اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مجھے میری ماتر بُھومی(دھرتی ماں) دکھا دو۔۔۔غلام عباس سیال

ایک لمبی تفصیل سنا کر انکل کچھ دیر کیلئے رُکے اور پھر مجھ سے پوچھنے لگے۔ کیا سب جگہیں ویسی کی ویسی ہیں؟

یکسانیت ہمیشہ اکتاہٹ کو جنم دیتی ہے، خصوصاً پردیس میں جہاں سوشل ایکٹیویٹیز کی کمیابی اور دوستوں کا دائرہ محدود ہونے کے سبب روٹین کی یکسانیت سے دل اُکتا جاتا ہے تو ایسے میں انسان کا کسی نہ کسی غمخوار سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔جب مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے تو کسی کو بتائے بغیر لکشمن ٹُھکرال کی طرف نکل پڑتا ہوں۔ان سے ملنے اور ان کے ساتھ بات چیت کرنے سے نہ صرف میری ہفتوں بھر کی تھکاوٹ کا خاتمہ ہوجاتا ہے بلکہ ا پنی کھوئی ہوئی ذہنی توانائی بحال کرکے میں واپس گھر کو لوٹ آتا ہوں۔

انکل ٹھکرال1929ء میں ڈیرہ اسماعیل خان کے محلہ ٹھکرالاں میں ایک جنرل مرچنٹ شری بھگوان داس کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔اُن کے دادا کا شمار شہر کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔تقسیم سے قبل ٹُھکرال خاندان کا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس عروج پر تھا، اس کے علاوہ رائیل آرمی میڈیکل کور کی کینٹینو ں کے ٹھیکے بھی اُنکے پا س تھے۔تقسیم کے دوران ان کا سارا خاندان لاہور کے راستے دہلی آبسا۔اپنی ساری جوانی دہلی میں گزانے کے بعد پچاسی سالہ لکشمن ٹُھکرال اور ان کی پتنی پریم ٹُھکرال اب سڈنی(آسٹریلیا) میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔پریم آنٹی نے خود کو تازہ دم رکھنے کیلئے اپنے گھر کے پچھواڑے کو مختلف قسم کے پھولدار پودوں اور پھلوں سے سجا رکھا ہے۔تُلسی سمیت زیادہ تر پودوں کے بیج وہ ہندوستان سے لائی تھیں۔تُلسی کے تناور پودے کیاریوں کے اطراف سر اٹھائے اپنی مخصوص خوشبو سے فضا کو تروتازہ رکھے ہوئے ہیں۔میرے اپنے گھر کے بیک یارڈ میں دیسی پود ینہ، خوشبودار دھنیا اور پالک کے پھلتے پھولتے پودے پریم آنٹی ہی کا دیا ہوا تحفہ ہیں۔ پچھلے ہفتے آنٹی کی فرمائش پر جب میں تُلسی کا پودا لینے اُن کے ہاں پہنچا تو دونوں میاں بیوی نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔انکل ٹھکرال عموماً خاموش طبع واقع ہوئے ہیں،مگر جب تقسیم کے حوالے سے قصے چھیڑتے ہیں تو بس بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔مجھے دیکھتے ہی انکل میرا حال احوال پوچھنے کی بجائے پہلا سوال یہی کرتے ہیں۔ہمارا ڈیرہ اسماعیل خان کیسا ہے؟ واقعی جو لوگ تقسیم کے وقت ہجرت کرکے اپنے پیچھے آبا ؤ اجداد اور ماضی کی تلخ و شیریں یادیں چھوڑ گئے،ان کی اپنے آبائی وطن سے عقیدت کو بیان کرنا مشکل ہے۔اُس روز بھی وہ تقسیم کا قصہ سنانے بیٹھ گئے۔

”میں ابھی لاہور کے میگلی گن انجینئرنگ کالج میں زیرِتعلیم تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو گیا۔تقسیم کے بعد ہمارا خاندان ڈی آئی خان سے سب کچھ سمیٹ کر لاہور کے راستے بذریعہ ٹرین ہری د وار پہنچا،جہاں پر رودکی انجینئرنگ کالج سے مکینکل انجینئرنگ کے شعبے میں مجھے داخلہ ملا اور وہیں سے گولڈ میڈل حاصل کیا۔کالج سے نکلتے ہی یوپی الیکٹریکل ڈسٹرکٹ بورڈ میں بطور انجینئر تعیناتی ہوئی،مگرجلد تبادلہ راجھستان الیکٹرک سٹی بورڈمیں کر دیا گیا۔ریاست راجھستان کے طول و عرض میں بجلی کی فراہمی کسی چیلنج سے کم نہ تھا،مگر میں اُس وقت پرجوش، پر عزم اور باہمت نوجوان تھا۔تقریباً بیس سال تک وہاں دل لگا کر کام کیا۔وہاں پر میری سربراہی میں لگے پلانٹس اور ٹربائنیں آج بھی کام کر رہی ہیں جہاں سے بجلی کی ترسیل جاری ہے“۔

بات کرتے کرتے انکل ٹُھکرال ایک دم سے چپ ہوگئے، جیسے کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے ہوں اور پھر خود ہی خاموشی کے وقفے کو توڑتے ہوئے بے ا ختیار بول اٹھے۔ کسی طرح مجھے میری ماتر بھومی(دھرتی ماں) ہی دکھا دو۔میرے منہ سے فوراً نکلا۔ضرور،لیکن آپ تھوڑی سی نشاندہی تو کیجئے۔میرا جواب سنتے ہی ان کی آنکھیں چمکنے لگیں اور وہ پھر سے بولنا شروع ہوگئے۔

”ڈیرہ اسماعیل خان میں سول ہسپتال کے سامنے والے گیٹ (فقیرنی دروازے) سے جب آ پ داخل ہوں تو بائیں طرف وی بی سکول آتا ہے۔میں وہیں پر پڑھتا تھا۔وی بی سکول کے بعد بائیں ہاتھ ایک بڑی سی گلی آئے گی،جس کے اندر ایک پرائمری سکول بھی تھا،یہ محلہ حیات اللہ ہے۔ اس گلی کو چھوڑ کر آگے جائیں تو بائیں طرف ایک اور گلی آئے گی جس کے اندر ایک دھرم شالہ تھا۔دھرم شالے والی گلی میں جب آپ داخل ہوں گے تو یہ آگے چل کر چھوٹے بازار سے جا ملے گی۔ آپ جیسے ہی چھوٹے بازار میں قدم رکھیں گے تو بائیں ہاتھ ہی ہمارا محلہ ٹھکرالاں دکھائی دے گا۔اسی محلے میں میراجنم ہوا تھا اور یہیں پر میرے دو چاچے اور ماسیوں (خالاؤں) کے گھر بھی تھے۔انکل بولتے چلے جا رہے تھے اورمجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کسی نے جھٹ سے پروجیکٹر پر کوئی فلم سی چلا دی ہو۔اس کے علاوہ توپانوالہ دروازے کے باہر کینٹ والی سڑک جو دریائے سندھ کو جاتی ہے اسی سڑک کے کنارے سیٹھ گھنیش داس کا مشہور پٹرول پمپ بھی تھا۔پمپ اور پلازہ سینما کے درمیان ہماری کچھ دکانیں بھی تھیں جبکہ ہماراکچھ کاروبارچھاؤنی میں بھی تھا۔غلہ منڈی، ڈاکٹر دیال کلینک،محلہ گھنیش پوری،محلہ شوقی داس،سکھ دیو، شیوشاہ،رام جی،دیوان شاہ،بگائی محلہ،نواب صاحب کا گھر،بڑا بازار(موجودہ کلاں بازار)،رام بازار(موجودہ رحیم بازار)،جیسا رام بابلے کا کنواں،مشن سکول،بالو کا تھلہ وغیرہ مجھے سب دیکھنے ہیں۔انکل ٹھکرال ماضی کے اُن گلی کوچوں اور دروازوں کا ذکر کر رہے تھے جن کے ناموں پر وقت کی دھول مٹی جم چکی اور نمی نے جنہیں زنگ آلود ہ کر کے نہ صرف کھوکھلا کر دیا بلکہ ان کا نام و نشان تک مٹ چکا۔ماضی چپکے سے اپنے اوپر پڑی وقت کی گرد جھاڑ کر اُن کی آنکھوں میں آن بسا تھا اور وہ بڑی مہارت سے ریگ مال سے کھرچ کھرچ کر پرانے ناموں کی تختیوں کو چمکا چمکا کر اُن کے اصلی ناموں سے مجھے دکھا تے جارہے تھے اور میں کسی ٹائم مشین میں بیٹھا ان گلی کوچوں کی سیر کر رہا تھا۔

ایک لمبی تفصیل سنا کر انکل کچھ دیر کیلئے رُکے اور پھر مجھ سے پوچھنے لگے۔ کیا سب جگہیں ویسی کی ویسی ہیں؟۔ کچھ بدلاؤ تو نہیں آگیا اِن میں؟۔انکل میرا جواب سننے کیلئے بے تاب تھے۔میرے منہ سے اگلے ہی لمحے نکلا:جی انکل سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے،کچھ بھی تو نہیں بدلا۔پتہ نہیں میں نے انکل کا بھرم رکھاتھا،اپنے شہر کا یا پھر اپنی ذات کا؟۔

میں ر اجھستان میں چراغاں کرنے والے اس محنتی انسان کا اس عمر میں دل نہیں دکھاناچاہتا تھا، کیونکہ جو چاہ، محبت اور عقیدت اس کے دل میں اپنی جنم بھومی کے تئیں میں نے دیکھی،عمر کے اس حصے میں زندگی کے آخری اسٹیشن پر پڑاؤ ڈالنے والے تھکے ہارے مسافر کو سچ بتا کر میں اور ظلم نہیں کمانا چاہتا تھا۔

واقعی جو لوگ تقسیم کے وقت ہجرت کرکے اپنے پیچھے آبا ؤ اجداد اور ماضی کی تلخ و شیریں یادیں چھوڑ گئے،ان کی اپنے آبائی وطن سے عقیدت کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں،کیونکہ بعض اوقات لفظ گونگے،بے ربط اور بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔دونوں اطراف کے لاکھوں لوگ تقسیم کے دوران ہجرت کا حصہ بنے۔دیوی دیال اورانکل ٹُھکرال جیسے نہ جانے اور کتنے لوگ ہوں گے جو ابھی بقید حیات ہیں بلکہ زندگی کے آخری پڑاؤ میں ہیں، اپنے وطن، بستی اور شہر کی ایک ایک چیزکودیکھنے کی غیر معمولی چاہت، تمنا کا اظہار و بیان،ان کی زبانی درد بھرے جذبات سننا مشکل ہو جاتا ہے۔پتہ نہیں مجھے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں اطراف کی ایک ارب سے ذائد آبادی کو پینسٹھ سال پہلے تاریخ نے یرغمال بنالیا تھا اوراُن ہجرت کے مارے کروڑوں لوگوں کی بازیابی کے لئے ہم نے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا۔ دونوں اطراف کی حکومتیں ان بھولے بھالے معصوموں کو ویزا نہ دے کر اور اپنی ماتر بھومی کو دیکھنے کا موقعہ فراہم نہ کرکے اور کتنا ظلم کمائیں گی؟۔

اس بار میں انکل ٹھکرال کے گھر سے اپنی کھوئی توانائی بحال کرنے کی بجائے اداس ہو کر نکلا، یہاں تک کہ اپنے ساتھ تُلسی کا پودا لانا بھی بھول گیا۔ دورآ سمان کی وسعتوں پر آسٹریلین طوطوں کی ڈار محو پرواز تھی، ایک پرندہ شاید پیچھے رہ گیا تھا جوپھڑپھڑاتے پروں کے ساتھ اڑان بھرتا اپنے ساتھیوں کی سمت جاتے ہوئے تیز تیز آوازیں نکال رہا تھا۔ ڈار سے بچھڑے طوطے کی آواز میں بھی کُرلاہٹ تھی، لکشمن ٹُھکرال کی آنکھوں میں چھپے خواب کی طرح ”مجھے میری ماتر بُھومی دکھا دو“۔

٭٭٭

عباس سیال سڈنی،آسٹریلیا

انجنیئر لکشمن ٹُھکرا ل سے انٹرویو …..

آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے مقبول و معروف قصبے”پا راماٹا“ میں گزشتہ پندرہ بیس سالوں سے مقیم بزرگ ڈیرے وال شری لکشمن ٹُھکرال جو اپنی عمرِ عزیز کے86برس پورے کر چکے، مگر آج بھی پہلے دن کی طرح چاق و چوبند، تندرست وتوانا، خوش و خرم اور وجیہہ قامت ہیں۔ظالم وقت کے گزرتے لمحات نے نہ ان کے شانے جھکائے ہیں اور نہ ہی کمر میں کہیں خم ڈالا ہے۔لکشمن جی مزاجاً خاموش طبع ہیں،مگر جب باتیں کرنے پر آتے ہیں تو یادوں کے دریابہا دیتے ہیں۔

کوہ ہمالیہ کے دامن سے کسی مشکی سانپ کی طرح شُوکتا،غراتا، زگ زیگ انداز میں چیر پھاڑ کرتا سندھ دریا جب ڈیرہ اسماعیل خان میں داخل ہوتا ہے تو اس کا پاٹ انتہائی چوڑا ہو جاتا ہے،شاید اسی مقام پر کھڑے ہو کر مہا پرشوں نے رگ ویدمیں لکھا تھا:”ہمیں سندھو کا دوسرا کنارا دکھائی نہیں دیتا،یہ ایک سمند رہے“۔

شری لکشمن ٹُھکرال سندھ دریاکے عین کنارے صدیوں سے آباد شہر ڈیرہ اسماعیل خان(ڈیرہ پُھلاں دا سہرا) کے پیدائشی ہیں۔سندھو کی رسیلی مٹی سے ان کا خمیر اٹھا اوریہیں پر انہوں نے گھٹنوں چلنا سیکھا۔سندھو کی خنک بھری مٹھاس اور ریشمی لہروں پر تیرتے ہوئے انہوں نے اپناقد کاٹھ خوب نکالا۔بچپن ڈیرہ کے گلی کوچوں میں گزرا،لڑکپن اورجوانی اُونچے برجوں کے شہر لاہور میں بسر ہوئی،زندگی کی انتھک جدوجہد اور تگ و دو کا باقی ماندہ حصہ بریلی،الہ آباداور دہلی میں گزرا جبکہ زندگی کے حصے میں آنے والے حسین پل سڈنی شہر کے پہلو میں آباد قصبے پا راماٹا میں اپنی پیاری سی لائف پارٹنر مسز پریم ٹُھکرا ل کے ساتھ گزار رہے ہیں۔زمانہ طالبعلمی کا بیشتر حصہ لاہور میں گزارنے کی و جہ سے اردو زبان پر ان کی گرفت کافی مضبوط ہے،جبکہ اپنی ماں بولی سرائیکی سمیت پنجابی اور ہندی میں بھی آپ با کمال ہیں۔ لکشمن نے ابھی بہت جینا ہے،اسی لیے وہ کہا کرتے ہیں گھبراؤ نہیں ابھی شام باقی ہے۔

سوال: لکشمن جی آپ اپنی جائے پیدائش کے متعلق ہمیں کچھ بتائیے؟۔

جواب:میری پیدائش سن 1929ء میں ڈیرہ اسماعیل خان کی گلی ”ٹُھکرالاں والی“ میں شری بھگوان داس کے ہاں ہوئی۔بڑے بازار (کلاں بازار) سے جب آپ چھوٹے بازار میں داخل ہوں تو گوردوارے کے سامنے سے ایک گلی نکلتی ہے جو آگے جا کر ٹھکرالاں اسٹریٹ سے جا ملتی ہے۔میرے حافظے میں بڑا بازار، ٹھٹھاراں والا بازار، رام بازار،بھاٹیہ بازار،توپانوالہ گیٹ،گلی شیو شاہ،بگائی اسٹریٹ اور ٹھکرال اسٹریٹ میں ہمارا شاندار مکان ابھی تک محفوظ ہے۔ہم جوائنٹ فیملی میں رہتے تھے اور گھر کی سربراہی دادا کو حاصل تھی۔ہمارے خاندان کے بیشتر افراد کاروبار سے منسلک تھے۔میرے دادا ڈیرہ اسماعیل خان کے بہت بڑے جنرل مرچنٹ تھے۔ ا ن کا امپورٹ کا بہت بڑا بزنس تھا۔اُن کا سارا سامان برطانیہ سے آتا تھا اور برٹش فوج کو سپلائی ہوتا تھا،اس کے علاوہ RAMC(Royal Army Medical Core)۔رائیل آرمی میڈیکل کور کی کینٹینوں کے ٹھیکے بھی ہمارے خاندان کے پا س تھے۔رزمک کی کینٹین کا ٹھیکہ میرے چچا کے پاس تھا۔ٹُھکرال خاندان ڈیرہ اسماعیل خان کا ایک باعزت اور خوشحال گھرانہ تصور کیا جاتا تھا، جبکہ میرے نانا آتما رام کالرا ڈیرہ اسماعیل خان کے بہت بڑے زمیندار تھے۔ان کا پھل فروٹ کا بھی بیوپار تھا۔

سوال:ڈیرہ اسماعیل خان میں بیتے چند پل اور بچپن کی کچھ حسین یادیں؟۔

جواب:ہم کل دس بہن بھائی تھے،اس کے علاوہ ہمارے محلے میں کئی ہم عمر بچے بھی تھے جن کے نام اب مجھے یاد نہیں رہے،مگر ہم سارے بچے ڈیرہ کے گلی کوچوں میں گلی ڈنڈا،لٹو،پتنگ بازی،دھوپ چھاؤں وغیرہ جیسے کھیل کھیلا کرتے تھے۔اس وقت شہر میں جا بجا کھجوروں کے درخت تھے،سرائیکی میں ان درختوں کو خجی کہا جاتا ہے۔گرمیوں میں ہم تین چار دوست مل کر کسی نہ کسی خجی پر چڑھ جایاکرتے اور وہاں سے میٹھے میٹھے ڈوکے اتار کر خوب کھایا کرتے تھے۔اسکے علاوہ ہفتے میں ایک آدھ بار باپ کے ساتھ ٹانگے پر سوار ہو کر دریا کی سیرکو جاتے،وہاں پر دھاونی لگائی جاتی تھی۔اُن دنوں بالو کے تھلے کا بہت شہرہ تھا۔ہم سب بچے وہاں خوب نہایا کرتے تھے۔ایک انگوچھے(ململ کے کپڑے)میں آم باندھ کر اسے کسی پتھر یا درخت کے تنے سے اٹکا کر دریا کے ٹھنڈے پانی میں چھوڑ دیا جاتا تھا،چند گھنٹوں بعد پانی سے نکال کر ٹھنڈے اور میٹھے آم کھائے جاتے تھے۔وہاں پرسوجی کا حلوہ اور پکوڑے بھی بنا کرکھائے جاتے تھے اورساتھ میں لائی گئی مٹھائی بھی کھائی جاتی تھی۔شام کا اندھیرا چھاتے ہی سب دریا سے واپس آجاتے تھے۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ دریا سے چند قدم پہلے ایک بہت بڑی جھلار(رہٹ) ہو اکرتی تھی۔اکثر بچے اس رہٹ کی حوضی میں بھی نہایا کرتے تھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی اپنی رونقیں اور اپنے شغل میلے تھے،جو آج بھی یاد آتے ہیں۔

سوال: شغل میلوں سے یاد آیا کہ اُس وقت کے میلے ٹھیلے اورتہوار وغیرہ جو اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں گے،اُن کے بارے میں بتائیے؟۔

جواب:ڈیرہ میں اُن دنوں محرم،عید،بقرعید،وِساکھی،میلہ کیول رام،میلہ دُسہرا،ہولی اور دیوالی وغیرہ بہت اہتمام سے منائے جاتے تھے۔ڈیرہ کے مقامی مسلمانوں اور ہندوؤں میں بہت زیادہ پیا ر اور محبت تھی۔میلہ دسہرا ستمبر اکتوبر میں لگتا تھا،جس میں راون کو جلایا جاتا تھا، اس میلے کا مقصد اچھائی کی جیت اور بدی کا خاتمہ ہوتا تھا۔گلی محلوں میں خوب ہولی کھیلی جاتی تھی اور ایک دوسرے پر رنگ پھینکے جاتے تھے۔ دیوالی کی راتوں میں دیے روشن کیے جاتے تھے،مگر کسی قسم کا نا خوشگوار واقعہ بہت کم رونما ہوتا تھا۔ڈیرہ اسماعیل خان میں سکھ مذہب کے ماننے والے بھی تھے مگر بہت ہی کم تعداد میں۔بڑے بازار میں ان کا ایک گردوارہ بھی تھا۔جبکہ ڈیرہ کی تحصیلوں (درابن کلاں،پہاڑپور،کلاچی) میں بھی ہندو کثرت سے آبا دتھے اور یہ سب انتہائی پر امن اور سکون سے زندگی بسر کر رہے تھے۔

سوال:ڈیرہ اسماعیل خان میں آنکھوں دیکھا کوئی اہم واقعہ؟۔

جواب: ہمارا شہر ڈیرہ عمومی طور پر ایک پر امن علاقہ تصور ہوتا تھا،مگر جیسے جیسے تقسیم ہند کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں تو وہاں پر بھی نفرتیں پھیلنے لگیں اور صدیوں سے ایک ساتھ اکھٹے رہتے چلے آرہے ہندو مسلمان ایک دوسرے کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہم سب بچے وی بی سکول میں ایک دن پڑھ رہے تھے کہ اچانک شہر میں فسادات پھوٹ پڑے اور چھٹی کا اعلان کر دیا گیا۔کچھ ہندوؤں کی دکانوں کو آگ لگا دی گئی تھی جس کے باعث آس پاس کی فضا دھوئیں سے آلودہ تھی۔گلی کوچوں میں ہُو کا عالم تھا۔ لوگ خوف کے مارے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے اور توپانوالہ دروازے سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے۔میں نے اپنے گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر دھوئیں کے اٹھتے کالے بادلوں کو دیکھا تھا اور ہم سب لوگ سہم گئے تھے،بس پھر نفرتوں کے بادل اتنے گہرے ہوئے کہ دھوپ چھپنے لگی۔ڈیرہ شہر کی خوشبو ؤں سے مہکتی گلیاں اور چہروں پر مسکان لئے ہندو اور مسلمان جو خوشیوں کے گیت گاتے تھے، تقسیم کے وقت ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے تھے۔فسادات نے سب کا ذہن ہلا ڈالا تھا۔پناہ کہیں نہ تھی،دھرتی ماں کا آنچل جل رہا تھا۔

سوال:سکول اور کالج کی یادیں جو آپ شیئر کرناچاہیں؟۔

جواب:وی بی(وِدیا بھراتری) سکول کے پہلو میں جو گلی ہے،ا سکے ساتھ ایک سکول واقع تھا،مجھے اب سکول کا نام یاد نہیں رہا،مگر میں نے وہاں چوتھی جماعت تک پڑھا،اس کے بعد وی بی سکول میں داخلہ لیا اور پرائمری تک تعلیم وہیں سے حاصل کی۔مشہور ڈیرے وال پریم ناتھ پپلانی،رمیش بگائی،رام لال اسیجا وغیرہ میرے کلا س فیلوز تھے جبکہ میرا خالو زاد کشن چند بگائی مجھ سے سینئر تھا۔وِی بی سکول ڈیرہ کی شرارتیں اور ا سکی سرخ رنگت عمارت ابھی تک آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔وی بی سکول کے استادوں میں ماسٹر چہتن داس نمایاں تھے،وہ بہت محنتی اور سخت ٹیچر تھے۔جب میں ساتویں جماعت میں تھا تو ہمارا خاندان ڈیرہ سے لاہور شفٹ ہو گیا۔

سوال:ڈیرہ اسماعیل خان سے اچانک لاہور شفٹ ہونے کی کوئی خاص وجہ؟۔

جواب: کچھ معاشی مجبوریاں ہمارے پتا جی کو پیش آگئی تھیں۔ آرمی کینٹین کے ٹھیکوں میں میرے پتا جی کو نقصان ہونے لگا تھا اور کاروبار تقریباً بیٹھ گیا تھا،تب ہمارے خالو داس رام بگائی یعنی سیٹھ بگائی کی وساطت سے پتا جی کو لاہور میں مغلپورہ کی اسٹیل ملز(ریلنگ اسٹیل ملز) میں نوکری ملی۔سیٹھ بگائی خود اس مل کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔یہ ایک بہت بڑی مل تھی،جہاں سے سریا،گارڈر اور ٹی آئرن بنا کرتے تھے۔ مغل پورہ لاہور میں ہی رام نگرکے پیچھے ایشور نگر کا علاقہ واقع ہے۔ ہمارے خاندان نے وہیں پر مستقل سکونت اختیار کی اور وہیں پر”سناتا دھرم انٹرمیڈیٹ سکول“ سے میری سکولنگ کا دوبارہ آغاز ہوا،لیکن لاہور میں قیام کے دوران ہم نے ڈیرہ سے اپنا ناطہ ٹوٹنے نہ دیا۔چھٹیوں پر ہم ڈیرہ چلے جاتے،کبھی کبھار وہاں سے کوئی ہمارے ہاں آ جاتا،اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا۔اسی دوران میں نے لاہو ر سے فرسٹ ڈویژ ن میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد مغلپورہ لاہور کے Magligan انجینئر نگ کالج جسے اب غالباًپنجاب انجنیئر نگ کالج کہا جاتا ہے وہاں سے میکینکل انجینئرنگ میں داخلہ لیا اور دل لگا کر پڑھنے لگا۔

سوال: محسنِ ڈیرہ داس رام بگائی اور سر گنگا رام کے متعلق بھی ہمیں کچھ بتائیے؟۔

جواب:اُس وقت بگائی خاندان ڈیرہ اسماعیل خان کا جانا پہچانا،نامی گرامی اور ایک معزز خاندان گردانا جاتا تھا۔بگائی پریوار آج بھی بہت پاپولر ہے۔اقوام متحدہ میں اعلیٰ عہدے پر فائز اتُل بگائی،امریکہ میں مقیم سندر بگائی سمیت سارے لوگ بہت بڑے ہیں۔جہاں تک سیٹھ بگائی (داس رام بگائی) کا تعلق ہے تو وہ بگائی خاندان کے سر کاتاج تھے۔وہ رشتے میں میرے خالو تھے۔ اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد انہوں نے دوسری شادی میری خالہ سے کی تھی،جس میں سے کشن چند(اتُل کے والد) اوررمیش بگائی وغیرہ پیدا ہوئے تھے۔ گوری کھلتی رنگت اور چھوٹی قد کے دبلے پتلے،خا موش طبع سیٹھ بگائی آنکھوں پر نظر کا چشمہ اورسر پر طرا پہنا کرتے تھے،وہ اکثر نانا جی سے ملنے آیا کرتے تھے۔

میں سمجھتا ہوں کہ لاہو ر کے گنگا رام اور ڈیرہ اسما عیل خان کے داس رام بگائی جیسے عظیم انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔اِن دونوں میں ایک قدر مشترک تھی کہ دونوں ایک ہی وقت میں پیدا ہوئے اور دونوں نے اپنے اپنے شہروں کو بہت کچھ دیا۔

گنگا رام اپنے عہد کے عظیم انجنیئر اور ایک سماجی شخصیت تھے۔وہ غالباً شیخو پورہ میں جبکہ داس رام بگائی ڈیرہ میں پید اہوئے،مگر دونوں گورنمنٹ کالج لاہور سے پڑھے تھے۔رینالہ خورد ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ، لاہور کا پوسٹ آفس، لاہور میوزیم، ایچی سن کالج، نیشنل کالج آف آرٹس، لیڈی میلکم گرلز ہائی سکول، گورنمنٹ کالج لاہور کا کیمسٹری ڈپارٹمنٹ، سر گنگا رام ہائی سکول، ہیلے کالج آف کامرس، معذروں کے لیے راوی روڈ پر آشیانہ، سر گنگا رام ہسپتال،مال روڈ پر گنگا رام ٹرسٹ جیسی خوبصورت عمارات اپنے ذاتی خرچے پر بنوائیں۔وہ بہت بڑے آرکٹیکٹ تھے، لاہور کا جدید ماڈل ٹاؤن ان کا ڈیزائن کردہ ہے۔پنجاب کا گورنر میلکم ہیلے کہتا تھا کہ:”گنگا رام ہیرو کی طرح کماتا ہے اور درویشوں کی طرح خرچ کرتا ہے“۔

دوسری طرف ہمارے سیٹھ داس رام جی تھے، جو ایک روشن خیال اور سماج کی نچلی ترین سطح پر زندگی بسر کرنے والوں کے ساتھ مل جل کرکام کرنا پسند کرتے تھے۔ وہ کھلے دل کے ایک وسیع النظر اور ہمدرد انسان تھے۔کوئی نہ کوئی سوالی،مصیبت ذدہ، حا جت مند اور ضرورت مند اُ ن کے ہاں دکھائی دیا کرتا تھا۔ذات پات اور دھرم سے بالا اس شخص نے بے سہارا لوگوں کی امداد کو اپنا معمول بنا رکھاتھا۔وہ صرف انسانیت کے ناطے لوگوں کی مد دکیا کرتے تھے۔میں نے کبھی بھی ان کے چہرے پر غصہ اور ملال نہیں دیکھااور انہوں نے کسی لالچ اور سیاسی وابستگی کے بغیر بے شمار ایسے کا م کیے کہ جنکا مقصد صرف اور صرف ڈیرہ شہر کی فلاح وبہبود اور ترقی تھا۔ انکا اصول تھا کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد جو اضافی رقم بچ جاتی اسے رفاعی کاموں پرخرچ کر ڈالتے اور اہل خانہ کے بیحد اصرار کے باجود کبھی بچت کا نہ سوچتے۔ انہوں نے سول ہسپتال ڈیرہ میں ٹی بی وارڈ کیلئے خطیر رقم عطیہ کی جبکہ بیس ہزار روپے کی لاگت سے پرانے کمپنی باغ (ٹاؤن ہال اور سول ہسپتال کے بیچ بنا باغ)کے نزدیک سر جارج کنگھم ٹی بی ہسپتال قائم کیا۔ ڈیرہ کے جنوب میں زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے ٹیوب ویل لگایااور ساتھ ہی وہاں پرایک کلینک بھی کھولا۔1941 ء؁ میں سیٹھ بگائی نے اپنے مسلمان مزارعوں کیلئے جندہ نامی گا ؤ ں میں ایک خیراتی ڈسپنسری اور مسلمان بچوں کیلئے ایک پرائمری سکول کی بنیاد رکھی۔1946 ء؁ میں اس ان داتا نے سول ہسپتال میں بچوں کیلئے چلڈرن وارڈ تعمیر کروایا۔ انکے دیگر ترقیاتی منصوبوں میں اپنے خرچے سے گورنمنٹ کالج میں طالبعلموں کیلئے سوئمنگ پول،ڈگری کالج کا جغرافیہ بلاک، آریہ سماج زنانہ سکول کیلئے کھیل کا میدان بنوانا تھا جبکہ میگا پراجیکٹ میں ڈیرہ شہر کے اندر ایک پرشکوہ گھنٹہ گھر کی تعمیر بھی انکا مستقبل کا خواب تھا، مگر ڈیرہ کی بد قسمتی کہ ان سب تعمیری کاموں کو شروع کرنے سے پہلے ہی انہیں اپنا شہر چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی۔وہ واقعی ایک گریٹ انسان تھے بلکہ یہی وہ پہلے شخص تھے کہ جنہوں نے ہمیں خواب دیکھنا اور پھر ان کی تعبیریں تلا ش کرنا سکھایاتھا۔

سوال: بگائی سیٹھ کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان کی اور چیدہ چیدہ ہندو شخصیات کون سی تھیں؟۔

جواب:ڈیرہ میں کئی نامور،نیک دل،سخی اور نامی گرامی لوگ پیدا ہوئے،جیسے سیاست میں نواب اللہ نواز خان سدوزئی،علم کے میدان میں چرچ مشن اسکول کے پادری مسٹر ایچ سی گائیر،پروفیسر چیتن آنند، لالہ مکند لال،لالہ بھوانی داس پپلانی، ٹھاکر دت دھون، منوہر لال بگائی اور بھنجوں رام گاندھی۔سول سرجن ڈاکٹر بھگوان داس دھمیجہ،ڈاکٹر بھگوان دِتہ، ڈاکٹر تلو چندنندوانی، ڈاکٹر برکت نارائن،ڈاکٹر پی ایل نرُولہ، ڈاکٹر جگن ناتھ پپلانی،ڈاکٹرپیارا لال،ڈاکٹر ملاپ چند،ڈاکٹرجھنڈا رام۔حکم چند کھتری،گردھاری لال کھتری،ھوتو سنگھ مونگیا،سردار جوت سنگھ مونگیا،کشن لال چاؤلہ،بھگوان دِتہ،ودھوا رام چند گلاٹی،جیون داس بھویجہ،جیلا رام سچدیووغیرہ وغیرہ۔برسوں گزر گئے، سوچ کے لاکھوں سورج ابھرے اور ڈوبے۔کئی صبحیں طلوع ہوئیں،کئی شامیں آئیں۔کئی رتیں بدلیں اور کئی موسم آتے جاتے رہے۔لیکن وہ سب جو اپنی جنم بھومی کی طرف واپس لوٹ آنے کیلئے وقتی سفر پر چلے تھے،پھر کبھی لوٹ کر واپس نہ جا سکے۔پرانی شناسائی کی کھڑکیاں ضرور کھلیں مگر کبھی کسی بھی دریچے سے ملن کی صدا نہ آئی اور باقی رہ جانے والے صرف جیتے ہی رہ گئے یادوں کے سہارے،امیدوں اور ہجر کی طویل مسافتوں کے ساتھ۔یہ سب لوگ ڈیرہ سے نکل کر بہت کم عرصہ جی پائے۔

سوال: لاہو رمیں گزری جوانی کے ایام کے بارے میں کچھ بتائیے؟۔

جواب:اُچے برج لہور دے۔کہا جاتا ہے کہ جنے لہو ر نیں تکیا ا وجمیا نئیں، جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔لاہور کی اپنی ایک تاریخی اہمیت ا ور حیثیت ہے۔لاہوری فطرتاً زندہ دل اور پیارے لوگ ہوتے ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب کا پورا خطہ چاہے وہاں پنجابی رہیں،سرائیکی یا ہندکو، بہت ہی بختاور خطہ ہے،جبکہ لاہور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر پاک و ہند کا دل تھا۔لاہور کادہلی دروازہ، اکبری، موتی، موچی، شاہ عالمی، لوہاری، بھاٹی، ٹکسالی، مستی اور کشمیری دروازہ۔پرانی انار کلی بازار، لال قلعہ، رنجیت سنگھ کی سمادھی، مال روڈ، لارنس گارڈن،،گلاب دیوی ہسپتال،گنگا رام ہسپتال،کنگ ایڈوڈ کالج، پنجاب یونیورسٹی، انجینئر نگ یونیورسٹی اور مال روڈ۔لاہور لاہور ہے۔بھئی کیا کہنے لاہو رکے۔لاہوریوں نے بہت کچھ دیا،لاہور اور اس کے گلی کوچے مجھے اب بھی یاد آتے ہیں۔بٹوارے سے پہلے لاہور کے سکولوں،انجینئر نگ کالجوں اور پنجاب یونیورسٹی سے پڑھ کر نکلنے والوں میں کئی نامور ہوئے۔ہندوستان کے کئی ادیب،دانشور،سیاستدان اورقانون دان لاہور کے تعلیمی اداروں سے پڑھے تھے۔

لاہو رکی بیٹھکیں،چوپالیں،قہوہ خانے،میلے ٹھیلے،سماجی میل ملاپ، نظریات و خیالات کے تبادلے کی روایتی سرگرمیاں وغیرہ اندرون لاہور کا اپنا ایک وکھرا کلچر تھا۔اسی کلچر کے باعث پیار، محبت،برداشت اور رواداری عام تھی۔افسوس کہ ہم آگے نکل گیا اورلاہور پیچھے رہ گیا۔اب تو سنا ہے کہ لوگ اکھٹے اٹھنے بیٹھنے سے بھی گریزاں ہیں،مگرلاہور کے گلی کوچوں میں چہل پہل اور جھروکوں سے قہقہوں کی بلند ہوتی صدائیں آج بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ اس بدقسمت شہر نے تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کے زخم اکیلے اپنے سینے پر سہے مگر اُف تک نہ کی۔

سوال:پنجاب کی تقسیم کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟۔

جواب:پنجاب کی تقسیم کا فیصلہ اچانک ہو اتھا۔لاہور کا کسی کو پتہ نہیں تھا کہ یہ شہر کس کے پاس جا ئے گا۔مسلمان،ہندو اور سکھ صدیوں سے اپر اور جنوبی پنجاب کے دیہاتوں اورشہروں میں ایک ساتھ رہ رہے تھے۔پنجاب کے لوگوں پر اچانک انکشاف ہوا کہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہونے والی ہے۔جوجہاں جہاں اقلیت میں تھا وہ اکثریتی مذ ہب کے ماننے والوں سے غیر محفوظ ہو گیا۔ہم لوگ اپنے ہی وطن میں اپنے ہی گھر میں اجنبی بن گئے۔جہاں تک قتل عام کی بات ہے تو سب سے پہلے ہندوؤں اور سکھوں کا قتل عام کیا گیا۔مارچ کے پہلے ہفتے میں اٹک،جہلم اور پنڈ ی کے علاقوں سے یہ سلسلہ شروع ہو اجس میں ہزاروں کی تعداد میں ہندو اور سکھ قتل ہوئے،پھر یہیں سے فسادات کی لہر انڈ ین پنجاب میں داخل ہوئی اورجنونیت کی لال آندھی نے ہر دھرم کے ماننے والے کو اپنی گرفت میں لے لیا۔مگر دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ پنجاب،سندھ،سرحد اور بلوچستان میں بسنے والے پنجابی،سرائیکی،ہندکو،پشتون،سندھی اور بلوچی وغیرہ چاہے ہندو تھے،سکھ یا مسلمان، سب کے سب پر امن،خوشحال،لبرل اور تہذیب یافتہ لوگ تھے۔ان لوگوں کو ہندوستان اور پاکستان سے کچھ لینا دینا نہ تھا۔اصل مسئلہ یوپی،سی پی اور بہار میں تھا کہ جہاں مسلمان غریب، پسماندہ اور اقلیت میں تھے۔ بہار اور یو پی سے آنے والے مسلم نوجوانوں کے جتھوں کے جتھوں اور مسلم لیگ کے جذباتی نعروں نے سرائیکی،سندھی،بلوچی،پنجابی اور پشتون کو بھڑکایا اور پھر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لوٹ مار،قتل و غارت کی انتہاء کر دی گئی۔

سوال: تقسیم ہند کے وقت کی تلخ یادیں؟۔

جواب:تقسیم کی داستان برصغیر پاک وہند کے معصوم شہریوں اور عظیم شہروں کے خون سے لت پت ہے۔تقسیم کے وقت ہمارا گھرانہ لاہور میں تھا اورمیں اس وقت انجینئر نگ کالج کا اسٹوڈنٹ تھا۔اندرون شاہ عالمی، کرشن نگر، نسبت روڈ، قلعہ گوجر سنگھ، ماڈل ٹاؤ ن، سنت نگر، شام نگر، چوک سوتر منڈی، رام گلی،سوہا بازار اور پرانی انارکلی وغیرہ کے علاقے ہندوؤں کے گڑھ تھے۔ تقسیم کے وقت سب سے زیادہ فسادات کی نذر ہونے والا علاقہ شاہ عالمی دروازہ تھا۔شاہ عالمی کا سارا علاقہ ایک تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ ہندو اکثریتی اور تجارتی مرکز ہونے کی وجہ سے ا ندرون شہر کے اس حصے میں زیادہ لوٹ مار ہوئی، عمارات کو آگ لگا کر اینٹوں کا ڈھیر بنا دیا گیا۔پوراشہر فسادات کی لپیٹ میں تھا، شاہ عالمی جل رہا تھا۔دوسری طرف ڈیرہ اسماعیل خان شہر کو بھی آگ لگا دی گئی تھی،مگر لاہور کے شاہ عالمی کی آگ بہت ہی زیادہ بھیانک تھی۔میلوں تک دھواں ہی دھواں تھا اور ایسے معلوم ہو اتھا کہ جیسے سارا شہر جل رہا ہو۔بٹوارے سے پہلے ہی فرقہ واریت کے خنجر سے گلے کٹنے لگے تھے۔ہند و،سکھ اورمسلمان،جو بھی مر رہا تھا، صرف انسان کو مار رہا تھا۔تقسیم کے بعد ہم لوگ ہندوستان ہجرت نہیں کرنا چاہتے تھے اوریہ سوچ رہے تھے کہ جس طرح بڑی تعداد میں مسلمان ہندوستان میں رہتے رہیں گے، اسی طرح ہم ہندو بھی پاکستان میں بس جائیں گے۔جبکہ ہمارا رہن سہن،جائیداد،زمینیں،کاروبار،کھیت،مکانات سب کچھ ڈیرہ میں تھا۔جناح اور گاندھی بھی تبادلہ آبادی کے خلاف تھے۔ ہماری کوشش تھی کہ بدترین حالات میں بھی لاہور میں ہی قیام رکھا جائے،مگرحالات اور زمین تنگ ہو رہی تھی۔جو اچھے مسلمان تھے وہ یہی مشورہ دے رہے تھے کہ آپ لوگ ترک وطن کر جائیں۔ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ لاہور پاکستان میں شامل کر لیا جائے گا،لیکن جب ریڈیو پر یہ اعلان ہوا کہ لاہور پاکستان کے حصے میں آگیا ہے تو ہمارے قدم بھی ڈگمگا گئے اور ہم سب نامعلوم منزل کی طرف جانے کیلئے لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔لاہور کو چھوڑتے وقت آنکھیں نم تھیں،مگر ذہن میں یہی خیال تھا کہ جلد لوٹ آئیں گے۔اسی آس میں ہم لاہور سے بزریعہ ٹرین ہری دَوار (گنگا دریا کے کنارے آ باد شہر) پہنچے۔ہری دَوار میں جگہ جگہ خیمے ہی خیمے دکھائی دئیے۔وہاں سے بے سرو سامان چندوسی کے مہاجر کیمپ میں جا پہنچے۔چندوسی میں بھی کوئی مستقل ٹھکانہ نہ ملا تو اتر پردیش کے ڈسٹرکٹ بریلی آگئے۔ بریلی میں سر چھپانے کی جگہ میسر آئی۔رودکی انجینئرنگ کالج جو کہ ہرِدوار کے پا س تھا وہاں سے اپنی ادھوری تعلیم مکمل کی اور مکینکل انجینئرنگ میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔میرا بڑا بھائی اور ایک بہن ابھی بھی بریلی میں رہتی ہیں۔تعلیم مکمل کرنے کے فوراً بعد یو پی الیکٹرک سٹی بورڈ میں ملازمت کا آغاز کیا۔وہیں پر میرے افسر دھرم وِی مہتا میرے کام،دیانت اور لیاقت سے اتنا متاثر ہوئے کہ اپنے آنگن کا خوبصورت پھول میری جھولی میں ڈال دیا۔1953ء میں پریم مہتا سے میری شادی ہوئی،جو پنجابی فیملی سے ہیں،شادی کے بعد د وبیٹے پید اہوئے۔ کچھ عرصہ بعدیوپی سے راجھستان الیکٹرک سٹی بورڈ اورپھر وہاں سے دہلی میں ٹرانسفر ہوئی۔دہلی میں گزیٹیڈ آفیسرز کیلئے بنائی گئی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہمیں بھی ایک پلاٹ دیا گیا جس پر گھر تعمیر کیا۔میرے بڑے بیٹے نے سول انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی اور نوے کی دھائی میں آسٹریلیا آگیا، دوسرا بیٹاہندوستان میں مقیم ہے۔پندرہ سال پہلے ہم دونوں میاں بیوی بھی اپنے بڑے بیٹے کے پاس آگئے اور بس یہی ہماری رام کہانی ہے۔

سوال: سڈنی میں کیا معمولات ہیں؟۔

جواب:سڈنی میں کوئی خاص معمول نہیں۔بس دونوں میاں بیوی خوش رہتے ہیں اورپینٹنگز کرتے ہیں۔پریم کو باغبانی کا شوق ہے۔تُلسی،کڑی پتہ اور کئی دوسرے خوشنما پھولوں اور پھلدار پودوں سے اس نے گھر کو مہکایا ہوا ہے۔

سوال:آخر میں ڈیرہ اسماعیل خان کے باسیوں کے لیے کوئی پیغام؟

جواب: پاکستانی اورہندوستانی۔۔ ہندو، مسلم،سکھ اورعیسائی ہونا،یہ سب بعد میں آتا ہے۔ سب سے اہم چیز کہ ہم سب انسان ہیں۔ہم چاہے پاکستانی ہوں یا ہندوستانی۔۔ ہمارے داخلی، سماجی اور معاشی مسائل،ہمارا رہن سہن، ہماری سوچیں،ہماری زبانیں اور ترجیحات۔۔ یہاں تک کہ ہماراڈی این اے تک ایک ہے۔دنیا میں کسی بھی دو قوموں میں اتنی زیادہ مماثلت نہیں جنتی ہمارے درمیان ہے۔۔ ہم جہاں رہیں خوش رہیں۔شاد وآباد رہیں۔بغیر کسی لالچ، گناہ،ثواب اور دھرم کی قیدسے آزاد ہو کر صرف انسانیت سے پیار کریں۔اپنی دھرتی اور اپنی جنم بھومی سے وفا کریں۔ہر طرف پیار،محبت،امن بانٹیں اور اپنے شہر کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ ڈیرہ اسماعیل خان جیسی خوبصورت جگہ پورے ورلڈ میں اور کہیں نہیں۔

”عباس پتر! میڈ ے سوہنے تے مِٹھے سندھو تک میڈا سلام ضرور پُچاویں“۔

%d bloggers like this: