مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آپ جیسے ہی ملوٹ گاؤں میں داخل ہونگے آپ کو سب سے پہلے ایک تالاب اور اس پر جُھکا خوبصورت برگد کا درخت نظر آئے گا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس علاقے میں پہلے ہندو بڑی تعداد میں آباد تھے

 ڈاکٹرسید عظیم شاہ بخاری


وادئ سون کو اگر ایک مکمل سیاحتی مقام کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ یہاں ایک سیاح اور آوارہ گرد کے لیئے وہ سب کچھ ہے جو اسے چاہیئے۔
تاریخ ۔۔۔۔۔۔۔ خوبصورتی ۔۔۔۔۔۔۔ ثقافت ۔۔۔۔۔۔۔۔سکون ۔۔۔۔۔۔۔۔ باغات و ندیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جھیلیں…….. خاموشی۔
یہاں کئی مشہور و معروف اور کئی گمنام تاریخی و سیاحتی مقامات ہیں جن کے بارے میں آپ کو حتی الامکان بھرپور معلومات فراہم کرنے کی کوشش کروں گا۔

٭جھالر لیک ؛
وادی سون کے تمام مقامات میں سب سے دور اور ایک کونے میں واقع یہ جھیل تقریباً 148 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے جس کے تیزابی پانی میں کپڑے بغیر صابن ہی صاف دھوئے جا سکتے ہیں۔ دور ہونے کی وجہ سے یہاں بہت کم لوگ آتے ہیں اس لیئے یہاں آپ کو ماحول صاف اور پُرسکون ملے گا۔

جھالر، مختلف چھوٹے چھوٹے چشموں اور بارش سے سیراب ہونے والی وادئ سون کی سب سے چھوٹی جھیل ہے۔ مگر یہ اپنے حجم سے زیادہ مہمان پرندوں کی مہمان نوازی کرتی ہے۔ سردیوں میں یہاں دور دور سے پرندے آتے ہیں جو گرمیوں تک یہیں بسیرا کرتے ہیں۔ ورلڈ وائلڈ فاؤنڈیشن کی ایک مرپورٹ کے مطابق یہاں صرف رینگنے والے جانوروں کی 35 اقسام موجود تھیں جو آبادی بڑھنے اور جھیل میں کیمیاٸ مادوں کی افراط کے ساتھ ساتھ گھٹتی چلی گئیں اور اب گھٹ کر 12 ہو چکی ہیں ۔ یہاں اچھالی اور کھبیکی جھیل جیسی کوئی سہولت میسر نہیں ہے شاید حکومت نے بھی اسے سوتیلا سمجھ رکھا ہے ؟؟
نوشہرہ سے براستہ سُرکی آپ یہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔

٭قلعہ ملوٹ ؛
یوں تو یہ قلعہ وادئ سون کی حدود میں نہیں آتا لیکن چونکہ یہ اس کے بہت قریب واقع ہے سو بہت سے لوگ اسے سون کا ہی حصہ تصور کرتے ہیں۔ ملوٹ ضلع چکوال کی تحصیل کلرکہار کا ایک خوابصورت گاؤں ہے جس کا نام جنجوعہ راجپوتوں کے ایک مورث اعلیٰ کے نام ’’ملودیو” یا ”ملو‘‘ کی نسبت سے ملوٹ پڑا لیکن ”تاریخِ راجپوتاں” کے مصنف کے مطابق ملوٹ ”ملک کوٹ” کا مخفف ہے۔


ملوٹ کو جانے والی سڑک ایک پکی اور خوبصورت سڑک ہے جو قریب واقع سیمنٹ فیکٹری کی مرہونِ منت ہے۔

آپ جیسے ہی ملوٹ گاؤں میں داخل ہونگے آپ کو سب سے پہلے ایک تالاب اور اس پر جُھکا خوبصورت برگد کا درخت نظر آئے گا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس علاقے میں پہلے ہندو بڑی تعداد میں آباد تھے۔

ملوٹ کا قلعہ گاؤں کے ایک کنارے، ذرا اونچائی پر واقع ہے۔

تاریخ کہتی ہے کہ ہندو راجوں میں راجا دھروپت دیو کا بیٹا ”راجا اجمل دیو جنجوعہ” وہ پہلا شخص تھا جس نے اسلام قبول کیا اور اسلامی اقدار کے مطابق اپنا نام ”راجا مل خان” رکھا۔ راجہ مل کب پیدا ہوا اور کب فوت ہوا؟؟ اس کا عہد حکمرانی کتنا تھا؟ اس کے متعلق تاریخ میں کوئی بھی حتمی معلومات نہیں ملتیں۔ تاہم مشہور برطانوی مصنف ”سرلیپل گرفن” اپنی شہرہ آفاق کتاب’’ دی پنجاب چیفس ‘‘ میں راجہ مل کے متعلق لکھتے ہیں کہ;
’’راجہ مل جو راجپوتوں کی راٹھور نسل سے تھا 980 میں جودھ پور یا کنوج سے پنجاب منتقل ہوا۔ جب راجہ مل نے یہ سنا کہ اس کے خاندان نے ایک دفعہ جہلم کی شمالی پہاڑیوں میں پناہ لی تھی تو وہ بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ ان پہاڑیوں میں آ گیا اور یہاں آ کر ’’راج گڑھ‘‘ نامی گاؤں کی بنیاد رکھی ۔

راجا مل نے 12 ویں صدی میں کوہِ نمک کا پہاڑ کوہِ جودھ فتح کیا اور راجگڑھ کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ یہی راجگڑھ آج کا ملوٹ ہے۔

سکندرِ اعظم سے لے کر بابر تک، ہر بڑے جنگجو اور فاتح کو دہلی فتح کرنے کی لالچ میں کوہِ نمک و پوٹھوہار کے علاقے سے گزرنا پڑتا تھا اور ان کی راہ میں حائل پہلی دیوار یہی جنجوعہ راجے ہی تھے جو کمال کے جنگجو تھے۔ تاریخ دانوں کے مطابق، اسلام قبول کرنے کی وجہ سے شہاب الدین غوری کی فوج نے راجا مل کو کچھ نہ کہا۔ جوانی کے جوش میں راجا مل نے اپنے گکھڑ اتحادیوں کے ساتھ ملتان پر چڑھائی کی اور وہاں موجود شہاب الدین غوری کے گورنر کو ہرا کر ملتان فتح کر لیا۔


فتح کے نشے میں چُور راجا نے پھر لاہور کا رُخ کیا اور اسے فتح کر کے پنجاب اور غزنی کے درمیان اہم تجارتی و دفاعی راستہ بند کر دیا۔

راجا مل کی موت کے بعد اس کے بھائیوں نے دہلی کے حکمرانوں کے خلاف یہ مزاحمت جاری رکھی یہاں تک کہ رنجیت سنگھ نے جنجوعہ راجوں کے تخت کو پاش پاش کر دیا۔

انیسویں صدی کے اوائل میں ملوٹ کا قلعہ جنجوؑوں کی طاقت کا محوار تصور کیا جاتا تھا۔ دسویں صدی میں بنا یہ قلعہ خوبصورت لال پتھر سے بنایا گیا ہے جسے اس وقت کے معماروں نے کشمیری و یونانی فنِ تعمیر کو ملا کر کھڑا کیا ہے۔ قلعہ کے آثار تو اب باقی نہیں لیکن ملوٹ کا مندر آج بھی قائم ہے۔

چند سال قبل اس قلعے کا مرکزی اور بڑا دروازہ جو لکڑی کا تھا، دیکھا جا سکتا تھا۔ لیکن آج اس دروازے کا نام و نشان تک نہیں۔ قلعے کا احاطہ جنگل میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جہاں جنگلی درختوں کی بھرمار ہے۔ اس قلعے کی دلکشی کا محور قلعے کے احاطے میں کھڑا وہی مندر ہے جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے۔ ہندوشاہیہ کے اس مندر کا آج صرف ڈھانچا دیکھا جا سکتا ہے۔
مشہور مصنف سلمان رشید اپنی کتاب
The salt Range and Potohar Plateau
میں لکھتے ہیں کہ سرخ پتھر سے بنا یہ مندر اور اس کا دروازہ یونانی فن
تعمیر کی روایت کی ایک عمدہ مثال ہے جس کو مقامی فن تعمیر میں بھی پرویا گیا۔

سلمان رشید مزید لکھتے ہیں کہ کٹاس اور نندنہ کے منادر کی طرح ملوٹ کا مندر بھی اسی وقت تعمیر کیا گیا جب سالٹ رینج کاعلاقہ کشمیری راجاؤں کے زیر نگین تھا۔ سرالیگزینڈر کنگھم جوآثارقدیمہ کے سروے کے دوران1860میں ملوٹ آئے کے مطابق ملوٹ قلعہ حیرت انگیز حد تک خوبصور ت تھا۔ لیکن افسوس کہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں اس قلعے کی خوبصورتی نہ دیکھ سکیں گی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: