مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ویلھا ولا ولسی نہ ول ،ویلھی تھی ویلھے نال بھج۔۔۔ قیس قیصرانی

ان سے انکی شناخت چھیننا زیادتی ہے اور اگر یہ عقیدت یا محبت میں کی جا رھی تو اس سے بری بات  یا بلنڈر کوئ نہیں ۔
"میں جنگل اچ مال چھیڑ ویندا ہم ۔ ہک ڈینہ سڈ سنیے میں "طارق”  میں پچھ تیں ڈٹھے میں کوی کئے ناں ھا ، ولا سڈ تھیا ۔۔۔ "۔ احمد خان طارق اپنی شاعری کی ابتدا کے بارے میں یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد کے میگزین "کشت نو”  کے انٹرویو میں بتاتے ہیں  "اس کے بعد ہم  مٹھائی کا تھال کے کر استاد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ” یہ باقاعدہ ابتدا تھی انکی شاعری کی ۔ 

جنگل میں سننے والوں کو اب بھی وہی "طارق” کی صدا سنائی دیتی ہے اور  مہاگ کے چھیڑو اب بھی انکے دوہڑے گاتے ہوئے انہیں جنگلوں سے گزرتے اور دن گزارتے ہیں اور  مال کی واپسی کے لئے شاید طارق صاحب کے مشورے پر عمل کرتے ہیں
"انہاں طارق بر تھئے بھانڑیاں دے در کھول کھڑاون متاں مال ولے ”
جہاں ہر شئے شناخت کی بھوکی وہیں بیٹ اور اسکے واسی، منجھیں،  کٹیاں،  لائیاں، ڈاچیاں ایک اس علاقے کا فانا اور فلورا ہے  احسان مند کہ انہین امر کر دیا گیا ۔ اور یہ صرف اسم معرفہ یا نکرہ نہیں بلکہ ایک مکمل کردار ہیں جو طارق صاحب کی شاعری میں جیتے ہین
"سبھے طارق مال آزاد تھئے ساڈیان ڈاچیاں ڈاون نال ودن ” یہ  آزادی اور اظہار کا ایک کامل اور نفیس نمونہ
اگر کسی صنف کی حد ہوتی ہے تو آج ڈوہڑہ اس معراج پہ پہنچ چکا ہے اب جو بھی اس صنف میں آتا ہے ھاتھ جوڑ کر ہی آتا ہے ۔۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ perception بھی  انکے ساتھ نا انصافی بلکہ بغض یا دشمنی  کی حد تک مہلک کہ  انکے باقی کام کو نظر انداز کر دیا جائے یا ڈوہڑے کی  وجہ سے نظر انداز کر دیا جائے ۔اسی طرح انکی شاعری کے جو موضوعات ہیں  (گو کہ بیٹ اور اسکا ماحول ڈومیننٹ نظر آتا اور یہی اعتراض بھی )وہ بھی صرف بیٹ اور اسکے متعلقہ ایلیمنٹس نہیں ہیں بلکہ وھاں  سائیں کے دربار میں پیش ہونے( ہتھ جوڑی جل)  سے لے  کر انسانیت کی معراج تک کے تمام مسائل کا تھیسس پیش کیا گیا ہے
(انسان انسان دے کم  آوے ) . انتظار کی شدت اور (پھل پلیٹ اچ لاتھن تھئے ،یا وت شام کوں راہ تکیندیں دے ہتھ ۔۔۔ ہک طاق اتیں بیا ڈھاک آتیں )  ملاقات کے لمحات کی ایک فلم بھی ہے (کپ ڈاتریاں دے ڈکھلائے ہم حال سنائے ہم ) اور ہر ذی شعور کی طرح ایک دوراھا بھی انکا منتظر  (کوئ گاہل طے نئین تھی سگی تسبیح گھناں جھانجھر گھناں) اے شاعری اے تاں اتھو سوہنی شاعری کئے نیں ۔

منتظر نگاری اے تاں انت اے پینٹنگ اے تاں مکمل اے
ہم اگر prejudice ہوئے بغیر انکی شاعری کا مطالعہ کریں ( آٹھ کتابیں  جن میں گھرو در تانڑیں، متاں مال ولے ،میکوں سی لگدے ، ہتھ جوڑی جل  وغیرہ)  تو تمام اصنافِ  اپنے مضامین اور فارمیٹ میں ایک بہترین اکائی کی صورت نظر آتی ہیں
۔ڈوہڑہ لکھنے والے احمد خان کا ہاتھ نظم میں بھی وہی مہارت رکھتا .
انکی ایک شاہکار نظم جسے نظم کے کسی بھی زبان کے  ادب  میں لکھی گئی نظم کے برابر  احترام کے ساتھ پیش کیا جاسکتا "سجناں دے ون  بہوں دور ہن ” ہم اسے کوئی بھی نام دیں یہ ایک شاہکار ہے ۔
ویلھا ولا ولسی نہ ول ،ویلھی تھی ویلھے نال بھج ” یہ ایک مصرع  اس کی ایک جھلک کے لئے کافی ہے ۔
لیکن  کچھ لوگوں نے محبت میں مغل بچوں والا کام کیا ہے(کہ  جن پہ مرتے تھے انہیں مار ڈالتے تھے ) کہ  ان سے انکی شناخت چھیننے کی کوشش کی اور انہیں فرید ثانی اور کچھ نے تو  ثانی فرید  کا نام دیا ۔ یہ نام بہت مرتبے  اور عقیدت کی وجہ سے ہی ملا لیکن  جہاں روہی اور  خواجہ فرید لازم و ملزوم ہیں وہیں بیٹ اور احمد خان طارق اور انکے  اپنی اپنی جگہ اتنے الگ اور مشہور ۔ ان سے انکی شناخت چھیننا زیادتی ہے اور اگر یہ عقیدت یا محبت میں کی جا رھی تو اس سے بری بات  یا بلنڈر کوئ نہیں ۔
جے مرنے طارق آپ مراں، شالا مال مری  اوکوں کیوں آکھاں

%d bloggers like this: