مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

واشنگٹن ڈی سی میں خبروں کے عجائب گھر کا آخری دن

نیوزیم آزادی اظہار رائے کے لئے دی جانے والی قربانیوں اور شعبہ صحافت میں بتدریج ہونے والی ترقی کی داستان بیان کرتا تھا۔

مبشر علی زیدی


واشنگٹن ڈی سی میں خبروں کے عجائب گھر نیوزیئم کا آج آخری دن ہے۔ کل سے یہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔ اتوار کو میں اپنے بچوں کو یہاں لے آیا تاکہ وہ حالیہ تاریخ کی جھلکیاں دکھانے والے عجائب گھر کو تاریخ کا حصہ بن جانے سے پہلے آخری بار دیکھ لیں۔


نیوزیئم کی عمارت چھ منزلہ ہے۔ ہر منزل پر کئی نمائشیں ہیں۔ ایک کمرا دہشت گردی اور ایف بی آئی کے بارے میں ہے، ایک دیوار برلن سے متعلق۔ ایک مقام پر کامکس کا گوشہ ہے، ایک جگہ پر ایڈیٹوریل کارٹونز کا۔ ایک فلور پر دنیا بھر کے اخبارات کے صفحہ اول چسپاں ہیں، ایک پر امریکی صدور کے کتوں کی تصویریں جنھیں فرسٹ ڈاگ کا نام دیا گیا ہے۔

تہہ خانے میں سیٹلائٹ وین کھڑی ہے جبکہ اوپر کی منزلوں پر کئی اسٹوڈیو بنے ہوئے ہیں۔ ورچوئل اسٹوڈیو بھی ہیں کہ آپ مائیک اٹھائیں اور اینکر بن کر موسم کا حال بتائیں یا خبریں پڑھیں۔


ایک دیوار پر ان صحافیوں کی تصویریں اور نام درج ہیں جنھیں فرض ادا کرتے ہوئے قتل کیا گیا۔ وہاں پاکستانی صحافیوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ ان میں ایک نام ہمارے ولی خان بابر کا بھی ہے۔


مبشرعلی زیدی نے یہ تحریر اپنے فیس بُک پیج پر ڈالی تو فیس بُک صارفین نے اس پر تبصرے بھی کئے ۔

جواد شیرازی نامی صارف نےتصاویر شئیر کرنے کے ساتھ ساتھ  لکھا:
اوہو،یہ تو بہت برا ہوا
میں دو ہزار چودہ میں وہاں گیا تھا۔نائین الیون کے منہدم شدہ ایک بلاک کے ساتھ کچھ وقت بتایا تھا۔وہاں نیوز کی کوریج کیلئیے استعمال شدہ پہلا ہیلی کاپٹر بھی ہوتا تھا۔

اس کی دیواروں پر آزادئ اظہار بارے کی گئی امریکی آئین میں پہلی ترمیم کندہ تھی۔
افسوس یہ سب اب تاریخ بن جاے گا۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ اسوقت،دو ہزار چودہ میں،کیپیٹل ہل،جیوئش میوزیم ایروسپیس میوزیم وغیرہ میں داخلے کی کوئی فیس نہیں تھی لیکن نیوزیم میں داخلے کی اٹھائیس ڈالر ٹکٹ تھی۔اس کے باوجود یہ خسارے میں چلا گیا،حیرت ہے
یہ بھی ٹرمپ دور میں ہی ہوا ہے ورنہ کوئ اور صدر ہوتا تو گرانٹ دے کر اس کو چلتا رکھتا۔صحافت سے منسلک یہ ایک شاندار عمارت تھی۔
 
اسی لئیے تو میں نے حیرت کا اظہار کیا کہ ٹکٹ کے باوجود خسارے میں چلا گیا۔یقینی طور پر اسے سرکاری گرانٹ ملنی بند ہو گئی ہو گی۔دو ہزار چودہ میں یہ کچھ اسطرح تھا۔
مبشر علی زیدی :واشنگٹن میں پچاس سے زیادہ میوزیم ہیں جن میں سے کم از کم میری معلومات کی حد تک صرف تین کی داخلہ فیس ہے۔ باقی سب مفت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ وہ تین میوزیئم نیشنل جیوگرافک، نیوزیئم اور میڈم تساؤ ہیں۔

عقیل عباس جعفری نے پوچھا یہ نیوزیم بند کیوں ہورہاہے ؟
مبشر علی زیدی نے جواب دیااس کے منتظمین مالی خسارہ برداشت نہیں کرپارہے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی نے یہ عمارت 37 کروڑ ڈالر میں خرید لی ہے۔ اب یہاں کلاسز ہوں گی۔ نیوزیئم کی نمائشیں دوسرے عجائب گھرں کو دے دی جائیں گی یا بند کردی جائیں گی۔


محمد شہباز میاں نے لکھا نیوزیم آزادی اظہار رائے کے لئے دی جانے والی قربانیوں اور شعبہ صحافت میں بتدریج ہونے والی ترقی کی داستان بیان کرتا تھا۔

%d bloggers like this: