مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دھمال چوک، قلندر اور چنگیز۔۔۔ رانا محبوب اختر

سروں کی فصل کاٹنے والے چنگیز خان سے بہر حال میرا اور میرے کہانی کار کا وجود جدا تھا۔ قلندر اور چنگیز دو الگ وجود تھے!!

سیہون میں قلندر کے مزار کے پاس دھمال چوک ہے اور قریب ہی سندھ صوفی انسٹیٹیوٹ کے صدر خادم حسین سومرو سے ملاقات طے تھی۔ان کے اور میرے درمیان لگ بھگ دو سو گز کا فاصلہ تھا۔وقت دھمال چوک میں سمٹ آیا تھا۔اور میں رک گیا تھا اب میرے کان میں سندھ وادی کی تاریخ و تہذیب کی کٹی پھٹی صدیاں قوالی کے سروں اور کم وسیلہ لوگوں کے دھمال کی صورت اونچی آواز سے بولنے لگی تھیں۔

موہنجوڈارو، ہڑپہ اور مہر گڑھ کے زراعت رائج کرنے والے کسان اور ناچتی لڑکیاں، قلعہ کہنہ قاسم باغ کی فصیل پر موحد پرہلاد کا ٹوٹا مندر، ملتان میں لکھا جانے والا دنیا کا پہلا ناول،”کدمبری”، پنڈت، گاتے فقیر،یوگی،قلندر ، صوفی، خرقہ پوش، بادشاہ، ملا، قاضی اورجرنیل، سکندر ، پورس اور سکندر سے لڑتے ملتان کے ملہی، وید، گنان اور سات دریا، اسلام اور کربلا، سیدوں کو پناہ دینے والا راجہ ڈاہر اور حجاج کا سپاہی محمد بن قاسم، غزنوی ، سومنات اور سونا، وفا کی راہ میں چراغ جلاتی اور قتل ہوتی مورائیں،

کچلو خاں،قباچہ،سندھ اور ملتان کے سمرہ اور لنگاہ حکمران، غوری، التمش، بلبن، بابر ، اکبر اور اورنگ زیب، اور جی ایم سید کے سندھی سورما اور ان میں کھڑا زمیں زاد دودو سومرا، ٹلہ جوگیاں، گورو نانک، مندر، مدرسہ، مسجد، اور نو رتنوں والا اکبر_ اعظم ، مغل تمکنت سے نبرد آزما خوشحال خاں خٹک جیسا شاعر اور حریت پسند، رنجیت سنگھ سے لڑتا مظفر خان ، گورے سپاہیوں سے لڑتا ساون مل ،احمد خاں کھرل،داد فتیانہ، باغی اور انقلابی بھگت سنگھ ، ہیر سیال، رانجھے، جام تماچی، نوری، مومل رانڑو ، سسی اور ہوت بلوچ، لوک شاعر ، شاہ بھٹائی، بھلہ شاہ، وارث شاہ اور خواجہ فرید رح، میر و غالب ، انیس و دبیر، اقبال اور فیض و فراز، ابرار احمد اور ظفر اقبال، جدید منطق الطیر لکھنے والے روشن دماغ مستنصر حسین تارڑ، نیا لوک بیانیہ تشکیل دینے والے نجم حسین سید، سعید بھٹا، شیخ ایاز، سوبھو گیان چندانی، حسن درس، ادل سومرو، رفعت عباس ، عاشق بزدار ،اشو لال اور اقبال سوکڑی، دار کی خشک ٹہنی پہ وارا گیا۔

بھٹو، ننگے پاوں والی بے نظیریں، اور بے پایاں ناچتی ، گاتی، قتل ہوتی مخلوق جوق در جوق دھمال چوک پہ جمع ہو گئی تھی۔ لوگ ہی لوگ تھے۔

تاریخ کی خطاوں کی گرفت میں آئے لوگ اور رائگاں صدیاں محبوب_ گذشتہ کی صورت رقص میں تھیں ، رقص_ بسمل!پھر مجھے اک خیال نے چونکا دیا کہ جیسے میرا وجود یا ہستی سندھ وادی کی کوئی بستی ہے جسے برباد ہونے کی عادت ہے۔

برباد بستیوں اور ہماری ہستیوں کا نصابی تاریخ میں تذکرہ فاتح کے قلم سے لکھا گیا اور میری ہستی خون_ خاک نشیناں کی صورت رزق_ خاک ہوئی اور بس کبھی لالہ و گل کی صورت نمایاں ہوتی ہے۔ان خیالوں میں گھرا مسافر قلندر، چار یاروں، فتنہء تاتار اور تاریخ کی ان خطاوں کا سوچتا تھا جن کی وجہ سے بلخ اور سمرقند و بخارا، مرو، خوجند اور سبزوار کے شیخ اور داعی مشرق کو آئے۔نجم الدین کبری اور فریدالدین عطار قتل ہوئے اور رومی و شمس نے سلجوقی قونیہ میں عشق و محبت کے چراغ روشن کئے۔

ان پڑھ چنگیزی نگہ کی تیغ بازی سے بے بہرہ تھے اور ہم سپہ تیغ بازی سے تنگ آئے ہوئے تھے!
شہباز قلندر رح (1274-1177ء ) ایران کے صوبے اصفہان کے علاقہ مروند میں پیدا ہوئے، یہ شہر،آذربائیجان کی سرحد کے قریب ہے ۔ آپ سید تھے۔ بلوچستان کے راستے منزلیں مارتے ملتان آئے اور پھر اپنے دوست ملتانی شیخ کے مشورے پر سیہون جا بسے وہ ایک ایسے وقت میں سندھ وادی تشریف لائے جب پوری وادی میں شیخ بہاء الدین ذکریا(1266-1180ء )کا طوطی بولتاتھا۔شیخ ذکریا ملتانی کا خاندان مکہ سے خوارزم آیا اور آپ کے دادا کابل اور کروڑ سے ہوتے ہوئے ملتان آباد ہوئے۔ملتان ،مدینتہ الاولیاء ہو گیا تھا۔

ذکریا ملتانی رح سہروردی سلسلے کے امام تھے اور شیخ فریدالدین گنج شکر(1266-1179) ملتان کے کوٹھے وال میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ مریم بی بی شیخ وجیہہ الدین خوجندی کی بیٹی تھیں۔ خوجند، تاجکستان میں ہے،فرید رح کی ملاقات ملتان میں ہی خواجہ بختیار کاکی سے ہوئی جو بغداد سے دلی جاتے ہوئے ملتان رکے تھے کہ اس زمانے کا ملتان ایک بڑا علمی، روحانی، معاشی اور سیاسی مرکز تھا۔بختیار کاکی رح فرید رح کے پیر ہیں اور فرید رح نظام الدین اولیاء رح کے مرشد ہیں۔

فرید رح کی تین میں سے ایک بیوی دلی کے سلطان ناصر الدین محمود کی بیٹی تھیں۔آپ کی مقامی ہندوی یا قدیم ملتانی جسے اب وسیب کے لوگ سرائیکی کہتے ہیں، میں شاعری سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب میں شامل ہے۔آپ چشتیہ سلسلے کے بڑے بزرگ اور سلیم چشتی کے جد امجد تھے۔آپ کو اجودھن میں جاگیر عطا ہوئی تھی۔اجودھن آج کا پاک پتن ہے۔

منگولوں نے دنیا کی تاریخ میں ملحقہ علاقوں پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی سلطنت قائم کی تھی ۔بارود، قبائلی عصبیت اور خوف کے ملاپ نے انھیں ناقابل_ تسخیر بنا دیا تھا۔چنگیز خان اور اس کے بعد ہلاکو خان نے جاپان ،چین و عرب کو تہ و بالا کر ڈالا تھا۔ان کا عہد 1206 سے 1368 تک کے 162 خوفناک سالوں پر محیط ہے۔اور یہی وہ زمانہ ہے جب مسلم مفتوحہ علاقوں کے صوفی اور شیخ روم سے ہندوستان تک محبت کا پیغام لے کر نگر نگر آباد ہوئے۔

یہ صوفی ازم کے عروج کا زمانہ ہے۔ ایسے با کمال صوفی شاید ہی ایک زمانے میں کبھی جمع ہوئے ہوں۔خوارزم شاہ، خلیفہ معتصم اور ایرانی سلطنت کے ساتھ ساتھ شیخ الجبل کا وارث قلعہ الموت اور دوسرے کئی اسماعیلی نزاری قلعے منگولوں نے تباہ کر دئیے اور اسماعیلی داعی پیروں کی صورت بدخشاں ،سندھ، پنجاب،کشمیر اور گجرات دعوت و تبلیغ کرنے لگے جبکہ ان کا مرکز ملتان تھا۔

قلعہ پر سہروردی ذکریا ملتانی رح کا مزار ہے تو ان کے مشرق میں کوئی آدھے کلو میٹر کے فاصلے پر مرحوم دریائے راوی کے کنارے اسماعیلی پیر شمس سبزواری رح کا مزار ہے جن کی پیدائش 1200ء اور وفات1278 ء میں ہوئی۔ انھیں 29ویں اسماعیلی امام شاہ قاسم نے نزاری اسلام کی تبلیغ کے لئے ملتان بھیجا تھا۔ان کے اشلوک مقامی زبان میں ہیں۔

اسماعیلی پیروں نے اسلامی تصورات کو مقامی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی۔وہ صراطمستقیم کو ست پنتھ کہتے تھے۔ ست، سچ ہے اور پنتھ، راستہ ہے۔اس طرح صراط مستقیم سچا راستہ ہے۔ سَتم ( سچ)، شِوم ( شو کا سچ )سُندرم ( حسن بھی سچ ہے )کی مثل حیدریم، مستم ، قلندرم کی نئی عام فہم تثلیث قلندر نے نظم کی۔ کہ میں حیدری ہوں، مست ہوں اور قلندر ہوں!
حیدریم، قلندرم، مستم
بندۂ مرتضی علی ہستم
ذکریا ملتانی رح، فرید گنج شکر رح، لال شہبازقلندر اور جلال الدین سرخ پوش بخاری( 1292- 1198ء ) وہ چار یار تھے جن کے نام کے چراغ چاروں اور جلتے ہیں۔ میر سرخ یا Red Leader کے نام سے جانے والے بخاری پیر کی درگاہ اچ شریف میں ہے۔آپ بخارا سے آئے اور ذکریا ملتانی رح کے سلسلہ سہروردیہ سے منسلک ہو گئے۔ایک روایت یہ کہ آپ نے چنگیز خان سے ملاقات کی اور اسے مسلمان ہونے کا مشورہ دیا لیکن چنگیز صوفی سے متاثر نہ ہوا۔

جہانیاں جہاں گشت اور مخدوم صدرالدین قتال آپ کے خانوادے سے ہیں۔ یوں یہ 162 سال جہاں تاتاریوں کے مظالم سے خونچکاں ہیں وہاں صوفیوں کے ذریعے اسلام مقامیت سے جڑتا نظر آتا ہے۔ اور طمع نہ کرو ، جمع نہ کرو، منع نہ کرو جسے اقوال اجتماعی دانش کا حصہ بن رہے تھے ۔صرف ہندوستان نہیں،خراسان اور لیوانت کے پورے علاقے میں صوفیوں، عالموں اور فلسفیوں کا diaspora ہوا تھا۔ مولانا روم کے والد، بہاء الدین ولد، خوارزم شاہ اور تاتاریوں کے متوقع خوف سے بلخ سے شام کے راستے قونیہ جا بسے تھے۔

رومی کے مرشد اور محبوب شمس، تبریز سے روم آئے تھے!یہ ایک خونچکاں عہد تھا اور تاتار کعبے کی پاسبانی سے پہلے کعبہ کے پاسبانون کے قاتل تھے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسلم دنیا اب تک اس صدمے یا Trauma سے نہیں نکل سکی اور درست سمت کا تعین کرنے سے قاصر ہے!!
دھمال چوک سے چلا تو اک محشر_ خیال میرے ساتھ تھا اور چائے کی شدید طلب تھی۔ رمضان المبارک کی وجہ سے چائے ملنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ پھر اک کرامت ہوئی، قلندر کی نگری میں قلندر نما آدمی نے گرم چائے پلائی اور سندھ کی دلبری کی کہانی آگے بڑھا دی۔

وہ وحدت الوجود پہ بات کر رہا تھا حالانکہ وجود سب الگ ہوتے ہیں۔پر ہمارے کٹے پھٹے وجود میں درد کی وحدت تھی لیکن سروں کی فصل کاٹنے والے چنگیز خان سے بہر حال میرا اور میرے کہانی کار کا وجود جدا تھا۔ قلندر اور چنگیز دو الگ وجود تھے!!

%d bloggers like this: