اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آرمی ایکٹ ، فرحت اللہ بابر اور پیپلزپارٹی۔۔۔ شکیل نتکانی

سیاسی جماعتوں کو جتنے کمپرومائزز پر مجبور کر دیا جائے ان کی جدوجہد کا ایک مطمع نظر رہے گا اور وہ ہو گا آئین اور پارلیمان کی بالادستی۔

فرحت اللہ بابر نے آرمی ایکٹ میں تبدیلی کے قانون کے حوالے سے بیان دے کر ممکن ہے کسی تنظیمی ضابطے کی خلاف ورزی کی ہو لیکن اس سے ایک بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ مقبول سیاسی جماعتوں کی جانب سے کئے گئے اس فیصلے پر تنقید محض سوشل میڈیا پر بیٹھے کچھ لوگوں کے جذباتی بیانات، خواہشات تک محدود نہیں تھی بلکہ اس فیصلے نے دونوں جماعتوں کے عہدوں پر براجماں لوگوں کو بھی ہلا ڈالا۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ فیصلے کے پس پردہ سیاسی دانش کم اور انسانی جذبات کا زیادہ عمل دخل ہے۔ نواز شریف لندن پہنچ گیا، اور اس کی بیٹی ابھی تک پاکستان میں ہے باپ کی شفقت اس بات کی متقاضی تھی کہ بیٹی جلد از جلد پاکستان سے نکل آئے یقیناً دوسرے مفادات بھی مد نظر ہوں گے۔

آصف زرداری اگرچہ رہا ہو چکے ہیں اور وہ پاکستان میں ہیں۔ بلاول اور بے نظیر بھٹو کے دیگر بچے نہیں چاہتے کہ عمر کے اس حصے میں زرداری صاحب جیل میں رہیں ان کے لئے کسی اقتدار یا مفاد سے بڑھ کر یہ اہم کہ زرداری صاحب ان کے سامنے اور ان کے ساتھ ہوں۔

جہاں تک سیاسی جدوجہد کی بات ہے اس کے لئے عمر پڑی ہے۔ جتنے بھی لوگ پیپلز پارٹی کی جانب سے کئے گئے فیصلے کی حمایت کر رہے ہیں ان میں سے شاید کوئی ایک بھی ہونے والی ترمیم کو صحیح قرار دے وہ صرف حمایت کے فیصلے کی تائید کر رہے ہیں کیونکہ دونوں تائید اور مخالفت کرنے والے اس بات پر تو متفق ہیں کہ جیسے ایکٹ میں ترمیم ہونی چاہیے تھی ویسے ہوئی نہیں یا ان کے دل کہتے ہیں کہ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا۔

دونوں جماعتوں کی قیادت کو جن مصائب اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ عمران خان کی وجہ سے بہت کم اور جس شخص کی ایکسٹنشن کے لئے انہوں نے قانون میں ترمیم کی اس کی وجہ سے زیادہ تھا۔

دونوں جماعتوں کی آگے کی جدوجہد بھی عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ ایکسٹنشن لینے والے یا اس کے ادارے کے خلاف ہو گی کیونکہ ان کی جدوجہد جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مکمل بالادستی کی ہے جس کی راہ کی رکاوٹ عمران خان نہیں کہ جو محض ایک مہرہ ہے بلکہ وہ سوچ ہے جو آئین کو محض اس وجہ سے کاغذ کا ایک ٹکڑا سمجھتی ہے کہ اس کے ہاتھ میں بندوق ہے۔

ایکسٹنشن کے قانون میں تبدیلی نہ بھی لائی جاتی تو بھی جدوجہد آئین کو کاغذ کا ایک ٹکڑا سمجھنے والوں کے خلاف جاری رہتی اب جبکہ کہ قانون میں تبدیلی لائی جا چکی ہے پھر بھی جدوجہد آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھنے والی سوچ کے خلاف جاری رہے گی۔

سیاسی جماعتوں کو جتنے کمپرومائزز پر مجبور کر دیا جائے ان کی جدوجہد کا ایک مطمع نظر رہے گا اور وہ ہو گا آئین اور پارلیمان کی بالادستی۔

%d bloggers like this: