مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک ہلکا پھلکا کالم ۔۔۔حیدر جاوید سید

یہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے اکثر افسر غیرپنجابی اقوام کے علاقوں میں تعیناتی کے دوران خود کو لارڈ ماونٹ بیٹن سے کم تر کیوں نہیں سمجھتے؟

سٹیٹ بینک کے گورنر کے ارشادات تازہ وعالیہ متوجہ کر رہے ہیں کہ کالم اس موضوع پر لکھا جائے۔
”مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے’ معاشی سست روی کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی”
لیکن فقیر راحموں نے یاد دلایا کہ پچھلے چند دنوں سے جناب وزیراعظم سمیت متعدد وفاقی وزراء یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں اتنے پریشان کن حالات نہیں جتنا میڈیا میں بیٹھے مافیاز بیان کر رہے ہیں۔
اس یاد آوری پر قلم مزدور نے ایک نگاہ لائبریری میں رکھی کتابوں پر ڈالی لیکن کیا محض کتابوں والے کمرے میں 24 میں سے لگ بھگ پندرہ سولہ گھنٹے گزارنے لکھنے پڑھنے یا ملاقات کیلئے آنے والے دوستوں سے گپ شپ سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ میں کسی مافیا کا فعال رکن نہیں ہوں؟۔
سندھ کے آئی جی پولیس ہوں یا ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک اسسٹنٹ کمشنر’ پتہ نہیں کیوں مجھے ان دونوں میں لارڈ کرزن کی روح دندناتی پھرتی دکھائی دیتی ہے۔
کل فقیر راحموں پوچھنے لگے شاہ جی!
یہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے اکثر افسر غیرپنجابی اقوام کے علاقوں میں تعیناتی کے دوران خود کو لارڈ ماونٹ بیٹن سے کم تر کیوں نہیں سمجھتے؟۔
جواب دینے سے قبل انہوں نے مجھے ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک اسسٹنٹ کمشنر کا وہ ”خطاب عالیہ” بھی سنوایا جو اے سی صاحب نے شہر میں تین ہفتوں سے سوئی گیس کی بندش کیخلاف احتجاج کرتی ہوئی سینکڑوں مائوں’ بہنوں اور بچیوں کا احتجاج ”ختم کروانے” کے بعد کیا۔
سبحان اللہ’ کیا ارشادات عالیہ وعظمیٰ تھے۔
یہی بات اگر لاہور یا گجرات میں اس منصب کے شخص نے پبلک میں کہی ہوتی تواب تک تبادلہ ہو چکا ہوتا۔ مجھے تو ان دیروی بزرگوں پر حیرانی ہو رہی ہے جو اے سی کے خطاب دلپذیر کے بعد درود وسلام پڑھ کر دعا مانگ رہے تھے۔
خواتین کی چند آوازیں ضرور سنائی دیں ” حق نہ ملا تو پھر احتجاج کریں گی” ۔
ابھی کل ہی کی بات ہے سندھ کے وائسرائے اعظم معاف کیجئے گا آئی جی پولیس سید کلیم امام کے ارشادات عالیہ سے سارا الیکٹرٍانک میڈیا گونج رہا تھا۔
پتہ نہیں مجھے ایسا کیوں لگا کہ وہ کہہ رہے تھے’ قواعد وضوابط میرے بوٹ کے تسموں سے بندھے ہوئے ہیں۔
پنجاب میں پچھلے اٹھارہ ماہ کے دوران راتوں رات کتنے آئی جی پولیس تبدیل ہوئے’ تین سالہ مدت تعیناتی کا اصول راوی کے گدلے پانی میں ٹبکیاں مار رہا ہے۔
پنجاب سے تبدیل ہونے والے کسی آئی جی نے اس طرح کی تقریر فرمائی؟۔
خدا گواہ ہے جب میں یہ کہتا لکھتا ہوں کہ ایک خاص سوچ اور صوبے سے تعلق رکھنے والے افسران دوسرے علاقوں میں فرائض ادا کرتے ہوئے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ مقبوضہ علاقے میں ”سب کو سیدھا” رکھنے کیلئے تعینات ہوئے ہیں تو اس میں نفرت نہیں دکھ کا پہلو ہوتا ہے۔
افسوس کہ ہمارے یہ دوست اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ان کا رویہ اور الفاظ کتنے گہرے گھاؤ لگاتے ہیں۔
اچھا چلیں ایمانداری سے بتائیں اگر مسلسل تین ہفتے سے لاکھوں کی آبادی والے ایک شہر میں سوئی گیس کی فراہمی معطل ہو تو اس شہر کے مرد وزن گھروں سے نکل کر احتجاج کرنے کی بجائے مودی اور اشرف غنی کو دادرسی کیلئے درخواست لکھیں گے یا شہر کی انتظامیہ کو متوجہ کرنے کیلئے احتجاج کریں گے؟
اس طرح سندھ کی حکومت صوبے میں تعینات آئی جی پولیس کے بعض معاملات’ نامناسب رویوں اور چند دیگر اقدامات کے ثبوت وزیراعظم کو پیش کر کے اصلاح احوال کیلئے کہے گی یا پھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو درخواست بھجوائے گی کہ حضور ہمارا آئی جی تبدیل کروا دیں؟۔
بجا ہے سارے افسران ایک جیسے نہیں ہوتے اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن اب عمومی رویہ یہی بنتا جا رہا ہے۔
اچھا کیا پنجاب میں اٹھارہ ماہ کے دوران تبدیل کئے جانے والے آئی جی پولیس کے تبادلوں پر وفاقی کابینہ میں غور ہوا تھا’
کیا وفاقی کابینہ نے منظوری دی تھی؟
‘کسی کے علم میں ایسی بات ہو تو تحریر نویس کو آگاہ ضرور کرے’
پھر یہ اصول سندھ کیلئے کیوں اپنایا گیا۔
سندھ وفاق پاکستان کی مساوی حق رکھنے والی اکائی ہے یا مقبوضہ علاقہ؟ یا پھر یہ کہ جیسے پنجاب چیف سیکرٹری اور آئی جی چلا رہے ہیں وفاق سندھ کو بھی چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے ذریعے چلوانا چاہتا ہے؟۔
فقیر راحموں پھر متوجہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں
شاہ جی!
وزیراعظم اور وفاقی وزراء میڈیا سے شاکی ہیں کہ وہ ان کے حکومت کیخلاف مافیاؤں کا اتحادی بن کر منفی پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔
خدا لگتی بات یہ ہے کہ کسی قسم کے سرکاری’ ریاستی’ سیاسی’ مذہبی مافیا سے دور کا تعلق واسطہ بھی نہیں۔ یہ تو سامنے کے حالات ہیں جو حرف جوڑنے پر مجبور کرتے ہیں
ورنہ اچھی طرح علم ہے کہ ہمارے وزیراعظم بہت دردمند انسان ہیں’ ان کی جماعت کا نام تحریک انصاف ہے، وہ کرپشن جہالت اور ناانصافی کیخلاف اپنا ایجنڈا رکھتے ہیں’ 22سال انہوں نے جدوجہد کی اور اب اقتدار ملا ہے تو اپنے خوابوں کو تعبیر دلوانے کیلئے کوشاں ہیں۔
انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ حالیہ گندم آٹا وچینی بحران کس نے پیدا کیا۔ چند دن قبل وہ ان کرداروں بارے پوری جانکاری کا خود اعتراف کر چکے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ وہ ان کرداروں کیخلاف ضرور کارروائی کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ نیب کے استحصالی کردار’ ریلوے میں بڑھتی ہوئی کرپشن اور کام چوری’ بڑے شہروں میں سٹریٹ کرائم میں ہونے والے اضافے سمیت دوسرے مسائل کو بیرونی سازش سمجھتا ہوں۔
عین ممکن ہے کہ اس بلکہ ان سب کے پیچھے مودی کا ہاتھ ہو۔
فقیر راحموں ایک بار مجھے ٹوکتے ہوئے بولے شاہ جی ”مسخریاں” نہ کر’
میرا جی چاہا کہ فقیر راحموں سے کہوں یہ جو تم آج کل حکومت کے اتنے زبردست حامی ہو اپنے محبوب وزیراعظم سے ایک انجکشن ہی لے دو جسے لگوا کر مہنگائی اور دوسرے عذابوں سے نجات کے ساتھ ساتھ غم دنیا انعامات لگیں۔
کہا اس لئے نہیں کہ اس نے پھر کوئی بات مار دینی تھی۔ فقیر راحموں کہہ رہا ہے کہ ٹرمپ نے جو مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے دو ریاستی فارمولہ پیش کیا ہے اس بارے کیوں نہیں لکھتے۔ عرض کیا ہزار غم ہیں زندگی کے مسئلہ فلسطین کے علاوہ بھی۔
اب دیکھو نا میں تو اسلام آباد میں منگل کی شام ہوئی گرفتاریوں بارے بھی کچھ نہی

%d bloggers like this: