اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رن مرید۔۔۔ گلزار احمد

یہ تو سر زمین ہی ایسی ہے کہ یہاں کے تھل کی سسیاں نورجہان کی طرح گبھرو جوانوں کو قیدی بنا لیتی ہیں اور بڑے بڑے خطابات بھی حاصل کرتی ہیں۔

ہمارے حُجروں اور چونکوں کی عجیب ثقافت ہے مثلا“ اگر کسی دن میں چونک پر دوستوں سے ملنے کے لیے وقت پر نہ پہنچوں تو یار لوگ کہتے ہیں یہ رن مرید ہو گیا ہے بیوی کے حکم کے مطابق دکان پر سودے ۔سبزیاں ۔گوشت خریدنے نکلا ہو گا یا گھر پر سیوا کر رہا ہے۔

یار اگر سودا سلف خرید کر دینا رن مریدی ہے تو سارے پاکستانی مرد رن مرید ہیں بلکہ کچھ میرے دوست تو پرلے درجے کے رن مرید ہیں۔

ارشاد حسین شاہ صاحب تو گیارہ بجے تک سبزی والے کا انتظار کرتا ہے تب جا کے جان چھوٹتی ہے اس کو کسی نے رن مرید نہیں کہا۔

ابوالمعظم ترابی گیارہ بجے دن تک گھر سے نہیں نکلتا اب آخر کس چیز نے اس کو روک رکھا ہوتا ہے پھر بھی اس پر کوئی الزام نہیں دیتا۔

ہمارے دوست وجاہت عمرانی صاحب کو میں جب فون کرتا ہوں وہ بیگم سے محو گفتگو ہوتے ہیں اور فون انگیج ملتا ہے پھر بھی کسی کو جرات نہیں ہوتی کہ ان سے پوچھ سکے ۔ مگر ہم پر بے تکا سا الزام ذرہ سی دیر میں چسپاں کر دیا جاتا ہے ۔

آپ تاریخ پڑھیں انڈیا کے نامور بادشاہ جہانگیر کو پورا ہندوستان ‘جورو کا غلام’ یعنی رن مرید کہتا تھا۔

سنا ہے جب وہ انصاف کرنے تخت پر بیٹھتا تو اس کے کندھے پر نورجہان ہاتھ رکھتی اور اس کا ذہن یکدم کھل جاتا اور فورا“ فیصلہ کر دیتا۔

بہت سے کورٹ اور انتظامیہ کے فیصلے نورجہان خود کرتی تھی کیونکہ جہانگیر بادشاہ تو افیون کا نشہ بھی کرتا تھا۔

بادشاہ نور جہان کو جنگل میں شکار پر ساتھ لے جاتا تھا اور وہ اتنی دلیر اور نشانہ باز تھی کہ ایک دفعہ چھ گولیاں چلا کر چار شیر مار ڈالے اور شیروں کی قاتلہ مشھور ہو گئی۔

جہانگیر بادشاہ کو تو پہلے ہی گھائل کر چکی تھی۔ جہانگیر نے نورجہان کے اعزاز میں باقاعدہ ایک چاندی کے روپے کا سکہ پتنہ سے جاری کر دیا تھا۔

اس کو نور جہان کا بڑا خطاب بھی جہانگیر نے ہی دیا تھا حالانکہ اس کا نام تو مہر النسا تھا ۔میں نے تو یہ بھی سینہ بہ سینہ گزٹ اور مورخین بھکر سے سنا ہے کہ نورجہان کی پیدائش بھکر میں ہوئی تھی جب ایک ایرانی قافلہ قندھار سے دہلی جاتے ہوۓ بھکر کے قریب پڑاو ڈال کے آرام کر رہا تھا۔

اس وقت لیہ ۔بھکر۔ دامان سب ڈیرہ کے ساتھ منسلک تھے۔تو ثابت ہوا کہ اس علاقے میں جو عورتیں پیدا ہوتی ہیں ان کو ایسی گُھٹی ملتی ہے کہ ایک تو وہ خوبصورت بہت ہوتی ہیں دوسرے وہ اپنے حُسن کی وجہ سے مردوں پر حاوی ہو جاتی ہیں اور ذہین اتنی کہ حکومت بھی کر سکتی ہیں۔

جہانگیر بادشاہ ابھی شھزادہ سلیم تھا تو کبوتر بازی کا شوقین تھا ۔ایک کہانی میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ وہ دونوں ہاتھوں میں دو کبوتر پکڑے گلیوں میں جا رہا تھا کہ ایک اور کبوتر منڈیر پر بیٹھا دیکھا ۔

اس نے کبوتر کو پکڑنے کے چکر میں وہ بھاگنے لگا راستے میں نورجہاں خوبصورت جوان لڑکی کے روپ میں گلی میں موجود تھی۔

شھزادہ سلیم نے جلدی سے دو قیمتی کبوتر نورجہان کے ہاتھ میں دییے اور تیسرا کبوتر پکڑنے آگے بڑھا جب واپس نورجہان کے پاس دو کبوتر لینے پہنچا تو ایک کبوتر نورجہان کے ہاتھ سے اڑ چکا تھا۔

اب تو وہ بڑا جزبز ہوا اور نورجہان سے کہا دوسرا کبوتر کہاں ہے؟ نورجہان نے کہا وہ تو اڑ گیا۔

شھزادہ سلیم نے گھبراہٹ اور غصے میں کہا کیسے اُڑ گیا ؟ نورجہان نے دوسرا کبوتر اڑاتے ہوۓ کہا ایسے اُڑ گیا !!! اس طرح شھزادہ سلیم کا دوسرا کبوتر بھی نورجہان کے ہاتھوں قید سے آذاد ہو گیا مگر نورجہان کی یہ ادا شھزادے کو ایسی بھائی کہ وہ خود عمر بھر کے لیے نورجہاں کا اسیر بن گیا۔

دو کبوتر بھی کھو دیے اور اپنا دل بھی کھو بیٹھا۔ مگر ظالم سماج یعنی شھزادے سلیم کے باپ اکبر بادشاہ نے یہ شادی نہ ہونے دی اور نورجہان کی شادی کسی ریاست کے حکمران شیر افگن سے ہو گئی۔

پھر ویسا ہی ہوا جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے جب اکبر کی وفات کے بعد جہانگیر تخت پر بیٹھا تو اچانک شیر افگن مارا گیا اور گھوم گھام کے نورجہان جہانگیر کی بیوی بن گئی حالانکہ جہانگیر میں اس وقت پاکستان کے حکمرانوں جتنی بھی عقل ہوتی تو شیر افگن کو مرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی یہ کام تو ہمارے ہاں بڑے پرامن اور پر خلوص طریقے سے ہو سکتا ہے مگر کیا کریں بادشاہوں کے دماغ بہت اونچے ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مہر النسا نے اپنے حسن ذہانت سے پہلے نور محل اور پھر نور جہان کا خطاب پایا۔ اب اگر ایک شھزادہ اور بادشاہ ایک عورت کے ہاتھوں شکست کھا لیتا ہے تو یار مجھے کیوں طعنہ دیا جاتا ہے کہ میں رن مرید ہوں۔

یہ تو سر زمین ہی ایسی ہے کہ یہاں کے تھل کی سسیاں نورجہان کی طرح گبھرو جوانوں کو قیدی بنا لیتی ہیں اور بڑے بڑے خطابات بھی حاصل کرتی ہیں۔ تو بھائی مجھے ایسا طعنہ مت دو ورنہ بڑے بڑے تخت نشین اس ٹائیٹل کی زد میں آ جائیں گے اور پھر مجھ سے گلہ نہ کرنا۔شعر عرض ہے ؎


کبھی جگنو۔کبھی تارے۔ کبھی نرگس کہ کر۔۔۔۔۔

تم مری آنکھوں کو اس طرح تو چھیڑا نہ کرو۔

%d bloggers like this: