اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ورچوئل رئیلٹی کی مدد سے انتقال کرجانیوالی بیٹی سے ماں کی ملاقات

اس ویڈیو پر بڑے پیمانے پر تنقید شروع ہو گئی تاہم بہت سے افراد نے ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے بچھڑ جانے والوں کے ساتھ ملاقات کو مثبت بات قرار دیا ہے۔

کورین چینل پر چلنے والا نو منٹ کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے جس میں ایک ماں کو ورچوئل ریلٹی کے ذریعے اپنی اس بیٹی سے گفتگو  کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو 2016 میں فوت ہو گئی تھی۔

یوٹیوب پر اپ لوڈ ہونے والا یہ کلپ ایک کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے اور اس پرکافی  بحث ہو رہی ہے۔

تفصیلات اس کہانی کی یہ ہیں کہ نیون نامی بچی 2016 میں لیوکیمیا کی وجہ سے فوت ہوگئی تھی اور اب ایک کورین ٹیلی وژن نے ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے اسکی ماں سے ملاقات کرا دی۔

ویڈیو کی شروعات میں نیون ایک پارک میں کھیل کود میں مصروف ہے، اس دوران وہ ماں کی طرف بھاگ کر آتی ہے اور پوچھتی ہے کہ”امی، آپ کہاں تھیں؟ میں نے آپ کو بہت یاد کیا۔ کیا آپ نے مجھے یاد کیا؟” اس کی ماں جنگ جی سنگ بہتے آنسوؤں کے ساتھ اپنی بیٹی کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کے بال سنوارتی ہے اور اسے کہتی ہے کہ، “میں نے آپ کو بہت یاد کیا ہے، نیون”۔

لیکن حقیقت میں، جنگ یعنی نیون کی ماں  ایک اسٹوڈیو میں گرین اسکرین کے سامنے کھڑی تھی اور ورچوئل رئیلٹی سے تیار کردہ ہیڈ فون اور چھونے سے حساس دستانے پہنے ہوئے تھے جبکہ اس نے گلے میں ایک لاکٹ پہن رکھا تھا جس میں اس کی بیٹی کی راکھ تھی۔ دوسری جانب نیون کے والد اپنے تین بچوں سمیت آنسو پونچھتے ہوئے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔

ویڈیو کے دوران جنگ اور نیون  ایک ساتھ میز پر بیٹھے اور نیون کی سالگرہ منانے کے لئے “سالگرہ کی مبارکباد” گاتے رہے۔ موم بتیاں بجھاتے ہوئے نیون نے سالگرہ کی خواہش کی کہ میں چاہتی ہوں کہ میری امی نا روئیں۔

اس ویڈیو پر بڑے پیمانے پر تنقید شروع ہو گئی تاہم بہت سے افراد نے ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے بچھڑ جانے والوں کے ساتھ ملاقات کو مثبت بات قرار دیا ہے۔

منہوا براڈکاسٹنگ کارپوریشن (ایم بی سی) کی اس دستاویزی فلم، آئی میٹ یو، کے سامنے آنے کے بعد بہت سے ناظرین نے جنگ کے لئے ہمدردی اور تعاون کی پیش کش کا اظہار بھی کیا۔ ایک نے کہا، “میری والدہ کا غیر متوقع طور پر دو سال قبل انتقال ہوگیا تھا اور میری خواہش ہے کہ میں بھی ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے ان سے مل سکوں”۔

لیکن میڈیا کالم نگار پارک سانگ کا کہنا ہے کہ اس دستاویزی فلم میں انسانی درد کا استحصال کیا گیا ہے۔ انہوں نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا، “یہ بات قابل فہم ہے کہ ایک غم زدہ ماں اپنی مرحوم بیٹی سے ملنا چاہتی ہے۔ میں بھی ایسا ہی کروں گا۔ مسئلہ اس میں ہے کہ براڈ کاسٹر نے ناظرین کی ریٹنگز کی خاطر ایک ایسی کمزور والدہ کا فائدہ اٹھایا ہے جس نے اپنے بچے کو کھویا ہے”۔

انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ اگر فلم بنانے سے پہلے بچی کی ماں کی رہنمائی کی جاتی تو کوئی بھی ماہرِنفسیات اس کی منظوری نہ دیتا۔

اس فلم کو بنانے میں آٹھ مہینے کا عرصہ لگا اور فلم بنانے والوں کا اصرار تھا کہ اس کا مقصد جنوبی کوریا میں ورچوئل رئیلٹی کو فروغ دینے کے بجائے بچی کے خاندان کو تسلی دینا تھا۔

ایک پروڈیوسر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس ٹیکنالوجی نے اپنے پیاروں سے اُن کی موت کے بعد بھی ملاقات کرنے کا ایک نیا طریقہ پیش کیا۔

جنگ نے اپنی بیٹی کا نام اور تاریخ پیدائش کا ٹیٹو اپنے بازو پر لگایا ہوا ہے۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا ہے اس طرح کے پروگرامز سے اُن لوگوں کو تسلی دی جا سکتی ہے جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔

جنگ نے اپنے بلاگ میں بھی اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا، “اگرچہ یہ بہت ہی مختصر وقت تھا مگر اس لمحے میں واقعتاً میں بہت خوش تھی”۔

%d bloggers like this: