مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب کے محکمہ صحت پر پیر خانوں کا راج ۔۔۔حیدر جاوید سید

یوں اگر یہ کہا جائے کہ پنجاب میں پچھلے چھ ماہ سے اصل حکمرانی آستانوں شریفین کی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔

پنجاب میں سیدھے سادھے معصوم وسیم اکرم پلس سردار عثمان علی خان بزدار کی حکومت ہے۔
ظاہر ہے وسیم ا کرم بھی کھیل کے میدان میں اترتے ہی وسیم اکرم نہیں بن گئے تھے چند برسوں کی محنت مشقت اور لگن نے ان کا نام روشن کیا اور اب وہ دنیائے کرکٹ کا قابل فخر حوالہ ہیں۔
ہمارے وسیم اکرم پلس بھی سیکھ جائیں گے ابھی اتنی جلدی کیا ہے ماضی میں وہ تحصیل ناظم تونسہ شریف رہے ہیں اچھا خاصا تجربہ ہے ناظمی کا۔
یہ الگ بات ہے کہ خود ہمارے بزدار کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ حکومت چل کیسے رہی ہے اور چلا کون رہا ہے۔
ان کے لئے وزیر ا عظم نے تین بار بیورو کریسی کی بھل صفائی کی۔
شہباز گل سے نجات دی لیکن ہمارے بزدار کو ان آستانوں سے کون بچائے گا جو تقرریوں اور تبادلوں کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کے دفتر سے زیادہ با اختیار ہیں۔
مثال کے طور پر سندر شریف کے آستانے کو ہی لے لیں کچھ عرصہ قبل ان پیر صاحب کی سفارش پر ساہیوال میڈیکل کالج کے پرنسپل بننے والے ڈاکٹرجن پر الزام ہے کہ وہ ہفتہ میں پانچ دن اب بھی ایک نجی ہسپتال میں مریض دیکھتے اور آستانہ شریف میں پیر خانہ کی خدمت کرتے ہیں
انہوں نے اپنے پیر کو کالج کا دورہ کرنے کی دعوت دی اور دو کلو میٹر کے فاصلے پر لاکھوں روپے کے پھول برسائے اور 6 لاکھ روپے لنگر پر خرچ کروا دیئے
ظاہر ہے کہ یہ رقم کالج فنڈ سے خرچ ہوئی۔
اب جنت کس کی پکی ہوئی ڈاکٹر صاحب کی یا کالج کی؟۔

پرنسپل جن پانچ دنوں میں لاہور ہوتے ہیں ان پانچ دنوں میں ان کے پیر بھائی جوکہ ساہیوال کے ایک مقامی تھانہ کے ایس ایچ او ہیں قائم مقام پرنسپل کے فرائض ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے ہی درجہ چہارم کے ایڈہاک اور کنٹریکٹ ملازمین کی بھرتی کا ریٹ نکالا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے وسیم اکرم پلس کے دور میں ہی یہ ہوا کہ میڈیکل بورڈ سے باقاعدہ نابینا قرار پانے والے ڈاکٹر کو سرجری کے شعبہ کا ہیڈ بنا دیاگیا اس میں بھی ایک آستانہ عالیہ کی برکت نظر آتی ہے۔
یوں اگر یہ کہا جائے کہ پنجاب میں پچھلے چھ ماہ سے اصل حکمرانی آستانوں شریفین کی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔

عجیب کرامت ہے کہ ا یک نا بینا ریٹائرڈ شخص کو سرجری کے شعبہ کا سربراہ بنا دیاگیا تو دوسری طرف دو ڈاکٹرز کو بحال کرکے پھر سے خدمت خلق پر مامور کر دیاگیا حالانکہ قانون کے مطابق برطرف کرنے والا افسر بحالی کے احکامات نہیں دے سکتا۔
راوی کہتا ہے کہ پنجاب (خصوصاً وسطی پنجاب) میں وائی ڈی اے کی سیاست بھی پیر خانے سے کنٹرول ہوتی ہے۔ اس لئے 5کروڑ کے گھپلے میں ملوث ساہیوال کے ایک مرید خاص کا معاملہ طے کروایا جا رہا ہے۔
پنجاب میں صحت کے شعبہ کو جہاں پیر خانوں نے برباد کیا وہیں وائی ڈی اے نامی ڈاکٹرز کی تنظیم کا کردار بھی روز روشن کی طرح نمایاں ہے۔
ینگ ڈاکٹرز کی اس تنظیم میں اکثریت چین اور وسط ایشیائی ریاستوں سے پڑھ کر آئے ڈاکٹرز کی ہے۔
ترقی کے لئے اہلیت کی بجائے مضبوط گروپ رکھنے اور دھونس کا مظاہرہ بھی پیر خانوں کی طرح موثرہے جیسے ایک ڈاکٹر پانچ بار ایسوسی ایٹ پروفیسر کے امتحان میں ناکام ہوئے لیکن پھر دھونس اورجعلی سند کی بدولت پچھلے سال ایسوسی ایٹ پروفیسر بن گئے۔
دوسری مثال ایک اورڈاکٹر کی ہے جن کی ابھی تک 641 نمبروں والی میٹرک اور 688نمبروں والی ایف ایس سی کی سند کی تصدیق متعلقہ بورڈ نے نہیں کی
ان کے پاس چین کی جس یونیورسٹی کی سند ہے۔ وہ قائم تو 2000ء میں ہوئی لیکن اپنے قیام سے قبل ہی اس نے انہیں ڈگری عطا کردی
اس عظیم ڈاکٹر نے 100نمبروں والے مضمون کے امتحان میں 120نمبر لئے۔
یہ چند مثالیں ہیں مگر پنجاب خصوصاً وسطی پنجاب کے ہسپتالوں اور میڈیکل کالجوں میں حالات اس سے بھی برے ہیں۔
وائی ڈی اے اور کچھ آستانے جس طرح وزارت صحت کو نکیل ڈالے ہوئے ہیں اس سے روز تماشے لگتے ہیں
آج کل چونکہ دھند بہت زیادہ ہے اس لئے بہت سارے معاملات دھند میں گم ہو جاتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے دنوں ڈاکٹر وکلاء تنازعہ کا باعث بننے والے اسی ایسوسی ایشن کے ایک رہنما ڈاکٹر پر قتل کے ایک مقدمہ سمیت چند دیگر سنگین الزامات بھی ہیں مگر ان الزامات پر محکمانہ کارروائی اس لئے نہیں ہو پاتی کہ وائی ڈی اے مضبوط ہے وہ کسی بھی وقت ہسپتالوں میں زلزلہ برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

پنجاب کی حکومت پر پیر خانوں کی بالا دستی صرف طب کے شعبہ میں ہی محسوس نہیں ہوتی بلکہ خاتون محتسب’ پولیس اور محکمہ زراعت میں بھی آستانوں کی پرچیوں پر کام روٹین سے زیادہ تیز رفتاری سے ہوتے ہیں۔
شعبہ صحت میں اصلاحات کے سارے وعدے اسی طرح زمین بوس ہوئے جیسے پولیس کے حوالے سے کئے جانے والے دعوے زمین بوس ہوئے تھے۔
اب تو خیر سے صورت یہ ہے کہ ملتان کے ایک پیر خانے کی خوشنودی کے لئے کرپشن میں گردن تک دھنسے ایک ڈاکٹر کو جن کی خصوصی مہارت کی ڈگری سپریم کورٹ جعلی قرار دے چکی ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت دینے کی فائل وزیر اعلیٰ کی میز پر پڑی ہے۔
آپ پنجاب کے کسی ہسپتال میں چلے جائیں سینئر ڈاکٹرز کی اکثریت ہسپتالوں کی بجائے اپنے کلینکس میں ملے گی اور ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں آپ کو ٹاوٹ ملیں گے جو ہر قسم کے علاج اور آپریشن کے لئے گھیر گھار کر نجی ہسپتالوں میں لے جاتے ہیں۔
پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی بے بسی کی تین وجوہات ہیں اولاً وہ خود ڈاکٹرز کی ایک ملک گیر تنظیم سے منسلک ہیں ان کی تنظیم پی ایم اے کو اصل چیلنج وائی ڈی اے سے ہے۔
ثانیاً ق لیگ کے ایک وزیر کی ان کی وزارت میں سپیکر کی سربراہی میں مداخلت’
ثالثاً وزیر اعلیٰ کے دفتر پر آستانوں کی بالا دستی۔
ایک اکیلی یاسمین راشد کیا کرے بس وہ بیان دیتی ہیں وعدے کرتی ہیں اور آگے جو ہوتا ہے وہ آستانوں کی برکت سے ہوتا ہے۔
ان حالات میں ہمارے سادہ اور بھلے مانس وسیم اکرم پلس بزدار سے کسی کو شکوہ کرنے کا حق نہیں۔
فقیر راحموں پچھلے چند دن سے کہہ رہا ہے شاہ جی اگر تم نے بھی کوئی آستانہ عالیہ بنا لیا ہوتا تو آج کم از کم ایک آدھ میڈیکل کالج میں پرنسپل ہی لگوالیتے
اس جملہ معترضہ کو رہنے دیجئے سوچئے یہ کہ ساڑھے 9یا 10کروڑ کی آبادی والے صوبے کو آستانے مزید کتنی دیر چلا پائیں گے؟
اور کتنی دیر ہمارے وسیم اکرم پلس کا بس نام استعمال ہوگا۔

%d bloggers like this: