مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میری طرح ہزاروں لوگوں کو اپنا بچپن یاد آجائے گا۔۔۔مبشرعلی زیدی

خانیوال سے لاہور قریب ہے۔ کراچی دور ہے۔ میرے بچپن میں خانیوال کے کتب خانہ صدیقیہ میں نونہال کم نظر آتا تھا۔ تعلیم و تربیت اور جگنو ہر ماہ آتے تھے۔ مجھے تعلیم و تربیت پسند تھا۔

خانیوال سے لاہور قریب ہے۔ کراچی دور ہے۔ میرے بچپن میں خانیوال کے کتب خانہ صدیقیہ میں نونہال کم نظر آتا تھا۔ تعلیم و تربیت اور جگنو ہر ماہ آتے تھے۔ مجھے تعلیم و تربیت پسند تھا۔

ان دنوں کچہری روڈ پر کتابوں کی دو بڑی دکانیں تھیں۔ کتب خانہ اشرفیہ اور کتب خانہ صدیقیہ۔ غالباً دونوں کے مالکان بھائی تھے۔ کتب خانہ اشرفیہ بڑی دکان تھی اور وہاں اسکول کالج کی کتابیں کاپیاں اور اسٹیشنری ملتی تھی۔ کتب خانہ صدیقیہ چار قدم دور اور چھوٹی دکان تھی جس پر اخبار رسالے اور ناول ملتے تھے۔ میں نے اشتیاق احمد کا پہلا ناول وہیں سے خریدا۔ اس کا عنوان مصنوعی قتل تھا۔ اب سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ انسپکٹر جمشید سیریز کا چھٹا ناول تھا۔ میں نے اشتیاق احمد کو کافی جلدی دریافت کرلیا تھا۔
ماہنامہ تعلیم و تربیت اب بڑے سائز میں چھپتا ہے۔ میرے بچپن میں اس کا سائز چھوٹا تھا۔ چوڑائی زیادہ تھی۔ قیمت پہلے تین روپے تھی، بعد میں ساڑھے تین ہوگئی۔ مئی یا جون کے مہینے میں خاص نمبر کا شدت سے انتظار رہتا۔

ہمارے تایا بھی خانیوال میں رہتے تھے۔ ان کے بچے مجھ سے بڑے تھے۔ انھیں بھی رسالے پڑھنے کا شوق تھا۔ میرے کسی کزن نے بارہ پندرہ رسالے جمع کرکے انھیں موٹے سوئے سے سی دیا۔ کئی سال بعد وہ کتب مینار انھوں نے مجھے بخش دیا۔

مجھے یاد ہے کہ کسی رسالے کا سرورق نہیں تھا۔ اندر بھی کئی صفحات پھٹے ہوئے تھے۔ رسالے ترتیب وار نہیں تھے۔ بیشتر تعلیم و تربیت تھے لیکن نونہال، جگنو، ہونہار اور بچوں کی دنیا کے اکا دکا شمارے بھی شامل تھے۔

میں نے کئی سال کے دوران ان رسالوں کا ایک ایک لفظ پڑھا اور بار بار پڑھا۔ آج بھی بہت سی کہانیاں، بےشک دھندلی سہی، لیکن یاد ہیں۔

اشتیاق احمد کی ایک کہانی بو کاٹا اس میں تھی۔ ایک بچہ پتنگ اڑانے کا شوقین ہے اور شاید کسی تہوار پر چھت پر چڑھ کر پتنگ اڑاتا ہے۔ آخر میں چھت سے گر جاتا ہے۔ اس کہانی نے میرے دل پر بہت اثر کیا کیونکہ حیدرآباد میں میرا ایک کزن بالکل اسی طرح چھت سے گرکے جاں بحق ہوگیا تھا۔

اشتیاق احمد کی سلسلے وار کہانی ایک جن کے بارے میں تھی۔ یہ جن کام کرنے کا شوقین ہے اور اشتیاق احمد کو دھمکی دیتا ہے کہ اسے جلدی سے کام بتایا جائے ورنہ وہ انھیں مار دے گا۔ گھر بھر کے لوگ سوچ سوچ کر کام بتاتے ہیں لیکن جن پلک جھپکتے میں کردیتا ہے۔ سب ایسا کام سوچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جن کو مشکل پیش آئے اور انھیں کچھ مہلت ملے۔ میرا خیال ہے کہ یہ طویل کہانی بعد میں ناول کی شکل میں بھی چھپی۔

ایک کہانی میں ایک چوری کا احوال تھا۔ جانے کس نے لکھی تھی۔ میرا خیال ہے کہ ترجمہ تھی۔ کسی گھر کے سامنے ایک ٹرک آکر رکتا ہے اور مزدور بتاتے ہیں کہ فرنیچر کی دکان سے صوفہ آیا ہے۔ گھر والوں نے وہ بڑا سا صوفہ ڈرائنگ روم میں رکھوادیا۔ صوفے میں خلا تھا اور اس میں چور چھپے ہوئے تھے۔ رات کو انھوں نے قیمتی اشیا چرائیں اور صوفے میں گھس گئے۔ اگلی صبح ٹرک پھر آیا اور مزدوروں نے معذرت کی کہ صوفہ آپ کا نہیں۔ غلطی سے ڈلیور کردیا۔

کئی سال تک کہانیاں پڑھ پڑھ کر میں اکتا چکا تھا۔ کراچی آتے ہوئے سامان باندھا تو اسے کباڑ میں پھینک دیا۔ اب افسوس ہوتا ہے کہ ایسی غلطی کیوں کی۔ اگر سو کتابیں دینے سے بھی وہ ملنے کی امید ہو تو میں ہنسی خوشی سودا کرلوں۔

یہ سب احوال اس لیے لکھا کہ اٹلانٹس پبلی کیشنز کے فاروق احمد بھائی نے خوش خبری دی ہے کہ اشتیاق احمد کی تعلیم و تربیت میں چھپی ہوئی کہانیوں کی کتاب جلد شائع ہونے والی ہے۔ کیسی شاندار خبر ہے۔ میری طرح ہزاروں لوگوں کو اپنا بچپن یاد آجائے گا۔ مجھے اس کتاب کا بے چینی سے انتظار ہے۔

کوئی صورت ایسی ہونی چاہیے کہ بچوں کے پرانے رسالے ویب سائٹ ریختہ کی طرح اسکین کرکے انٹرنیٹ پر جاری کیے جائیں۔ ضروری نہیں کہ ایک ہی شخص کے پاس سارا مواد ہو۔ جس کے پاس جتنے رسالے ہوں، وہ شیئر کرتا جائے۔ اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔ نئے قارئین بھی بنیں گے۔ ادبی تاریخ بھی محفوظ ہوجائے گی۔

%d bloggers like this: