونگے اگر نہ بھی ہو نام تو استعمال ہورہا ہے،جو کہ لمحہ فکریہ ہے،یہ تو ہمارا حال ہے،بات جب ثبوت پر آتی ہے لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم غریب لوگ ہیں ہم نے اس معاشرے میں رہنا ہے ہم کسی کی مخالفت مول نہیں لے سکتے آپ تو کاروائی کرادیں گے مگر کیا گارنٹی ہے کہ ہمیں مزید تنگ نہیں کیا جائے گا،کیونکہ ہر دور میں جب بھی کوئی حکومتی امدادی پیکج آتے ہیں تو ایسے مافیاز تمام ترشعبہ ہائے زندگی کے مختلف اداروں میں آجاتے ہیں اور اپنے حصے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیئے بھی راہ ہموار کرانے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

جس کیوجہ سے بڑے بڑے امدادی پیکجز کے بعد بھی ہماری معاشی صورتحال بہتر نہیں ہوپاتی اور نہ ہم شاید چاہتے ہیں کیونکہ اس طرح کے کاروبار زندگی کی لذتیں اتنا رچ بس چکی ہیں کہ مردار چھوٹنے کا نام ہی نہیں لیتی ہیں۔اس سلسلے میں حکومت وقت کو چاہیئے کہ آنیوالے وقتوں میں کچھ اسطرح کا میکنیزم بنائے کہ ایسے مفاد پرست ،ملک وقوم کے دشمن عناصر کا خاتمہ ہوسکے محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کو ہر علاقے میں مزید فعال کیا جائے اور مقامی سطح پر ڈیٹا بیس مرتب کرنے میں اسکا دائرہ کار بھی بڑھایا جائے

بے شک بلدیاتی ادارے فعال یا غیر فعال ہوں اور بہترین حل نادرا نیشنل ڈیٹابیس رجسٹریشن اتھارٹی ہے جب بھی کسی کی شناخت رجسٹرڈ کیجائے تو تمام تر کوائف درج کیئے جائے،مقامی سطح پر موجود اداروں میں مکمل معلومات کی فراہمی، پنجاب ریونیو اتھارٹی،محکمہ سوشل سیکیورٹی،ای او بی آئی و دیگر متعلقہ اداروں کا ویلج/نیبر ہڈ کونسلز/ٹاؤن کمیٹی میں دائرہ اختیار بڑھایا جائے اور ان اداروں میں اگر عوام سے کچھ لیابھی جائے تو اسی تناسب سے لوٹایا بھی جائے تاکہ عوام کا اعتماد بڑھے تاکہ آنیوالی کسی بھی غیر معمولی اور ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیئے موثر اور بہتر حکمت عملی ترتیب دے کر مسائل و پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے جو کہ شاید موجودہ حکومت وقت کی ترجیحات ہیں۔

%d bloggers like this: