مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ناگزیر وناگزیریت کے سودے ۔۔۔حیدر جاوید سید

سات ساڑھے سات سال کے بچے کو ہنسی آجاتی۔ کبھی کبھی میں ان سے کہہ دیتا۔ حاجی چچا ضروری تو نہیں ہمارا پہلوان ہی جیتے ہندوستانی پہلوان بھی جیت سکتا ہے۔

سفرحیات کے 61سال مکمل ہونے میں 27دن کی دوری پر ہوں۔ قلم مزدوری کرتے 47برس ہوگئے۔
جماعت نہم میں زیرتعلیم تھا جب کراچی کے ایک اخبار میں بچوں کا صفحہ ترتیب دیا کرتا تھا یہی ذریعہ آمدنی تھا۔
سکول کی فیس، ہوسٹل کے اخراجات اور دوسری ضروریات’ کیا سادہ زمانے تھے۔
روایت پسندی کا چلن تھا’ مروت’ علم دوستی’ ہمدردی’ سماجی اقدار کا دور دورہ تھا۔
تمباکو نوشی اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں سے چھپ کر ہوتی، مگر ان دنوں بھی ہم اخبارات میں پڑھا کرتے تھے، ملک کے حالات ٹھیک نہیں، اسلام اور پاکستان کے دشمن سازشوں میں مصروف ہیں۔
اخبار بینی کی عادت دوسری جماعت سے ہے اور یہ اخبار بینی سے زیادہ سودے بازی تھی۔
ملتان میں ہمارے آبائی گھر سے کچھ فاصلے پر حاجی یارمحمد مرحوم (یارو فلودے والا) کی دکان تھی۔ حاجی صاحب کی دکان پر صبح کے وقت ہی دودھ دہی اور لسی کے خریداروں کا اور شام میں فالودے کے خریداروں کا ہجوم رہتا۔ سردیوں میں دودھ دہی کیساتھ ملتانی سوہن حلوہ اور چائے کا اضافہ ہو جایا کرتا تھا۔
حاجی صاحب کی دکان پر اس وقت امروز اور کوہستان دو اخبار آیا کرتے تھے۔ چٹے ان پڑھ حاجی صاحب اخبارات اپنے گاہکوں کیلئے منگواتے، مجھ سے ان کا طے تھا کہ میں انہیں اخبارات کی سرخیاں پڑھ کر سناؤں۔
جس سرخی میں انہیں دلچسپی ہوتی اس کی پوری خبر سنانا پڑتی۔
گرمیوں میں ایک پیالہ دہی اور سردیوں میں سوہن حلوے کی دو ٹکیوں کیساتھ ایک کپ چائے اس محنت کا معاوضہ تھا۔
1965ء کی جنگ کے دنوں میں سرخیاں خبریں پڑھ کر انہیں سنایا کرتا تھا۔ کسی جنگی خبر پر حاجی صاحب وجد میں آکر کہا کرتے۔ "بی بی دے پتر آ ڈیکھ گھنے ہک ڈیہاڑ ایوب خان بھارت کو فتح کر گھنسی”
(میری والدہ صاحبہ کو جو ایک بڑی عالمہ وزاہدہ تھیں ملتانی لوگ بی بی جی کے نام سے مخاطب کرتے تھے، اسی نسبت سے ان کے بچوں کو بی بی جی کا بیٹایا بی بی جی کی بیٹی کہا جاتا تھا
ملتانیوں کی قدیم روایت تھی وہ سادات گھرانوں کے مرد وزن کو ان کے ناموں کی بجائے نسبت سے بلاتے تھے )
"حاجی صاحب کہا کرتے’ بی بی جی کے بیٹے دیکھ لینا ایک دن ایوب خان ہندوستان کو فتح کرلے گا”
سات ساڑھے سات سال کے بچے کو ہنسی آجاتی۔ کبھی کبھی میں ان سے کہہ دیتا۔ حاجی چچا ضروری تو نہیں ہمارا پہلوان ہی جیتے ہندوستانی پہلوان بھی جیت سکتا ہے۔

وہ پہلے تو ناراض ہوتے پھر کہتے
” اللہ اور اس کا رسولۖ ہی سمجھ سکتے ہیں یہ ہماری بی بی جی کا بیٹا ایسی باتیں کیوں کرتا ہے۔”
مجھے یاد ہے ان دنوں کے اخبارات میں ایوب خان کو ایک ایسے سپہ سالار کے طور پر پیش کیاجاتا تھا جو پیدا ہی کفار کے کشتوں کے پشتے لگانے کیلئے ہوا ہے۔
اپنے اِرد گرد کے بڑوں سے ہم سنتے تھے جنرل ایوب جیسا کوئی پیدا نہیں ہوگا۔
کبھی کبھی یہ خیال ذہن پر دستک دیتا کہ اللہ میاں نے مزید بہادر جرنیل بنانے والی فیکٹری بند کردی ہے، پھر سر کو جھٹک دیتے۔
جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کے برسوں میں ہم کراچی میں نصرت اسلام ہائی سکول کے طالب علم تھے۔
گھر پر جنگ اخبار آتا تھا جبکہ سکول کی لائبریری میں روزنامہ ”حریت” پیریڈوں کے درمیانی وقفہ
( اس وقت ہم اسے آدھی چھٹی کہا کرتے تھے) میں سکول لائبریری میں اخبار پڑھتے۔
تب اخبارات جناب جنرل یحییٰ خان کی توصیف سے بھرے ہوتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ پاکستان کے نجات دہندہ، عالم اسلام کے ہیرو اور وطن عزیز کیلئے ناگزیر ہیں۔
ایک شام میں نے اپنی آپا اماں سیدہ فیروزہ خاتون سے عرض کیا
آپا یہ ناگزیر کیا ہوتا ہے؟۔
محبت سے انہوں نے کہا پوری بات کہو۔
میں نے بتایا کہ سکول لائبریری میں موجود اخبار کی تین خبروں میں لکھا تھا جنرل یحییٰ خان پاکستان کیلئے ناگزیر ہیں۔
آپا نے مسکراتے ہوئے کہا دانا ( اہل دانش) کہتے ہیں ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔
آپ کے اس جواب نے ناگزیریت کی اوقات بتا دی، تب سے آج تک ہم نے کسی کو ناگزیر نہیں سمجھا کیونکہ وقت مقررہ پر سبھی ”رخصت” ہوجاتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا تو کونوں کھدروں سے ناگزیریت کا چورن بیچنے والے نکل آئے۔ کسی نے انہیں مرد مومن اور مرد حق بناکر پیش کیا، کسی نے سلطان محمود غزنوی’ ناگزیر اوصاف کے مالک جنرل ضیاء کے بوئے ہوئے کانٹے اب تک پلکوں سے چنے جا رہے ہیں۔
چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف بھی ناگزیر رہے دس برس تک۔
ان کے مداحوں میں اسلام پسند’ لبرل’ کمرشل لبرل اور ہلکے پھلکے جمہوریت پسند بھی شامل تھے۔
لیکن پھر ایک دن ان کے اقتدار کا سورج غروب ہوا’ آج کل وہ دبئی میں مقیم ہیں
کیونکہ پاکستان میں چند زندہ مقدمات ان کے تعاقب میں ہیں۔
ہماری ممدوح پیپلز پارٹی نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اپنے دور کے معروضی حالات میں ناگزیر قرار دیتے ہوئے تین سال کیلئے ایکسٹینشن دی تھی۔ جنرل کیانی نے اپنی ناگزیریت کے جلوے دکھائے اور خوب دکھائے۔ مدت ملازمت میں توسیع پیپلز پارٹی سے لی اور محبت کا زم زم نون لیگ کیلئے بہایا
فوجی آمروں کے علاوہ بھی بہت سارے ناگزیر کردار ہم نے چھ دہائیوں کے سفرحیات میں دیکھے، ان میں سے نناوے فیصد اب اپنی قبروں میں سو رہے ہیں۔ جواب ناگزیر سمجھے جا رہے ہیں(کسی بھی شعبہ میں) وہ بھی وقت اجل کو ٹال نہیں سکتے۔
زندگی اور موت کے درمیان والی سانسوں کی ڈور ہم خود نہیں بناتے البتہ اس ڈور سے زندگی کی پتنگ اُڑاتے ضرور ہیں، یہ پتنگ کب کٹ جائے کس کو معلوم۔
کل کی بات ہے دوسرے لوگوں کی طرح ہمارے صحافی بھائیوں کی بڑی تعداد افتخار محمد چودھری اور پھر ثاقب نثار نامی ججوں کو ناگزیر بنا کر پیش کرتی تھی۔ وہ کیا ہوئے؟
ثاقب نثار نجانے کہاں کس ڈیم کی چوکیداری میں مصروف ہیں
اور افتخار چودھری
”پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں”
61سالوں میں یہ تو سمجھ میں آگیا کہ ناگزیریت کچھ بھی نہیں وقت آگے بڑھتا ہے، ہر عہد کے اپنے کردار ہوتے ہیں، ان کرداروں کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوتا ہے۔
معاف کیجئے گا یہ فقیر راحموں پچھلے پون گھنٹے سے میرے شانوں کو ہلا کر کچھ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں پھر لکھنے میں مصروف دیکھ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
اب سگریٹ سلگانے لگا ہوں تو موقع دیکھ کر بولے’ شاہ جی! تم سمجھتے کیوں نہیں ‘ جنرل قمر جاوید باجوہ کی اس وقت حکومت’ ملک اور قوم کو سخت ضرورت ہے۔
مودی کی چالوں کو ان سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ دل چاہا کہ
اس سے کہوں پھر کشمیر والی چال کیوں نہ سمجھ لی۔
مگر کہا نہیں
کیوں، وجہ آپ بھی جانتے ہیں۔

%d bloggers like this: