مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گندم آٹا سمگلنگ اور مصنوعی بحران کے پیچھے کون؟جام ایم ڈی گانگا

معاملات کو اپنی اپنی حد میں رہ کر کامیابی سے چلانے اور عوام کو کچھ وقتی ریلیف کے ساتھ مطمئن کرنے کی کوشش کرکے سلا دیا جاتا ہے.
  • کسی بھی ملک میں کسی وقت بھی کسی قسم کے بحران کا پیدا ہو جانا کوئی نئی بات نہیں ہے. بحران سیاسی سماجی معاشرتی، معاشی غذائی وغیرہ پیدا ہو سکتے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں. یہ بحران حقیقی بھی ہوتے ہیں اور منصوعی بھی ہوتے ہیں. 

حقیقی بحران یا تو قدرتی طور پر پیدا ہوتے ہیں یا پھر طویل ترین بے حسی، مسلسل لاپرواہی، انتظامیہ نااہـلی اور عدم پلاننگ کا کا نتیجہ اور ثمرہ ہوتے ہیں.قدرتی بحران کسی کی بس کی بات نہیں ہوتی ایسے آپ قدرت کی طرف سے امتحان آزمائش، عذاب اور آفات کے بعد کی گھمبیر صورت حال اور سزا کا نام دے سکتے ہیں. جیست موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے فصلات کا نقصان اور شارٹیج یا وبائی امراض کا پھیلاؤ وغیرہ. جہاں تک مصنوعی بحرانات کا تعلق ہے یہ باقاعدہ پلاننگ اور سازش کے تحت مخصوص وقت میں پیدا کرکے برپا کیے جاتے ہیں. ان کے پیچھے باقاعدہ مخصوص گروہ اور مافیاز ہوتے ہیں.
وطن عزیز پاکستان میں آنے والے اکثر سیاسی بحرانات کے پیچھے تاریخ گواہ ہے کہ کئی مرئی اور غیر مرئی قوتیں موجودرہی ہیں. مخصوص ایجنڈے اور مشن کی تکمیل کے لیے مخصوص قسم کے حالات پیدا کر دیئے جاتے ہیں. جنھیں پھر سیاسی انتظامی قانونی و آئینی وقت کے مطابق کوئی نہ کوئی نام دے دیا جاتا ہے. فی الوقت یہ کیونکہ میرا آج کا موضوع نہیں ہے. یہ ایک لمبی اور علیحدہ بحث ہے. اس لیے ہم واہس اپنے آج کے ٹاپک کی طرف چـلتے ہیں.
محترم قارئین کرام،، آجکل وطن عزیز میں آٹا کے بحران کا شور برپا ہے. ہر چھوٹی بڑی محفل میں اور ایوانوں تک آٹا آٹے کا کا چرچا ہے. بڑی عجیب صورت حال ہے. یقینا جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے. اس لیےوہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا. ملک میں گندم اور اس کے سٹاک وافر ہیں. جب کسان حکومت سے گنے کی قیمت میں اضافے کا مطالبے کرتے ہیں تو شوگر ملز ایسوسی ایشن آگے دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے. چینی کے سٹاک کے بارے بھی شوگر ملز والے یہی بتاتے چلے آ رہے ہیں کہ ہمارے پاس اتنی چینی موجود ہے کہ اگر ہم دو سال بھی شوگر ملیں نہ چلائیں تو ملک کی چینی کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں. ہم کسانوں کو گنے کا زیادہ ریٹ نہیں دے سکتے ہمارے پاس چینی کے گودام بھرے پڑے ہءں ہم انہیں کدھر کریں. دوسرے ممالک میں چینی کے ریٹ ہمارے ملک سے خاصے کم ہیں ہم اپنی چینی کیسے برآمد کریں. حکومت اضافی چینی کو برآمد کرنے کے لیے ہمیں ٹیکسز کی چھوٹ دے. سبسڈی اور ریبیٹ فراہم کرے. بصورت دیگر ہم گنا خریدنے اور کسانوں اد کی قیمت ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ. یوں بہت ساری مراعات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں بھی چینی کے ریٹس میں مرضی کا اضافہ کروا لیا جاتا ہے. پاکستان کے سیاسی حالات اور پاکستان کی سیاست پر مخصوص خاندانوں اور مخصوص کاروباری گروہ کی اجارہ داری کا جائزہ لیا جائے تو شوگر مافیا سب سے سرفہرست دکھائی دیتا یے. اگر ہر پارٹی کے ہر دور حکومت کو شوگر مافیا کی حکومت کا نام دیا جائے تو قطعا بے جا نہ ہوگا. بس صرف ڈان کی کمان بدل جاتی ہے. یہ سٹک اور کمان کبھی میاں شہباز شریف کے ہاتھ ہوتی ہے تو کبھی جناب آصف علی زرداری کے ہاتھ میں کبھی یہ جہانگیر خان ترین کے ہاتھوں میں نظر آتی ہے. جہاں تک اس مافیا کے جتھے کے اراکین کا تعلق ہے. وہ ہر دور میں ہم آواز اور ہم قدم ہی رہا ہے.کسانوں اور عوام کی لوٹ مار میں سب ایک، متفق اور متحد اور سیاست سب کی اپنی اپنی.
کسان بچاؤ تحریک پاکستان کی ایک اپیل اور اشتہار کے جواب میں شوگر مکز ایسوسی ایشن کا اشتہار اپنی چغلی آپ خود کھاتا نظر آتا ہے. کیونکہ جھوٹ کا کوئی سر اور پاوں نہیں ہوتا بے.کسانوں کا کہنا ہے کہ جب کسانوں سے سستا گنا خریدا جا رہا تو ملک کے عوام کو چینی سستی کی بجائے مہنگی کیونکر بیچی جا رہی ہے. ایک طرف کسانوں گنے کم ریٹ دے کر لوٹا جا رہا ہے تو دوسری طرف ملک کے عوام کو مہنگی چینی بیچ کر نچوڑا جا رہا ہے. تبھی تو پاکستان کسان اتحاد کے بوڑھے کسان رہنما ملک اللہ نواز مانک اپنے دھیمے لیجے میں اپنی میٹھی زبان سرائیکی میں کہتے ہیں کہ شوگر مافیا ڈو مونہاں ناگ اے. شوگر مافیا ڈو دھاری تلوار اے. مطلب یہ کہ شوگر مافیا دو منہ والا سانپ ہے. شوگر مافیا دو دھاری تلوار ہے.شوگر ایسوسی ایشن اہنے اشتہار میں بھارت، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، فلپائن، سری لنکا، چین تھائی لینڈ کا سیل ٹیکس بتاتے ہوئے باور کرایا ہے کہ ان سب ممالک سے پاکستان میں سیل ٹیکس سب سے زیادہ 17فیصد ہے. پھر بھی ان تمام ممالک سے ہماری چینی کے ریٹ سب سے کم ہیں. ہم عوام کو سستی چینی فراہم کررہے ہیں. گویا انہوں نے اس اشتہار کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی سیل ٹیکس کی وجہ سے ہے.
محترم قارئین کرام اس اشتہار سے ان کا وہ جھوٹ پکڑا گیا ہے. جب کسان گنے کی قیمت میں اضافے کا مطالبے کرتے ہیں تو یہ شوگر ایسوسی ایشن والے صاحبان کہتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہماری چینی مہنگی ہے ہم کیسے برآمد کریں.یہاں ان کے اپنے دیئے ہوئے فگر ہیں. جس کے مطابق پاکستان میں چینی 77روپےفی کلو،سری لنکا89 روپے، چین میں 133روپے، بھارت میں 87روپے، فلپائن میں173 روہے انڈونیشیا میں142 روپے تھائی لینڈ میں 113روپے بنگلہ دیش میں119 روپے فی کلو ہے. شوگر ایسوسی ایشن جو چاہیئے تھا کہ وہ مختلف ممالک میں دیئے جانے والے گنے کے ریٹ بارے بھی بتاتے کہ کس ملک کے کسانوں سے کس ریٹ پر گنا خریدا جا رہا ہے. حکومت اور متعلقہ حکومتی اداروں کو گنے کی قیمت کا تعین کرنے کے لیے کسان کے گنے کی فی ایکڑ پیداوار کے اخراجات کے گوشوارے اور شوگر ملز کے فی من چینی کے پیداواری اخراجات کی جملہ تفصیلات اوپن کریں تاکہ فریقین اور عوام کو زمینی حقائق اور حکومتی اداروں کی کارکردگی میرٹ اور انصاف کا پتہ چل سکے. چینی کے ریٹ کا تعین کون اور کس کس چیز کی بنیاد پر، کب اور کیسے کرتا ہے. کسانوں اور عوام کو یہ بتایا جائے. گنے کے کاشتکار کی شرح بچت اور گنے سے چینی تیار کرنے والے صنعتکار کی شرح بچت کیا ہیں.
اب ہم آٹے کے مصنوعی بحران کی طرف آتے ہیں. حکومت اور حکومتی عہدیدار خود کہہ رہے ہیں کہ ملک میں اس وقت بھی گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں. حکومت مخالف گروہوں نےآٹے کا بحران مصنوعی طور پر پیدا کیاہے.سچ تو یہ ہے کہ آٹے کا یہ منصوعی بحران گندم اور آٹا مافیا کا پیدا کردہ ہے.اس میں حکومت مخالف گروہوں والی بات غلط ہے. زمین حقائق ہم سب کے سامنے ہیں. جو صاف صاف نظر بھی آ رہے ہیں. گندم اور آٹا سمگلنگ میں سبھی پارٹیوں کے لوگ شامل ہیں. چور ڈکیٹ چاہے کدی بھی قسم کے ہوں کسی بھی علاقے پارٹی اور قوم سے تعلق رکھتے ہوں. وہ سب سے پہلے چور اور ڈکیٹ ہی ہوتے ہیں بعد میں کچھ اور.سب پارٹیوں کا حصہ ہوتے ہوئے سب قوموں سے تعلق رکھتے ہوئے بھی مافیاز ایک عـیلحدہ پارٹی اور علیحدہ قوم ہے. جس کا نظریہ مشن ذاتی مفادات اور تجوریاں بھرنا ہے. قانونی غیر قانونی، اخلاقی غیر اخلاقی، جائز ناجائز وغیرہ کا ان کے ہاں کوئی تصور نہیں ہوتا. مشترکہ مفادات کے تابع یہ سبھی ایک جھنڈے تلے جمع اور ایک حمام میں موجود نظر آتے ہیں.
مجھے نہیں معلوم کہ صوبے اور پاکستان کے دوسرے اضلاع کی صورت حال کیا ہے میرے ضلع رحیم یار خان میں گندم اور آٹا سمگلنگ ہو یا ایرانی سمگل شدہ تیل کا وسیع کاروبار، دو نمبر بیج بنانے والی کمپنیاں ہوں یا مـلاوٹ مافیا انہوں نے مختلف پارٹیوں پر انوسٹمنٹ کر رکھی ہے. مختلف ناموں سے بنائے گئے اہنے اپنے فورمز کے ذریعے انتظامیہ کو ڈیل کرتے ہیں.ڈھیل کے بدلے اچھی خاصی خدمت کا تواج بھی موجود ہے. ضلع رحیم یار خان کا ڈی سی اور ڈی پی او اگر کھانے والے ہوں اور ان ہاضمہ بھی ٹھیک ہو تو یقین کریں بات کڑووں سے بڑھ کر ارب کے فگرز کو جا چھوتی ہے.

نہ کھانے والوں کا معاملہ ہی الگ ہے. درگرز سے کام چلاتے رہیں تو ان کی مرضی سب اچھا گلدستوں کی خوشبوؤں کے ساتھ کام چلتا رہتا ہے.قانون کی حکمرانی اور عوام کی بھلائی و فلاح کے لیے سختی اور بلاتفریق قانونی کاروائی سے گیس ٹربل اپھارہ، نزلہ زکام کھانسی سے ہوتی ہوئی نامعلوم چھوتی بیماریوں میں سے کسی کی لپیٹ کا شکار ہو کر یہاں سے کوچ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.سیاسی مصلحتوں اور سیاسی سمجھوتوں کی انتظامی سمجھوتے اور انتظامی مصلحتیں بھی اکثر دیکھی گئی ہیں. خیر یہ کسی ایک کا مسئلہ نہیں ہے یہ نظام اور سسٹم کا مسئلہ ہے.

وطن عزیز میں اوپر دے نیچے تک ڈیل اور ڈھیل کا سسٹم ہر جگہ موجود ہے. رحیم یار خان ایرانی تیل اور گندم و، آٹا سمگلنگ میں رحیم یار خان ایک نمایاں مقام رکھتا ہے.بہت ساری فلور ملز اور مالکان اس دھندے میں ملوث ہیں. انہیں کس کس کی آشیر باد حاصل ہے انتظامیہ کے ضلعی ہیڈز اور خفیہ ادارے اچھی طرح جانتے ہیں. کتنے لوگوں کے خلاف کاروائی ہوتی ہے اور کتنے لوگوں کے خلاف پکڑے جانے کے باوجود بھی کچھ نہیں ہوتا.طرفین کو اوپر سے آنے والی ہدایات کے بعد بس صرف ایک ملاقات ہوتی ہے.

معاملات کو اپنی اپنی حد میں رہ کر کامیابی سے چلانے اور عوام کو کچھ وقتی ریلیف کے ساتھ مطمئن کرنے کی کوشش کرکے سلا دیا جاتا ہے.

آٹے کے بحران کے شور شرابے میں حکومت نے تین لاکھ ٹن گندم باہر کے ممالک سے درآمد کرنے کا فوری فیصلہ کرکے منظوری دے ڈالی ہے.

اب ان سے کون پوچھے کہ بقول ان کے ملک میں گندم کے عافر ذخائر موجود ہے آٹا کا بحران منصوعی اور پیدا کردہ ہے اس پر چند دنوں میں کنٹرول کر لیا جائے گا.

پھرملک کا قیمتی زرمبادلہ ضائع کرنے اور گندم درآمد کرنے کی کیا ضرورت ہے.پاکستان کی گندم سے مہنگی گندم کی خریداری، گندم کی درآمد وہ بھی پرائویٹ سیکٹر کے ذریعے آخر کیوں.وہ بھی ایسے وقت میں جب ملک کے کسانوں کی گندم صرف پندرہ بیس دنوں کے فرق کے ساتھ مارکیٹ میں موجود ہوگی. کیا یہ قومی زراعت وطن کے کسانوں اور عوام کے ساتھ زیادتی نہیں.کسان حلقے اسے کسانوں کے خلاف ایک سازش قرار دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کسانوں کی آنے والی فصل ٹکے ٹوکری ہو جائے گی.

جب ہماری گندم فروخت کا وقت آتا ہے تو حکومت نہ صرف خریداری میں لیٹ کرتی ہے بلکہ کم مقدار میں باردانہ چـلت کرتی اور کم مقدار گندم خریدتی ہے. حکمران کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس گندم خریدنے کے لیے اتنے پیسے اور جگہ نہیں ہے.کسان فلور ملوں اور منڈیوں میں کم نرخ پر گندم فروخت کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے.

ہر سال کسانوں کے ہاتھ سے گندم نکل جا نے کے بعد مارکیٹ میں گندم کا ریٹ بڑھ جاتا ہے.کسانوں سے بارہ تیرہ سو روپے من میں خریدی جانے والی گندم کا ریٹ آجکل 1900روپے من بتایا جا رہا ہے.

ملک سے کچھ عرصہ پہلے گندم برآمد کی گئی اور درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے. قوم کو بتایا جائے کہ یہ کیسی پالیسی اور پلاننگ ہے. یہ برآمد کنندگان اور درآمد کنندگان کون ہیں. حکومتی گندم کس ریٹ پر دی گئی اور اب قومی خزانے سے کس ریٹ پر خریدی جائے گی.آٹے اور گندم سمگلنگ میں کون لوگ ملوث ہیں اور ان کے خلاف اب تک کیا کاروائی کی گئی ہے. ایران اور افغانستان جانے والی تجارتی گندم سے ملک کے خزانے میں کتنا ٹیکس جمع ہوا ہے یا دوسرے لوگوں کتنا زک پہنچایا گیا ہے.

%d bloggers like this: