اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میرہزار خان کی نوری مسجد المعروف گنبد والی مسجد

بتایا جاتا ہے کہ گنبد کی تعمیر میں کوئی سریا وغیرہ استعمال نہیں کیا گیا تھا ۔ بلکہ اس کی تعمیر میں ریت چونا استعمال کیا گیا ۔


محمد اصغر لغاری نامہ نگار میرہزار خان


مسلمان جہاں بھی گئے اپنی داستانیں رقم کرتے گئے اور مسلمانوں نے فن تعمیر میں دنیا میں اپنا لوہا منوایا ۔ ان میں کئی تاریخ ساز عمارتیں اورمساجد شامل ہیں ،اسی قسم کا ایک شاہکار مسجد میرہزار خان میں واقع ہے جس کا نام نوری مسجد ہے ۔

اور اسے گنبد والی مسجد کے نام سے بھی پکارا اور یاد کیا جاتا ہے ۔ ایک دور ہوتا تھا جب ہمارے بچپن کے دن ہوتے تھے ۔ تو یہ مسجد پورے میرہزار خان میں بلند و بالا نظر آتی تھی ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے قرب و جوار میں بڑی بڑی عمارتوں کی تعمیر کی وجہ سے اس اونچائی سمٹ کر رہ گئی ہے یہ مسجد کراچی پارکو روڈ سے مغرب کی ترف چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے ۔

اسکی تعمیر کے حوالے بتایا جاتا ہے کہ میرہزار خٓن کے سردار اور جن کے نام سے یہ علاقہ منسوب ہے سردار میرہزار خان لغاری نے اپنے بیٹے محمد خان کی پیدائش کی خوشی میں 1880ء میں یہ مسجد تعمیر کرائی ۔ مسجد کی تعمیر میں پکی ٹائل کی اینٹیں اتعمال کی گئیں ۔ اور موٹی موٹی دیواریں جو گنبد کو مظبوط سہارا مہیا کرتی ہیں ۔

بتایا جاتا ہے کہ گنبد کی تعمیر میں کوئی سریا وغیرہ استعمال نہیں کیا گیا تھا ۔ بلکہ اس کی تعمیر میں ریت چونا استعمال کیا گیا ۔ جو کہ آج بھی اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہے ۔ یہ مسجد مسلمانوں کی فن تعمیر میں سے ایک شاہکار ہے ۔

مسجد کے اندر اور باہر جو نقش و نگاری کا کام کیا گیا وہ آج بھی موجود ہے ۔ اور اس وقت کے مسلمانوں کی مساجد میں تعمیر کی دلچسپی کو ظاہر کر رہا ہے ۔ گزشتہ برسوں میں مسجد کی دیواروں میں پانی جانے کی وجہ سے مسجد کی حالت خستہ ہونے لگی تو مقامی زمیندار سردار امیر محمد خان لغاری نے مسجد کی بنیادوں کے ساتھ تحوڑی سی کحدائی کرا کے ایک نئی دیوار تعمیر کرائی ،جس سے اسے مظبوط سہارا ملا ۔ کھدائی کے دوران مسجد مسجد کی دیواروں سے ملحق مٹی کے برتن ملے ۔ جن میں 1870ء اور 1880 ء کے سکے موجود تھے ۔ مسجد کی بنیادوں کو محفوظ کیا گیا ۔ اور گنبد کے باہر کے حصے کو بھی نیا سبز رنگ کیا گیا ۔ لیکن گنبد کے اندرونی حصہ جس جس میں خوبصورت نقش و نگار موجود ہیں اپنی اصلی حالت میں اب بھی موجود ہیں ہاں البتہ گزشتہ برس میرہزار خان کے نوجوان فوجی آفیسر میجر سردار تنویر احمد خان لغاری نے اپنے فوت ہونے والے جواں سال بھائی نعیم احمد خان کے ایصال ثواب کےلئے مسجد کے بیرونی حصے کی دوبارہ مرمتی کرا کے مسجد کے پورے صحن کو مکمل طور پر coverd کر دیا ۔ مسجد کا سامنے والا حصہ محفوظ تو ہو گیا لیکن مسجد کا سامنے والے حصہ گنبد واضح نظر نہیں آتا ۔

جب اس مسجد کو دیکھتے ہیں تو اسلاف کی دین سے محبت کی جھلک نظر آتی ہے ۔ کہ وہ لوگ رسم و رواج کے بجائے اپنی دینی قدروں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔ یہ مسجد ایک قومی ورثہ ہے اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ ان کی حفاظت اور ان کی دیکھ بھال اور تزئین کی ذمہ داری محکمہ اوقاف کی بھی ہے ۔ اگر محکمہ اوقاف اس مسجد کی طرف توجہ دیں تو یہ مسجد اپنے پورے حسن کے ساتھ اگلی نسل کو منتقل ہو سکتی ہے ۔

%d bloggers like this: