مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یار افکارِ!!! اپنا خیال رکھ تو ہمارا بھرم ہے

پھر کیا تھا کہ وقت نے ٹھہر کر اس آواز کو اپنے کندھوں پر سوار کیا اور کہا " بتا تیری رضا کیا ہے " نماتا میں صرف اتنا ہی کہا جا سکتا تھا

محمود مہے

لفظ مرشد پہلی بار جب وسمل پنوار (صابر چشتی) کی نماتا سے ہوتا ہوا سرکار عزیز شاہد کی رومانویت سمیت سماعت سے ٹکرایا تو اس وقت تک یہ لفظ معزز ہو چکا تھا، پورا وسیب اس الوہی لفظ کو زمین پر لا کر زمین زادوں کو مخاطب کرنے کے لیے استعمال کر رہا تھا ، عمروں کی قید سے کہیں دور محبتوں کی سات دریاؤں کی سر زمین پر اسی لفظ مرشد سے بات کا آغاز کیا جاتا تھا حتکہ ” مدت ہوئی مر گیا غالب مگر یاد آتا ہے ( یہ الگ بات ہے کہ گور پیا کوئی ہور) صابر چشتی انکار بھی اسی لفظ سے کرتا تھا کہ ” نا مرشد نا ایویں نہیں ہوندا”
نا مرشد نا ایویں نہیں ہوندا وہ پہلا انکار تھا جو پیا مرشد کو ڈھال بنا کر حاکم مرشد کو کیا گیا تھا ، اور پھر یہ انکار اس وسیب کی طاقت بنتا گیا اور رفعت عباس کی بات سچ ہوئی
جیہڑا کم وی حاکم آکھے نسے کیتا رفعت
اساں اپنڑی آلس اچوں جنگاں جیتیاں ہسے۔

ہمارا انکار ہی ہمارا واحد وسیلہ( ہتھیار کا لفظ دانستہ استعمال نہیں کر رہا ہمارے ماضی کے مزاروں سے ہتھیار برآمد ہی نہیں ہوئے) تھا اور ہے جو روز ہمیں منزل کے قریب کرتا ہے، جسے پیر فرید نے ” تھیسم ہک بلانگ ” کہا تھا اس کو طے کرنے کے لیے ” ہک گاونڑ دا پندھ ہے” ازل سے اپنی بقا کی جنگ لڑتی اس وسوں نے کبھی سکوں نہیں دیکھا ، کبھی گھوڑوں کے سموں سے اڑتی گرد تھمی تو سامنے ہاتھی والے کھڑے تھے، اور کبھی تلواروں پر رقص کرتے ہوئے ” شہسوار” ٹلے ہی تھے کہ توپوں نے دھرتی زادوں کو اڑا دیا۔۔ جنگیں بھی کوئی عجب دکھ ہیں میدان میں ہوں تو مائیں روتی ہیں اور دماغ میں ہوں تو من کو بنجر کر دیں اور یہ جنگ ہی ہے جس میں حضرت انسان اپنے ہونے سے سب کو ختم کرنے تک مصروف رہا ہے اور ہم زمین زاد ” ہک وستی نہیں دو وستیاں نہیں سو شہر ونجا کے بیٹھے ہیں ”
اس ونجے ہوئے شہروں کے نوحہ خواں ہمارے شاعر ہیں جن کے لفظوں سے لہجوں تک میں ازلی اور پرکھوں کی مونجھ بولتی ہے ، ایسی ہی مونجھ بھری آواز تھل کے صحرا سے صرف اتنا کہہ کر ابھری
"مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجئے”
پھر کیا تھا کہ وقت نے ٹھہر کر اس آواز کو اپنے کندھوں پر سوار کیا اور کہا ” بتا تیری رضا کیا ہے ” نماتا میں صرف اتنا ہی کہا جا سکتا تھا
مرشد میں بھونکداں جو کوئی شئے وی نہیں بچی” یہ اتنی قرب ناک آواز تھی کہ روہ روہی تھل دمان اس میں سمٹ آیا اور ایک جہان کے لب پر مرشد مرشد کا ورد جاری ہو گیا ، اور یہ آواز تھی تھلوچڑ افکار علوی کی۔
افکار علوی 23 سالہ سر تا پا جوان شاعر ضرور ہے لیکن اس کے لہجے میں ہزاروں سال کی بوڑھی مونجھ کا بسیرا ہے، وہ مونجھ جو ملہی قوم کو ملعون کہنے کی تھی ، وہ مونجھ جو موہراں کے انکار پر موت پر تھی، وہ مونجھ جو دھرتی کی دھرتی زاد سمیت تاریخ کے گم ہونے کی ہے اس ساری مونجھ نے معصوم افکار کو ضعیفی کے ذائقے سے روشناس کروا دیا ہے، کرتی بھی کیوں نا ، جس قبیل سے اس کا تعلق ہے وہاں 75 سالہ حبیب ابن مظاہر سے 6 ماہ کے علی اصغر تک کے لئے تیر ایک ہی ہے ، وہ تیر زہر آلودہ ہو یا مونجھ میں ڈوبا ہوا۔
عین جوانی میں مشغول جنگ سپاہی شاعروں کا ذکر تاریخ میں ہمیشہ نم ناک آنکھوں سے پڑھنا پڑا ہے وہ پہلی عالمی جنگ کا Wilfred Owen ہو جس نے سپاہی ہونے کے باوجودجنگ کی عظمت کی بجائے اس کے دکھ کو لکھا وہ دکھ جو ماؤں کو رلاتا ہے ، یہ پھر دوسری عالمی جنگ کا سپاہی شاعر Keith Douglus ہو جس نے جذبات سے عاری ہو کر جنگوں کی حقیقت لکھی اور نتیجہ قاری ہر چھوڑ دیا دونوں کا مقدر ایک تھا جو کربلاوں میں اکثر ہوتا ہے کہ

ہمارے ساتھ بھی کم سانحے نہیں گزرے
ہمارے بعد ہمارے بھی دن منانا دوست

لیکن ہمارے افکار علوی پر تو ” پنجتن دی طارق چھاں ہووئے ” جس نے ہماری وسوں کی جنگ لڑنی ہے جیسے ہزاروں سال کی مونجھ اس کے ہمسفر ہوئی ہے تو ہزاروں سالوں کا جیون بھی اس کے نام۔
کوئی عجب روح ہے جو چاہتی ہے کہ شہر میں کچھ روشنی پڑے ، لیکن آسمان سے آگ برسنے کا ادراک بھی ہے اس کو ، ہر دھرتی زاد جیسی نماتا سمیت نکر میں کہیں سادھو کی طرح بیٹھ جاتا ہے اور سوچ رہا ہوتا ہے
وہ جس سے اپنی ہی زلفیں نہیں سنواری گئیں
اسے ہمارا مقدر سنوارنے بھیجا ۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جن کو ہمارا مقدر سنوارنے بھیجا گیا تھا انہوں نے خود کو سنوار لیا ، سارے صحیفے ان کے لئے ہی کھلے ہمارے مسائل تو جوں کے توں رہے کیوں کہ ہمارے لئے تو درس تھا کہ صبر کرنا ہے ۔
تھل سے نکلنے والی یہ آواز وسیب کے بعد پورے ایک جہان کی آواز بن گئی ہے ہر ایک اپنے اپنے ” مرشدوں” سے وقت مانگ رہا ہے ،دکھڑے سنانے کو ، تاریخ کے ان مرشدوں کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے جو
وہ اپنا شجرہ بتانے کے بعد کچھ بھی کرے
ہمارا کام فقط احترام کرنا ہے
جہنوں نے ہماری تاریخ کو آلودہ کیا اور دھرتی زادوں پر بہتان چڑھ گئے ، ان کی ذاتوں کو پلندوں میں دبا دیا گیا، ہمیں راخشس کہا گیا ، ہمیں کالا کہہ کر طعنے دئیے گئے ، ہمارے بھگوان جلائے گئے، اور اب وہ سارے مرشد جواب دہ ہیں ان کے سارے پول کھل گئے ہیں مسلط کئے گئے one liner agenda کے مقابلے میں دھرتی زاد کا متوازی بیانیہ دھرتی زادوں کا گیت بن گیا ہے ، اور وہ گیت جس کے تمام سر ڈاکھنڑی اور جوگ میں کمپوز ہوئے ہیں یہ گیت ہی تحریک بنیں گے ان کے خلاف جہنوں نے ہمارے مرنے پر رج کے روٹی کھائی اور گواہی ہوں گے ان کے لئے جو بھوکے رہ گئے۔ کیوں کہ سچ یہ ہے
یہ شجرے جرم کی ہیئت نہیں بدل سکتے
بھلے کوئی بھی کرے ۔۔ جرم ، جرم ہوتا ہے
افکار علوی کی شاعری وسیب کے اجڑنے کا نوحہ ہے جسے وہ خود ہی پڑھ سکتا ہے ، وینڑ ہے تھل کی رودالیوں کا ، کتھا ہے کسی کی آس میں آدھی بھوک چھوڑنے والوں کی ، ماتم ہے زندگی سے پہلے موت کو محسوس کرنے والوں کا ، انتظار ہے ہاتھوں پر مہندی لگائے سانولیوں کا جن سے ” سائیاں موئی اداکاری وی نا تھئی گئی” کرب ہے ان خواہشوں کا جو یہ سوچیں کہ
اے خدا ! حشر میں بھی ساتھ رہیں
جن کو جن سے بہت محبت ہے
لیکن
پھر ایک روز مقدر سے ہار مانی گئی
جبیں چوم کے بولا گیا خدا حافظ

افکار کی شاعری دھرتی کے قصے کا پھر سے آغاز ہے جسے حملہ آور کی کہانی نے چپ کروا دیا تھا بلکہ اپنے منتر سے ایک جگہ جامد کر دیا تھا اسی شاعری نے وہ سارا جادو توڑا ہے اب نانی وہیں سے پھلا لینے نکلی ہے جہاں پر ساری سامراجی قوتوں نے مل کر چھین لیا تھا ، نولو پہرہ دینے کے لئے جاگ گیا ہے، گیدڑ کی کوک بھبکیاں نہیں اپنے ہونے کی گواہی ہے ، نیم کی کڑواہٹ اس کا عیب نہیں اس کا حسن ہے ، کیکر پر انگور چڑھا کر اس کو برا کہنے کا وقت تمام ہوا کیونکہ اس کے کانٹے اس کے حفاظتی بند ہیں ، جو پنچھی چیں چیں چھوڑ گئے تھے ان کے لوٹ آنے کی باری ہے ۔
یار افکارِ!! یہ سارا سامراجی جادو توڑنے کا شکریہ میری دھرتی پہ پھر سے کہانی چلانے کا شکریہ ، ہم جو سب دیکھ رہے تھے خدا کی طرف اور خدا ہماری طرف اس ساری اس تانگھ میں دھرتی پر اترنے کا شکریہ لیکن
اے مجھ سے دور ! مری بے بسی کو سمجھا کر
کوئی نہیں جو تری خیر کی خبر دے دے ۔

افکار یار!! آپ کی خیر کی خبر بہت ضروری ہے ۔۔ آپ کی آواز وسیب کی آواز ہے یہ آواز سلامت رہے جانتا ہوں
یہ جس حساب سے اپنی زمین کانپتی ہے
یقین کر لیں کہ اب آسمان خطرے میں ہے
لیکن یار افکار!!! آپ کی آواز ہی وہ بانسری کا سر ہے جو اپنے اصل سے جدائی پر ماتم کناں ہونے کے باوجود اس دھرتی کو شانت عطا کرے گی۔
یار افکارِ!!! اپنا خیال رکھ تو ہمارا بھرم ہے ۔

%d bloggers like this: