اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گنا خریداری کے کنڈے بند کروانا کسانوں کا سراسر معاشی قتل اور ظلم ہے، پاکستان کسان اتحاد

کسان مقامی شوگر ملوں کو گنے کی سپلائی روکنے کے لیے گنے کی کٹائی احتجاجا بند کر سکتے ہیں.

رحیم یار خان
کسان بچاؤ تحریک کے چیئرمین چودھری محمد یاسین، پاکستان کسان اتحاد کے ڈسٹرکٹ آرگنائزر جام ایم ڈی گانگا، ضلعی صدر ملک اللہ نوازمانک، صمد سلطان بندیشہ ، آل پاکستان کسان فاؤنڈیشن کے چیئرمین سید محمود الحق بخاری،ایگری فورم پاکستان کے سیف اللہ نیازی،

جام اعظم انیس، پروگریسو گروؤرز ایسوسی ایشن کے چودھری جمیل ناصر، راؤ غلام فرید ،کسان اتحاد کے عبدالصمد چودھری،زاہد شریف مہار وغیرہ نے ایک ہنگامی میٹنگ کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بااثر ترین شوگر ملز مالکان کے کہنے پر گنا خریداری کے کنڈے بند کروانا شوگر ملز کی اجارہ داری کو تحفظ اور مزید تقویت و طاقت فراہم کرنا ہے.

ضلعی انتظامیہ کا شوگر ملز کا معاون و مددگار بن کر میدان میں اترنا کسانوں کے ساتھ ایک اور زیادتی ہوگی. انتظامیہ کا یہ عمل کسانوں کی کھال اتار کر شوگر ملز مالکان کو پیش کرنے کے مترادف ہوگا .کنڈے بند کروا کر کسان کو زبردستی مجبور کیا جا رہا ہے کہ

وہ زیادہ ریٹ دینے والے کنڈوں پر اپنا گنا فروخت کرنے کی بجائے شوگر ملز کو سستے داموں فروخت کریں.آج قانونی خریداری اور غیر قانونی خریداری کا تصور پیش کرنے والے اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب کسان لٹ رہا ہوتا ہے.

انتظامیہ قانون اور شوگر ایکٹ کو پڑھے 190روپے کم ازکم امدادی قیمت ہے. کسی کی جانب سے کسانوں سے زیادہ ریٹ پر گنے خریدنے پر قطعا کوئی پابندی نہیں ہے. حکمران پہلے ہی کسانوں کو گنے کے ریٹ کا حق 300روپے من نہ دے کر ظلم و زیادتی اور نا انصافی کیے ہوئے ہیں.

ضلع رحیم یار خان میں گنا خریداری کے کنڈوں کی بندش تحریک انصاف کے بااثر حکومتی اور جماعتی لوگوں کی فرمائش پر کی جا رہی ہے. ہم کسان اس استحصالی اور کسان کش فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ ایسا کوئی عمل نہ کرے جس میں پہلے ہی سے نقصان کا شکار کسانوں کا مزید نقصان ہو.

دریں اثناء اس موقع پر موجود کسان دوست جمیعت علماء اسلام کے رہنما علامہ عبدالرؤف نے کسان رہنماؤں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ محض شوگر ملز کو نوازنے کے لیے گنا خریداری کے کنڈے بند کروانا کسانوں کا سراسر معاشی قتل اور ظلم ہے. یہ کسانوں کو اپنا گنا کم ریٹس پر صرف شوگر ملز کو ہی فروخت کرنے پر مجبور کرنے کا حربہ اور زبردستی کی کوشش ہے.

کھربوں پتی سرمایہ داروں کے لیےانتظامیہ کو ایسا نہیں کرنا چاہئیے. اس بارے کسان جو بھی لائحہ عمل بنائیں ہم کسانوں کا ساتھ دیں گے.جام ایم ڈی گانگا نے مزید کہا کہ

اگر بلوچستان سے رحیم یار خان آنے والی دھان چاول اور سندھ سے آنے والی کپاس جائز اور قانونی ہے تو پھر رحیم یار خان سے سندھ جانے والا گنا کیونکر غیر قانونی ہے.شوگر ملز کی فرمائش پر سندھ کے لیے خریداری کرنے والے کنڈوں کے خلاف آپریشن اور کریک ڈاؤن درست نہ ہوگا.

کسان مقامی شوگر ملوں کو گنے کی سپلائی روکنے کے لیے گنے کی کٹائی احتجاجا بند کر سکتے ہیں.چودھری محمد یسین نے کہا کہ

ڈپٹی کمشنر شوگر ملز کا نمائندہ بن کر فیصلہ کرنے کی بجائے مظلوم کسانوں کا بھی خیال کریں. موجودہ حالات میں دفعہ 144کی کوئی ضرورت نہ ہے. یہ صرف ضلع رحیم یار خان کے کسانوں کو لوٹنے کا پروگرام ہے.

%d bloggers like this: