مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اگر گڑ نہیں دے سکتے تو کم از کم گڑ جیسی بات تو کرو۔۔۔ نذیر لغاری

سرائیکی علاقوں کے دیہات میں کسی غرض مند کی ضرورت پوری نہ کرتے ہوئے اگر ضرورت پوری کرنے کی قدرت رکھنے والا اس پر طعنہ زنی کرے یا اس کی ضرورت کا مذاق اڑانے لگے تو اسے کہا جاتا ہے کہ ’’بھائی اگر گڑ نہیں دے سکتے تو کم از کم گڑ جیسی بات تو کرو‘‘۔
گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے عوام کو گڑ تو نہیں دیا مگر گُڑ جیسی بات ضرور کی۔ اسد عمر کی پریس کانفرنس عمران خان کی تقریروں یا گرم گفتار، آتش بہ دہن، شعلہ و شرر بار وزیروں اور مشیروں کی میڈیا ٹاکس کا تسلسل نہیں تھی بلکہ یہ بڑی حد تک معقول اور متوازن گفتگو تھی۔ اس گفتگو کا مقصد سیاسی مخالفین یا ناقدین کے پرخچے اُڑانا نہیں تھا بلکہ عوام، میڈیا اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو حقیقتِ حال سے آگاہ کرنا تھا۔

انہوں نے سی پیک کے حال اور مستقبل پر پڑی گرد کو صاف کرنے کی کوشش کی۔ وہ ایک سلجھے ہوئے معاملہ فہم اور زیرک سیاستدان اور اقتصادی ماہر کے طور پر سامنے آئے اور انہوں نے اندھا دھند لاٹھی چارج اور شیلنگ کرنے والے پولیس اہلکاروں کی طرح سامنے موجود صحافیوں اور الیکٹرانک میڈیا کے ناظرین پر گفتگو کی لاٹھیاں اور آنسو گیس کے شیل نہیں برسائے بلکہ انتہائی متانت اور بردباری کے ساتھ تمام معاشی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے سامعین اور ناظرین کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کی۔

سی پیک کے بارے میں تمام علم اور اس کی جزیئات سے واقف احسن اقبال نے بھی اپنی نیک نیتی کے باوجود کبھی اپنے ناظرین کو اس عمدگی سے مطمئن نہیں کیا جس عمدگی سے اسد عمر نے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک منظرنامہ تھا جو ایک ہفتہ پہلے کا تھا۔

اس پریس کانفرنس کے بعد منگل کے روز سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع یا اُن کے ازسرِنو تقرر کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو حکومت کا وہ سارا امیج تباہ ہوگیا جسے اسد عمر نے بڑی مہارت سے بنایا تھا۔ اس آئینی پٹیشن کی سماعت کے ایام میں تحریک انصاف نے منصفوں کے آبزرویشنز کی جھاڑ سنی اور باربار سمریاں بدلتے رہے۔ اس دوران جسٹس منیر، جسٹس انوارالحق، جسٹس مولوی مشتاق اور جسٹس ارشاد حسن خان اپنی آخری اور حالیہ آرام گاہوں اور جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس ثاقب نثار اپنے آرام دہ بستروں میں کروٹوں پر کروٹیں بدلتے رہے۔ وہ نظریۂ ضرورت کے تخلیق کار قرونِ وسطی کے ماہر قانون  ہنری ڈی بریسٹن کو بھول گئے، انہیں اب یاد آریا ہوگا کہ نظریۂ ضرورت کا اطلاق خلیل جبران کی تحریروںاور ماریو پُوزو کے ناولوں اور عالمی ادب کے عمیق مطالعہ  کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے۔ جب ریشتاغ (جرمن پارلیمنٹ )موجود ہو تو معاملہ خود نمٹانے کی کیا ضرورت ہے، نرم ونازک معاملات کو ریشتاغ یا ڈوما کے حوالے بھی تو کیا جاسکتا ہے۔ اس عظیم الشان فہم وفراست پر کورچشم تالیاں پیٹیں گے اور صاحبانِ جاہ وحشم ایسی دُھول اُڑائیں گے کہ آنکھیں بصارت بھول کر سماعت کا کام کرنے لگیں گی۔ حکومت مطمئن ہے کہ وہ سُرخرو رہی ، ناطقہ پریشان اور سر بہ گریباں ہے کہ کیا کہیے اور اپوزیشن کہیں ڈھول پیٹ رہی ہے اور کہیں پھیکے گنے چُوس رہی ہے۔

عزتِ مآب چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے والد سردار فیض محمد خان کھوسہ دریا دل وکیل تھے۔  چھ سات عشرے پہلےجن دنوں وہ ڈیرہ غازی خان میں وکالت کرتے تھے اُن دنوں عدلیہ اور انتظامیہ میں کوئی حدِفاصل نہ تھی۔ ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہی نہیں ڈسٹرکٹ سیشن جج بھی ہوا کرتے تھے۔ اگرچہ سردار فیض محمد خان کھوسہ ہر مقدمہ مکمل میرٹ پر لڑتے، وہ کریمنل جسٹس اور ضابطۂ دیوانی کے یکساں ماہر تھے مگر اپنی سخاوت اور دریا دلی میں یدِ طولی رکھنے کے اوصاف کے حامل ہونے کے سبب ہر ڈپٹی کمشنر کی اپنے ضلع میں پہلی بھرپور اور شاندار ضیافت وہی کرتے تھے۔ مگر اس کے باوجود وہ اپنے مقدمہ کیلئے اپنے اثرو رسوخ کا استعمال حرام سمجھتے تھے۔

اب دوتین چیزوں کے ایک ساتھ ہونے سے ہر ذی فہم کی عقل محوِتماشہ ہے۔ ایک طرف ایسی نااہل حکومت جو دوروز تک تواتر سے منصفوں کی جھاڑ سنتی رہی، ایک اور طرف ایسے سالار کی مدتِ ملازمت میں توسیع یا ازسرِ نو ملازمت کا معاملہ جس کے دورانِ ملازمت ردالفساد کی وجہ سے  لوگوں کو چین سے سونا نصیب ہوا مگر یہ معاملہ بھی ہے کہ بقول وزیر اعظم دنیا کی اتنی بڑی فوج میں قمر جاوید باجوہ جیسا کوئی دوسرا افسر نہیں ، دوسری طرف سخی اور دریا دل باپ کے بیٹے آصف سعید کھوسہ، جن کا تفصیلی فیصلہ ابھی آنے والا ہے۔ ہماری دلی دعا ہےکہ اللہ تعالی ہماری فوج کے ہر افسر کو جنرل قمر جاوید جیسی قابلیت، صلاحیت اور فہم و فراست عطا کرے تاکہ آئیندہ ایسے مسائل پیدا نہ ہوں۔

%d bloggers like this: