مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی شناخت اور پڑھنے لکھنے کا فقدان۔۔۔ قیس قیصرانی

ہر معاشرے میں اقلیتوں کو اپنی بقا کے لئے معاصر علوم و فنون  میں اکثریت لازمی سمجھی جاتی ہے ۔ بلکہ وہ دوسری ساتھ کی قوموں تہذیبوں سے ان میں بہتر ہوتے اور یوں وہ اپنی اقلیت   کو اکثریت کی دو دھاری تلوار سے بچا سکتے بلکہ اپنی نسلوں کو کسی دوسری رجیم سے متاثر ہوئے بنا تابناک ماضی یا روشن مستقبل کے بارے میں بتا سکتے  (ہر قوم کا ماضی تابناک ہی ہوتا ۔۔ یہی انہی کتابوں میں لکھا ہوتا وجہ شاید کبھی کسی نے نہیں پوچھی یا سنی )

انڈو پاک کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے معاصر انگریزی اور فارسی علام سے بھی با خبر ہوتے ۔ اور تقسیم کے بعد خصوصا پاکستان میں مسلمانوں /پاکستانیوں نے  اکثریت میں ہونے کے زعم میں سب سے ھاتھ اٹھا لئے ۔

لیکن یہ مسلہ سرائیکی قوم یا سرائیکی کلچر اور اس کے واسیوں کے معاملے میں انتہائی گھمبیر صورت اختیار کر چکا ہے ۔ یہ ایک ایسی اکثریت ہے جسے اقلیت کی طرح ٹریٹ کیا جاتا رھا ہے اور اب بھی ہے ۔

لیکن اس کے باوجود بھی یہاں عوام اور خواص کی بحث سے ہٹ کر ہر کسی میں کچھ نہ کچھ کمیاں ہیں جنہیں محرومیوں میں کور کیا ہوا ( اس سے کسی کے غاصبانہ  اقدامات کو جستیفیکیشن نہیں ملتی ۔ اور ڈیرہ راجن پور کے پر پرسن بجٹ ڈسٹریبیوشن  پچھلے کچھ سالوں کی دیکھی جا سکتی ) لیکن  ظلم یہ ہے کہ ہم خود بھی اسی سادت پسندی کا شکار ہو چکے ۔ اور اسی روندے کھاندے روئے کے عادی ۔

ہم میں سے کوئی کتاب نہیں پڑھنا چاہتا  (exceptions ہیں اور وہ بہت ہی کم ) معاصر ادب نامے پر گرفت بہت کمزور ہے ۔
جو پڑھ نہیں سکتے وہ تو ویسے بھی الگ پڑھے لکھے بھی اس سب سے بے نیاز ہیں بس میر کی طرح  اندر کا  گیان ہے جو بانٹا جا رھا ۔

سرائیکی غزل لکھنے والے کو معاصر  زبانوں میں غزل کے موجودہ معیارات اور trends  کا نہیں پتہ ۔ ناول جو  اتنا سفر کر چکا ہمارے ہاں ابھی پہلی پوڑی چڑھ رھا ہے، افسانے کا نہ ہونے جتنا رواج اور سب سے کم کام تحقیق اور تنقید پر ہوا ( یا سرے سے ہوا ہی نہیں ) ظلم یہ کہ سرائیکی ادب کی کسی بھی صنف کو دوسری قومی یا بین الاقوامی زبان سے تو دور دوسری قوموں زبانوں کے مقابلے میں بھی نہیں  پہنچتے ۔ (ان پہ پیسہ ،سرپرستی رھی ادارے رھے سب مناسب بات لیکن  اس کا مطلب مطلب یہ نہیں کہ اگر وہ نہیں چاہتے تو ہم والنٹیر ہی کوئی کام نہ کریں )
پرویز قادر سرائیکی وکی پیڈیا پہ کم کرنے سرائیکی لغت پہ کام کرنے کے لئے ہر کسی کی منتیں کرتا پھر رھا  کوئی تیار ہی نہیں ہوتا
یہاں بھی کارپوریٹ ورلڈ کا دھندا ۔۔ اولیت ہو ، فنڈنگ ، مشہوری ہو تو الگ volunteer کام بھی  نہیں ہونے جتنا ۔۔

دانشور اس کے ایک عام آدمی کی نسبت زیادہ ذمہ دار لیکن اگر وہ نہیں قبول کرتے تو کوئی کیا کر سکتاہے؟

اپنے کلچر کو اپنی زبان اور اس میں موجود ادب  کو معاصر قوموں میں لکھے جانے والے ادب کے ہم پلہ لانا ہوگا۔ دوسری زبانوں کے بہترین کام کو ٹرانسلیٹ کرنا ہوگا ۔

ادبی تنقیدی نشستوں،  حلقوں کا قیام اور  اس میں سنجیدگی سے دادو تحسین کے علاوہ بنا کسی ادب و احترام کے بحث کرنا ہوگی،تب جا کر ایک زندہ زبان سامنے آئے گی
ورنہ ساری زندگی، نیلی ٹائیلیں،نیلی اجرک، نیلی ماچسیں ہماری پہچان رھیں گی (ان کے علاوہ بھی ہمارے پاس بہت کچھ ہے جسے ہم بھلائے جا رھے )

%d bloggers like this: