اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دوزخ نامہ: ترجمے کی روایت میں ایک اور بہترین اضافہ۔۔۔عامر حسینی

اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ارونا سنھا نے کیا جو پہلے بھی بنگالی ادب و شاعری کی بہت سی کتابوں کا انگریزی ترجمہ کرچُکے ہیں-

ربی شنکر بال بنگالی فکشن رائٹر جو صحافت کے ساتھ ہی فکشن کے میدان میں وارد ہوئے- ویسے تو انہوں نے کُل ملا کر 25 فکشن و نان فکشن کتابیں لکھیں لیکن جو شہرت اُن کے ناول دوزخ نامہ کے نصیب میں لکھی تھی وہ کسی اور کتاب کے نصیب میں نہیں لکھی گئی-

اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ارونا سنھا نے کیا جو پہلے بھی بنگالی ادب و شاعری کی بہت سی کتابوں کا انگریزی ترجمہ کرچُکے ہیں-

اس کتاب کا اردو ترجمہ انعام ادیب نے کیا ہے جو اردو زبان میں شاعری کرتے ہیں اور پنجابی شعر و ادب کے تراجم اردو میں کررہے ہیں-

‘دوزخ نامہ’ ناول اور داستان گوئی کے درمیان کی چیز لگتا ہے-

ربی شنکر بال نے اس ناول کی شروعات کیسے کی؟

وہ لکھنؤ -اتر پردیش گئے طوائفوں کے بارے میں ایک تحقیقی فیچر لکھنے اور وہاں اُن کی ملاقات پروین تلہار سے ہوتی ہے جو اونچے ہندوستانی عہدے پر تعنیات افسر ہیں- وہ افسر سے کہتی ہیں کہ مرزا ہادی رسوا نے اپنے ناول ‘امراؤ جان ادا’ میں اور عبدالحلیم شرر ‘ لکھنؤ گزشتہ’ میں لکھنؤ اور طوائفوں کا جو احوال لکھا وہ اب دیکھنے کو نہیں ملے گا- اسی دوران وہ نیئر مسعود سے ملے اور اُن کے توسط سے فرید میاں کو اور یوں اُن کو ایک ناول کا سراغ ملتا ہے جو منٹو صاحب سے منسوب ہوتا ہے- یہ ناول مصنف کے ساتھ کلکتہ پہنچتا ہے اور وہ اس کو پڑھنے کے لیے اردو استاد کی تلاش کرتے ہیں جو تبسم کی شکل میں اُن کو مل جاتی ہے- پہلے مصنف خود اردو پڑھنا لکھنا سیکھنا شروع کرتا ہے لیکن جلد ہمت ہار جاتا ہے اور پھر فیصلہ ہوتا ہے کہ تبسم اس ناول کو مرحلہ وار اردو میں پڑھ کر سنائے گی اور اُس کا بنگالی میں ترجمہ کرتی جائے گی جسے مصنف محفوظ کرلے گا-

دوزخ نامہ منٹو اور اسد اللہ خان غالب کے درمیان عالم دوزخ میں واقع قبور میں ہوا مکالمہ ہے جس میں اصل میں غالب اور منٹو دونوں کے ادوار کی کہانی اپنے ہی انداز میں دونوں کی زبان میں بیان ہوئی-

ربی شنکر بال نے بنگالی میں اور سنھا نے انگریزی میں قلعہ معلی کی اردو و فارسی سے مغلوب سماج اور منٹو کے زمانے میں اردو، ہندی، انگریزی زبانوں کی نوآبادیاتی دور میں تراش خراش سے بنے سماج کی حقیقتوں کو اردو، فارسی، سنسکرت، ہندی اشعار کے جلو میں بیان کیا ہے-

لیکن یہ ناول بہرحال اردو زبان و ادب کی فضا سے بھرا ہوا ہے جس کا انگریزی سے اردو قالب میں ڈھلنا ایک کارنامہ ہے-

ناول کے آغاز سے لیکر خاتمے تک کہیں لگتا ہی نہیں کہ اردو ترجمہ پڑھا جارہا ہے- زبان و محاورہ دونوں پر مترجم کی شاندار گرفت ہے- بلکہ کئی ایک جگہ کئی جملے اردو میں انگریزی سے زیادہ شاندار اور پُرکشش لگتے ہیں –

مترجم نے محض فارسی اشعار ہی نہیں بلکہ اردو اشعار کے معانی بھی بیان کیے ہیں جس سے مفرس و معرب تراکیب سے نابلد قاری بھی ان اشعار کے معانی سے آگاہ ہوجاتا ہے-

فکشن میں حقیقت واقعہ کو تخیل کی مدد سے اور زیادہ پُرکشش بناکر دکھایا جاسکتا ہے- جیسے منٹو کی زبانی عصمت چغتائی سے منٹو کے میلان اور جھکاؤ کی جو تصویر کشی کی گئی ہے وہ حقیقت واقعہ سے کافی ہٹ کر تو ہے مگر ہے زبردست- اور ایسے ہی صفیہ اور منٹو کے درمیان رشتے، تعلق کی عکاسی کا معاملہ ہے-

عکس پبلیکیشنز لاہور نے اس کتاب کو شایع کیا ہے-

%d bloggers like this: