اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دِلّی دِل والوں کی(قسط 1)۔۔۔ غلام عباس سیال

بیوی کے کچن میں گھستے ہی میں باتھ روم کی طرف بھاگا۔میرے نہانے تک نہ صرف چائے تیار ہو چکی تھی بلکہ کچن سے پراٹھوں کی سوندھی مہک بھی اٹھنے لگی تھی۔

موبائل فون میں لگی اطلاعی گھنٹی نے جیسے ہی مجھے نیند سے جگایا، پہلو میں سوئی بیوی کے کان میں ہلکے سے سرگوشی کی ”اُٹھو، مجھے چائے تو بنا دو“۔ وہ بے دلی سے اٹھی اور چپل گھسیٹتے ہوئے کچن کی طرف چل دی۔

دراصل میرے دِلی جانے کی خبر سننے کے بعد اُس نے مجھے ہر پہلو سے قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ میں اس سفر سے تائب ہو جاؤں لیکن جب اس کی کوئی کوشش بارآور ثا بت نہ ہوسکی تو نتیجتاً اُس نے چپ کا روزہ رکھ لیا۔

بیوی کے کچن میں گھستے ہی میں باتھ روم کی طرف بھاگا۔میرے نہانے تک نہ صرف چائے تیار ہو چکی تھی بلکہ کچن سے پراٹھوں کی سوندھی مہک بھی اٹھنے لگی تھی۔ چائے کی پیالی ابھی لبوں پر تھی کہ ریاض شاہ صاحب بھی پہنچ گئے اور کرسی پر بیٹھ کر پراٹھوں کے ساتھ انصاف کرنے لگے۔ ناشتہ کرنے کے بعد ایئرپورٹ جانے کی تیاری شروع کر دی گئی۔

میرے خوابوں کا جیکرانڈہ:یہ20اکتوبر 2014ء کی صبح کاآغاز تھا۔نیا دن بھرپور وجاہت کے ساتھ سورج کی گود سے چھلانگ لگا کرزمین کے دامن پر بس چکا تھا۔زمین کے جنوبی کُرے کے بیابان کونے پر واقع براعظم آسٹریلیامیں بہار کی آمدآمد تھی اورآج موسم کا فی خوشگوار،اجلا، نتھرا سا تھا۔ دنوں کا دورانیہ بڑھتے ہی راتیں سمٹنے لگی تھیں۔

سڈنی شہر کے طول و عرض پر موسمِ گُل کا پہرہ تھااور سبزہ زاروں میں خوشبوئیں مہکتی پھرتی تھیں۔ گلی کی بائیں جانب لگے ایک جیکر انڈہ کے درخت پر نظر پڑی،جس کے سبز پتوں نے اُودی رنگت میں ڈھلنا شروع کر دیا تھا، جو اس تبدیلی کی نشانی تھی کہ بہار اپنے عروج پر ہے۔ جیکرا نڈہ Jacaranda درخت کے پتے اکتوبر کے اختتام تک سبز سے بینگنی، جامنی اوراُودی رنگ کے پتوں میں ڈھلنا شروع ہو جاتے ہیں، نومبر کے وسط تک جیکرانڈہ درخت کے نیچے رنگوں کا قالین سا بچھ جاتا ہے اور اس کی ٹہنیوں کو دیکھ کر یوں گمان ہوتا ہے جیسے کسی دوشیزہ نے واقعی جامنی رنگوں کی پازیب پہن لی ہو۔

سُکھ گھنیری چھاؤں والے جیکرانڈہ درخت کے پتے ہردیکھنے والی آنکھ کو مسحور کرتے ہیں اور یہی میرے خوابوں کا درخت ہے۔

شاہ جی گاڑی کا اسٹیرنگ تھامے زمینی حرکت سے رونما ہونے والی موسمی تبدیلیوں اور قدرتی رنگینیوں پر بھی برابر گفتگو جاری رکھے ہوئے تھے۔ایک سرخ سگنل پر گاڑی رکتے ہی ہماری نظر فٹ پاتھ کے ساتھ اُگے سبزے پر پڑی، سبزی مائل گھاس کی طرف نظر دوڑاتے ہی گفتگو میں بہار کی چاشنی بڑھ گئی تھی۔

آسٹریلیا کے رنگ ڈھنگ دیکھو،اکتوبر میں بہار چل رہی ہے،دسمبر آتے ہی گرمی شروع پھرمارچ میں پت جھڑ اور جون جولائی یخ بستہ ٹھنڈ۔ قدرت نے بھی زمین میں کیا گل کھلائے ہیں کہ اس کا شمالی کُرہ جون جولائی میں سورج کے سامنے آتے ہی ہندسندھ میں سورج غضب ڈھانے لگتاہے تب جنوبی کرے میں سردی کا راج ہوتاہے،پھرٹھیک چھ ماہ بعد جنوبی کُر ہ سو رج کے سامنے آجا تا ہے،نتیجتاًآسٹریلیا جیسے دُور اُفتادہ خطے میں سورج کی تپش اور حدت سے جنگلات، آگ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں جبکہ پاکستان کے لوگ گرم گرم انگیٹھیوں کے سامنے آگ تاپنے، چلغوزے اور مونگ پھلیاں کھانے بیٹھ جاتے ہیں۔زمین کے ایک کونے میں ایک ہی وقت میں ٹھٹھرتی سردی دوسرے کونے میں سخت گرمی،واقعی یہ قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

شاہ جی کی بات مکمل ہو نے سے قبل ٹریفک سگنل کھل گیا تھا اور اُن کی توجہ واپس ڈرائیونگ کی طرف مرکوز ہوگئی تھی،اسی اثناء میں میرا ذہن مجھے اپنے گھر کے قریب بنے خوبصورت اوبن بوٹینک گارڈن کی طرف کھینچ کر لے گیا جہاں مختلف قسم کے در خت، پھولدار پودے، فضاؤں کو کشادہ کرتے پرندے اور مقامی جانوروں کے درمیان تین چار ہندوستانی مور اپنی مادہ مورنیوں کے ساتھ آزادانہ گھومتے نظر آتے ہیں۔

ان موروں کو دیکھنے کی خواہش کسی مقناطیسی کشش کی طرح مجھے کھینچ کر بوٹینک گارڈن کے مخصوص سنگی پنچ پر لابٹھاتی ہے۔ میں اپنے اردگرد ٹہلتے موروں کو ناچتا دیکھ کر شاد ہو جاتا ہوں اور ان کا رقص میری دن بھر کی تھکن مٹا دیتا ہے۔مور اگرچہ آسٹریلیا کا مقامی پرندہ نہیں مگر آسٹریلین حکومت نے اپنے خطے کو مزید رنگین بنانے کی غرض سے ہندوستانی موروں کو بڑی تعداد میں لا کریہاں پالا ہوا ہے۔پاک و ہند کے صحرائی علاقے خصوصاً راجھستان، جیسلمیر،بیکانیرسمیت ہمارے سرائیکی صحرا چولستان وغیرہ میں نیلی گردن والے ان دلکش پرندوں کو بڑے شوق سے پالا جاتا ہے۔

نیلی اکڑی گردن والے اِن موروں کو آسٹریلین باغوں کے اندر خراماں خراماں پھرتا دیکھ کر مجھے یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے میرے ہی دیس کا یہ پرندہ میرے آنے کا سبب جانتا ہے شاید اسی لئے میرے سامنے ہر بار جُھمریں ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ کل جب مجھے بوٹینک گارڈن جانے کا اتفاق ہوا تو راجھستانی مور میرے سامنے اپنے پر پھیلا کر کھڑا ہو گیا تھا۔وہ مجھ سے زیادہ خوش تھا شاید وہ جانتا تھا کہ میں اس کے دیس جا رہوں۔

سڈنی ایئر پورٹ سے روانگی : دوران گفتگو پتہ بھی نہ چلا اور چالیس منٹ کے اندر ہم سڈنی کے کنگز اسمتھ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی روانگی کی عمارت کے سامنے پہنچ گئے ۔ میں گاڑی سے بمشکل اپنا بریف کیس باہر نکال پایا تھا کہ شاہ جی خالی ٹرالیوں کی قطار کی طرف لپکے اورایک ڈالر کا سکہ ڈال کر ٹرالی میری طرف کھینچ لائے ۔ سفری بیگ اور ہینڈ کیری کو ٹرالی میں ر کھنے کے بعد ہم دونوں ائیرپورٹ کے اندر داخل ہو گئے ۔

شاہ جی مجھے خدا حافظ کہنے کے بعد الوداعی گیٹ سے باہرنکل گئے ۔ اکتوبر کی اس صبح میں ا ُن سے بغلگیر ہوتے وقت اکیلے سفر کا سوچ کرافسردگی محسوس کر رہا تھا ۔ میں ٹرالی کھینچتا ہوابورڈنگ ڈیسک کی طرف بڑھنے لگا ۔ بورڈنگ کارڈ جاری ہونا شروع ہو گئے تھے اور ایل سی ڈی اسکرینوں پر دوبئی کی پرواز کا شیدول اُبھر رہا تھا ۔

مجھے ایمرٹس ائیر لائن کی صبح چھ بجے کی کنکٹنگ فلائٹ کے ذریعے دوبئی اور پھر وہاں سے دِلی روانہ ہونا تھا ۔

میرے پاس ایک چھوٹا بیگ اور ہینڈ کیری تھا ، بورڈنگ کارڈ ایشوہوتے ہی میں اپنے مطلوبہ گیٹ کی طرف بڑھنے لگا ۔ گیٹ کے لاءونج ایریا میں دوبئی کے مسافر محوِ ا نتظار تھے ۔ ایمرٹس کا زنانہ عملہ سروں پر سرخ رنگ کی ٹوپیاں اور جرسیاں پہنے مستعد ی کے ساتھ اردگرد گھوم پھر رہا تھا ۔

ائیر پورٹ لاونج میں کافی رش تھا ۔ کچھ ہنستے مسکراتے، کھلکھلاتے اور کچھ انتہائی سنجیدہ اورخاموش چہرے ، ہر قسم کے مسافر لاءونج میں بیٹھے تھے ۔ توند کے گولے پر پتلون کی بیلٹ سنبھالے ایک فربہہ آسٹریلین چہل قدمی کر رہا تھا ۔

اس کے سامنے والی کرسی پرمہنگی برانڈ کے کالے رنگ کا قیمتی سوٹ پہنے ،کلین شیو کے ساتھ ہونٹوں کے نیچے نقطہ نما داڑھی کا خط تراشے سب سے الگ تھلگ بیٹھا دوسرا آسٹریلین اپنے کالے رنگ کے سوٹ کیس کو سنبھالے بار بار اپنی موٹی کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی د یکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے سامنے بیٹھے ایک سانولے انڈین جوڑے کو بھی مسلسل گھور ے جارہا تھا ۔

اس سے کچھ ہی فاصلے پربیٹھی کوئی چینی لڑکی کسی سے فون پر’’چیں پاں ‘‘ میں مصروف تھی ۔ تازہ شیمپو کی خوشبوسے مہکتے سلکی بال اس کے چہرے کے اطراف کسی آبشار کے جھرنے کی طرح پھریریاں بھر رہے تھے ۔ جہاز کی روانگی کا اعلان ہوتے ہی ہلچل سی مچ گئی ۔

مسافروں کیلئے دو لائنیں ترتیب دی گئیں ، سب سے پہلے فیملیز کو بلوایا گیا ۔ بورڈنگ کارڈ پنچ کرنے کے بعد واکی ٹاکی سنبھالے عملے کی ایک خاتون جہاز کی طرف رہنمائی کر رہی تھیں ۔ میرے جہاز کے اندرپہنچتے اور اپنی مطلوبہ کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھتے ہی جلد آس پاس کی سیٹیں پر ہونے لگیں ۔

پیسفک اوشین سے انڈین اوشین کی طرف اڑان بھرنے کے لیے ایمرٹس ایئر لائن کی ایئر بس انجن آن کئے تیار کھڑی تھی ۔ کچھ ہی لمحوں بعد سیٹوں کے سامنے لگی ایل سی ڈی اسکرینوں کی مدد سے عربی زبان میں حفاظتی اقدامات پر مشتمل فلم دکھائی گئی جسے بعد میں انگریزی میں بھی ہو بہو دہرایا گیا ۔

حفاظتی فلم چلنے کے چند ہی منٹ بعدانجن کو طاقت دینے کی غرض سے اندر کی ساری لاءٹیں آف کر دی گئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جہاز کے پہیوں میں زندگی کی رمق دوڑنے لگی ۔ جہاز نے اپنے پہیے رن وے سے ہوا میں معلق کر دیئے تھے،ٹی وی کی ننھی اسکرینیں فریز ہو گئی تھیں ، مناسب بلندی پرپہنچتے ہی جہاز سیدھا ہوا اوراسکرین پرفضائی نقشہ سامنے آگیا ۔ ہمارا جہاز سڈنی ائیر پورٹ کو پیچھے چھوڑتا کیمبل ٹاءون سے گولبن قصبے کی طرف رخ کیے آسمان پر تیر رہا تھا ۔

رفتار کے ساتھ ساتھ بلندی میں بھی وقتاً فوقتاً اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا ۔ ہمارے جہاز کو آسٹریلیا کی ریاست نیو ساءوتھ ویلز کے اوپر سے گزر تے ہوئے کوئینز لینڈ اور پھر آسٹریلیا کی شمالی ریاست (ناردرن ٹیری ٹیریز ) کی فضاءوں سے نکل کر بحر ہند میں داخل ہونا تھا،جہاں سے ویتنامی، ملائشیا ئی جزیروں کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے خلیج بنگال اور پھر وہاں سے ہندوستان کے جنوبی کونے آندھرا پردیش کی ہواوں پر تیرتے ہوئے بحیرہ عرب میں د اخل ہو کر بمبئی، کراچی،گوادر، مسقط کے راستے دوبئی پہنچنا تھا ۔

کوئی ساڑھے چودہ گھنٹوں پر مشتمل یہ ایک طویل اور صبر آزما سفر کا نقطہ آغاز تھا ۔ جہاز پرسکون ہوتے ہی فضائی میزبان مسافروں میں مائیکرو فون بانٹنے لگیں ۔ مائیکرو فون ہاتھ میں آتے ہی ہر کوئی اپنے پسندیدہ پروگراموں میں گم ہو گیا ۔ فلموں کی ڈیٹا بیس میں ہندوستانی آرٹ فلموں کا شاندار خزانہ موجود تھامثلاًسلیم لنگڑے پر مت رو، خاموشی، البرٹ پینٹو کو غصہ کیوں آتا ہے;موہن جوشی حاضر ہو،آکروش،آندھی،موسم، پریچے ، منڈی،ایک ڈاکٹر کی موت،دیپ،بلیک فرائیڈے،سلام بمبے، گینگس آف واسع پور وغیرہ ۔ ان سب دیکھی بھالی فلمو ں کو ایک بار پھر سے دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: