اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

”کراچی میرا ہے!“ ۔۔۔سعیدخاور

وہ سندھ قانون ساز اسمبلی کے بھی رکن رہے اور انہیں ہندوستان میں اسکاﺅٹ تحریک کا بانی رکن ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا۔

کراچی کی دولت اور سیاست ایسی پر فریب چیزیں ہیں کہ کوئی بھی ان کے چسکے سے دستبردار ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہو ، ایم کیو ایم یا شہر قائد میں نووارد تحریک انصاف اور دوسری چھوٹی بڑی، نئی پرانی سب کی سب سیاسی جماعتیں اس سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کا ہر انڈہ خود کھانا چاہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ کھینچا تانی میں اس شہر کا حلیہ بگڑ گیا ہے۔

بے چارا شہر خراباں اور اس کے خراب حال باشندے ہیں کہ سیاسی بالادستی اور لوٹ کھسوٹ کی اس آپا دھاپی میں کہیں طاق نسیاں میں رکھ کر بھلا ہی دیئے گئے ہیں۔ کراچی انگریزوں کے دور سے لے کر اب تک اپنی معاشی اہمیت کی وجہ سے عالمی توجہ کا مرکز رہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ کراچی کو قیام پاکستان کے بعد وہ توجہ نہیں مل سکی جس کا وہ مستحق تھا یا اب بھی ہے۔

عجیب بات ہے کہ اس کی دولت سمیٹنے کے لئے کراچی کا رخ کرنے والوں نے یہاں سے خوب دولت سمیٹی لیکن کراچی سے اپنائیت کی سیاست کر کے لوگوں کے دل جیت لئے۔ اب انگریزوں کو ہی لے لیجئے۔

آئے تو تھے یہاں کی دولت سمیٹنے اور خوب سمیٹی لیکن اس شہر کو شہر نگاراں بنانے میں بھی ان ہی کا بڑا کردار ہے، انہوں نے کراچی کے انفراسٹرکچر پر بنیادی توجہ دی اور اور اسے شہروں میں شہر بے مثال بنا دیا، یہ اور بات ہے کہ ہم نے آزادی کے بعد کراچی کی رونقوں کو روند ڈالا۔

اب بھی کراچی سب سے زیادہ ریونیو دینے کے باوجود خود زندہ رہنے کے لئے مانگے تانگے کے فنڈز پر گزارہ کرتا ہے- اور اس کے لئے اسلام آباد اور سندھ حکومت سے دیئے جانے والے فنڈز ہمیشہ وجہ نزاع بنے رہتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کا باہمی جھگڑا بھی انہی فنڈزکی وجہ سے رہتا ہے اور یہاں آئے روزسیاسی اتحاد بھی اسی وجہ سے بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں۔ کراچی کے لئے فنڈز پر جھگڑے کوئی نئی بات نہیں، کبھی وفاق اور صوبہ اور کبھی حریف سیاسی جماعتیں، کبھی مئیر کراچی اور وزیر اعلی سندھ لین دین پر چراغ پا رہتے ہیں۔

حال ہی میں متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینئر ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی نے وزارت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا، اس فیصلے کے بنیادی اسباب میں سے ایک اہم سبب تو یہی ہے کہ ایم کیوایم سے نئے اتحادیوں نے کراچی کے لئے فنڈزکی فراہمی کے حوالے سے وعدے پورے نہیں کئے۔

ایم کیوایم کراچی کے لئے فنڈز اپنے میئر کے توسط سے حاصل اور خرچ کرنا چاہتی ہے جبکہ تحریک انصاف یہ رقوم ایک لمیٹڈ کمپنی کے ذریعے استعمال میں لا کر کراچی میں اپنی سیاسی گنجائش بڑھانا چاہتی ہے۔

دوسری طرف سندھ حکومت کا بھی اس مسئلے پر اپنا ایک موقف ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے برسراقتدار آ کر کراچی کے لئے 162 ارب کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا جس میں سے ابھی تک کراچی کو ایک دھیلا بھی نہیں ملا۔

تحریک انصاف اس وقت دوہری آزمائش میں مبتلا ہے، ایک طرف اسے اپنی وفاقی حکومت بچانے کے لئے ایم کیوایم کی تائید و نصرت درکار ہے اور دوسری طرف اسے کراچی میں ملنے والے مینڈیٹ، جسے ایم کیوایم جعلی مینڈیٹ قرار دیتی ہے، کو بلدیاتی انتخابات کے لئے بھی یقینی بنانے کی کوئی سبیل کرنی ہے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی وفاقی کابینہ سے علیحدگی سے بلدیاتی انتخابات کے لئے متوقع سیاسی جنگ کی ایک تصویر بنتی دکھائی دے رہی ہے۔

ایم کیو ایم حکومت سے کیا الگ ہوئی اسلام آباد سے کراچی تک سب کی دوڑیں لگ گئی ہیں، پہلی بار برسراقتدار آنے والی تحریک انصاف کو اپنے اقتدار کی نیا ڈگمگاتی نظر آنے لگی ہے تو اسے ماضی کے سخت حریفوں پر بھی ان دنوں بہت پیار آ رہا ہے۔

اسد عمر سے لے کر گورنر سندھ عمران اسمعیل تک سب بہادر آباد کی گلیوں پر نثار ہو رہے ہیں۔ گو کہ ڈاکٹر خالد مقبول کے وزارت دوبارہ سنبھالنے سے انکار کے باوجود ایم کیو ایم نے حکومت کی وفاق میں حمایت جاری رکھنے کا یقین دلایا ہے لیکن ایم کیوایم کے ماضی میں مختلف جماعتوں سے اتحادوں کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے حکومت کی بے چینی سمجھی جا سکتی ہے۔

ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے میئر وسیم اختر فنڈز اور اختیارات کی کمی کے حوالے سے ہمیشہ وفاقی اور صوبائی حکومت سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں لیکن ان کا احتجاج صدا بہ صحرا ثابت ہوا ہے۔

ایم کیوایم اور تحریک انصاف میں دوریوں میں میئر کراچی کے مطالبات کا ایک اہم کردار ہے۔ میئرکراچی کی بات ہوئی ہے تو مجھے کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروانجی مہتا یاد آگئے ہیں۔

جنہوں نے فنڈز کی کمیابی اوراختیارات کی کمی کا رونا روئے بغیر کراچی کو ایک مہذب اور باوقار شہر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ کراچی سے کمایا ہوا اپنا ساراپیسہ بھی دونوں ہاتھوں سے کراچی پر لٹا دیا۔

جمشید نسروانجی مہتا کا تعلق کراچی کے ایک متوسط پارسی خاندان سے تھا جو اٹھارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں گجرات سے نقل مکانی کر کے کراچی آبسا تھا۔

ان کے بزرگ کاروباری دنیا سے وابستہ تھے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش انہیں ہند سے سندھ لے آئی جہاں ان کا کاروبار قدرے چل نکلا لیکن جب 1843ء میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا تو کراچی کی کایا پلٹ گئی۔

اس کایا پلٹ میں جہاں اس شہر کی وسعتوں میں اضافہ ہوا وہاں اس کی معاشی حالت میں بھی غیرمعمولی بہتری آ گئی۔ اس خوش حالی میں جن خاندانوں کے اثاثوں میں اضافہ ہوا، اس میں مہتا خاندان بھی شامل تھا،جس پر دولت کی دیوی مہربان ہو گئی اور وہ شہرکے نمائندہ اور متمول خاندانوں میں شمار ہونے لگا۔

اس خاندان نے انگریزوں کے ساتھ مل کر کراچی کو عروس البلاد بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ مہتا خاندان کا کاروبار میں ہاتھ چمکا تو انہوں نے کراچی میں سماجی اور فلاحی بہتری میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھی اوراپنی مٹھی بھینچنے کی بجائے ہاتھ کھول کر اس شعبے میں اتنا پیسہ لٹایا کہ اپنوں پرایوں کے دل جیت لئے۔

اسی مہتا خاندان میں 1886ء میں ایک ایسے چشم وچراغ نے جنم لیا کہ جس نے آنے والے دنوں میں کراچی شہر میں ہر طرف اپنی خدمات کے دیے روشن کر دیئے جن سے مائی کلاچی کے اس شہر میں ہر سوعلم وعمل کا اجالا پھیل گیا اور یہ شہر روشنیوں کا شہر کہلانے لگا۔ انہیں کراچی کے پہلے منتخب میئر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور انہیں ان کی دن رات خدمات کے طفیل اس شہر نگاراں کا معمار قرار دیا جاتا ہے۔

جمشید نسروانجی مہتا زیادہ پڑھ لکھ نہیں سکے تو الفنسٹن اسٹریٹ (اب زیب النسا اسٹریٹ)پر ایک چھوٹی سی دکان کر لی۔ اس کاروبار کے لئے انہوں نے اپنے والدین کی دولت کا سہارا لینے کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت کام کا آغاز کیا۔ اپنی خداداد کاروباری صلاحیتوں کے بل پر جلد ہی وہ ایک کامیاب کاروباری اور سیاسی شخصیت کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں کام یاب ہو گئے۔

وہ 1918ءمیں بلدیہ کراچی کے کونسلر منتخب ہوئے، پھر جلد ہی وہ کارپوریشن کے صدر کے طور پرچن لئے گئے اور 12 برس تک اس منصب پر رہ کر شہریوں کی بے لوث خدمت کرتے رہے، مقامی سیاست میں یہ ان کے عروج کا زمانہ تھا اور پھر وہ اس شہر کے پہلے میئر منتخب ہوگئے تو مائی کلاچی کے شہر کو جدید شہر بنانے میں کمال ہمت اور ایثار سے کام لیا۔

وہ سندھ قانون ساز اسمبلی کے بھی رکن رہے اور انہیں ہندوستان میں اسکاﺅٹ تحریک کا بانی رکن ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا۔جمشید نسروانجی مہتا کے اعزازات کی طویل فہرست ہے لیکن بطور میئر کراچی انہوں نے اس شہر کو جدید شہر بنانے میں اپنا بتن من دھن سب قربان کر دیا۔

آج کراچی کو مفادات کی سیاست اور فنڈزسے زیادہ جمشید نسروانجی مہتا کے جذبوں کی ضرورت ہے ۔ کراچی اپنے اندر اتنی قوت اور توانائی رکھتا ہے کہ اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے، اگر اسے ضرورت ہے تو ایسے لوگوں کی ہے جو اسے گلے سے لگا کر جمشید نسروانجی مہتا کی طرح ہر صبح اٹھ کر سینے پردل کی جگہ ہاتھ رکھ کر پانچ مرتبہ کہیں کہ ”کراچی میراہے“۔ کراچی پیسوں کی نہیں جمشید نسروانجی مہتا جیسے بیٹوں کی تلاش میں ہے ۔


بشکریہ :روزنامہ 92 نیوز

%d bloggers like this: