اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ اسماعیل خان کا لاوارث ورثہ چوگلیہ۔ ۔۔وجاہت علی عمرانی

مرکزی ہال کی مکمل چھت بھی دیار کی لکڑی سے بنی ہوئی ہے۔ آخری چھت پختہ بنی ہوئی ہے

زندہ قوم کی تہذیب و تمدن کا اندازہ اس کے شاندار ماضی سے ہوتا ہے۔ پرانا ورثہ و تہذیب اور عمارتیں جہاں ہماری ارتقائی جدوجہد سے آگاہ کرتی ہیں وہاں ہمارے لئے عبرت اور سبق کا سامان بھی فراہم کرتی ہیں۔ ہم جان سکتے ہیں کہ ہم کیا تھے، کیا ہیں اور کیا ہونا چاہیے تھا۔ کائناتی حقیقت اور سچ یہی ہے کہ دنیا کی مہذب قومیں اپنے اپنے ثقافتی اور تہذیبی ورثوں کو ہمیشہ سنبھال کر رکھتی ہیں اور ان کی حفاظت کرتی ہیں، ان پر فخر کرتی ہیں کیونکہ یہی تاریخی ورثہ انہیں باقی قوموں سے ممتاز کرتا ہے۔

عمرِ رَفتہ کی بُودوباش، تہذیبِ گُم گشتہ کی باز گشت، ماضی کے اوراق پلٹ کر تاریخ میں جھانکنا کسی بھی شخص کے لئے دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اپنے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے قدیم گلی کوچوں کو دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے کہ ہم نے قیام پاکستان کے بعد کیا چھوڑا، قدیمی سکولوں سے لے کر کالجوں کی عمارتوں تک، مندروں سے لے کر گاؤ شالوں تک، پارکوں سے لے کر قلعوں تک، شمشان گھاٹوں سے لے کر قبرستانوں تک، تھیٹر خانوں سے لے کر سینماؤں تک، تاریخٰی عمارتوں اور نشانیوں کو مسمار کردیا یا انہیں اکھاڑ کر کباڑ خانوں کی زینت بنا دیا۔ بزرگ کہتے تھے جو قوم اپنی تاریخ بُھلا دیتی ہے یا مسمار کر دیتی ہے اس قوم کا جغرافیہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

تاریخی اور قدیمی مقامات کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان کافی اہمیت کا حامل ہے۔ 5 ہزار سال پرانے رحمان ڈھیری کے کھنڈرات مدفون ہیں بلکہ اب تو ہندوستان میں اس دعوے کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ بھگوان شری رام چندر جی کی جنم بھومی ڈیرہ اسماعیل خان کا علاقہ رحمان ڈھیری ہے جس کا قدیمی نام رام ڈھیری تھا۔ اسی طرح بلوٹ شریف میں راجہ ہل کے 3 ہزار قبل مسیح کے کھنڈرات موجود ہیں جبکہ ماہڑہ کے قریب 4 سو سال پرانے مغلیہ دور کے شہیدوں کے مزارات بھی عدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم بے قدرے لوگ ہیں اپنے ورثے کی قدر تو کیا حفاظت تک بھی گوارہ نہیں کرتے، کیوں حفاظت کریں؟ کیوں قدر کریں؟ بقول سرائیکی کے نامور شاعر سعید اختر سیال صاحب کہ ”آکھ ڈتو نے سب پلید“ (کیوں کہ یہ کافروں اور ہندوؤں کی نشانیاں ہیں، توڑ دو، ختم کردو، مٹا دو)یہ ایک المیہ ہے کہ ہم اپنے تاریخی ورثے کو اہمیت نہیں دے رہے، قلب شہر میں تاریخی ورثے بکھرے ہوئے ہیں، دھرم شالہ باوا شوکی داس، شوالے، کالی ماتا کا تاریخی مندر اور درجنوں دوسری دم توڑتی تاریخی عمارتیں ہماری طرف دیکھ رہی ہیں اور اپنی نحیف آنکھوں سے ہماری بے رُخی پہ چند آنسو بہا کہ اپنی یتیمی اور لاوارثی کا خود ہی نوحہ پڑھتے ہوئے خود ہی ماتم کر رہی ہیں۔

چلو یہ تو ماضی بعید کے ورثے ہیں ہم تو ماضی قریب کے ورثوں سے بھی منہ موڑ چکے ہیں، یہ المیہ کہوں، سانحہ کہوں، بے حسی کہوں یا بعض محرکات کی بنا پر چشم پوشی کہوں کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ماتھے کا جھومر یعنی چوگلیہ کی مستند تاریخ بھی کسی کتب میں نہیں اور نہ ہی اس پر سنگِ افتتاح نصب ہے، افتتاح ہوا بھی یا نہیں، اگر ہوا تو کس نے کیا۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ کب بنا، کیوں بنا، کس نے بنایا، لمبائی چوڑائی کتنی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

یہ تو بھلا ہو معروف کالم نگار و لکھاری محترم گلزار احمد خان صاحب کا جنہوں نے چند دن پہلے روزنامہ اعتدال میں ایک کالم بعنوان چوگلیہ تاریخ کے آئینے میں لکھا۔ اخبار میں چھپنے کے بعد اور سوشل میڈیا پہ آنے کے بعد جوانوں، بزرگوں حتیٰ کہ خواتین میں بھی تحریک کا باعث بنا اور ہر ایک اپنے اپنے زاویے اور حوالوں سے چوگلیہ کی تاریخ اور تفصیل کھوجنے میں سرگرم عمل نظر آئے اور دلی خوشی ہوئی کہ اب بھی چند لوگ ہیں جو تاریخی ورثہ کے بارے جاننے اور کھوجنے کا زوق و شوق رکھتے ہیں اور ان کی ہی تحقیق، جستجو اور عمر رسیدہ بزرگوں سے ملاقاتوں، ایک دو کتابوں اور سینہ بہ سینہ روایتوں اور حوالوں سے چوگلیہ کے سنگِ بنیاد کے مختلف ادوار ملے یعنی 1928، 1930 اور 1940 مختلف روایتوں اور واقعات کو پڑھنے کے بعد مجھے ذاتی اور شعوری طور پر ڈیرہ اسماعیل خان کے معروف مؤرخ اور قلمکار جناب حفیظ اللہ گیلانی صاحب کی کتاب ”ڈیرہ اسماعیل خان تاریخ کے آئینے“ میں لکھی گئی تفصیل اور تاریخ زیادہ مستند محسوس ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ چوگلیہ کی عمارت 1940 میں تعمیر ہوئی اور اُس کے بنانے کے محرک ہندو مسلم فسادات تھے۔ سب سے بڑا معرکہ اور فساد 1931 میں برپا ہوا اور اس کے بعد سیکورٹی وجوہات کی بنا پر چوکی یا مورچہ بنانے کا خیال آیا۔

بعض روایتوں کے مطابق اس کا میٹریل لاہور اور لوہے کے گارڈر لندن سے منگوائے گئے۔ پانچ لوہار، دس ترکھان اور درجنوں مسلم مزدور اس کی تعمیر پر لگے رہے۔ بنیادی طور پر انگریز حکومت نے یہ مورچہ بنایا جہاں سے چاروں بازار اور شہر کو نظر میں رکھا جاسکتا تھا۔ فسادات کے وقت لوگوں کو روکنے کے لئے چار آہنی گیٹ نصب کیے گئے۔ مختلف ادوار میں چوگلیہ کی اس دور کے مطابق تزئین و آرائش ہوتی رہی، کبھی مکمل طور پر سرخ رنگ، کبھی چونا، کبھی اصلی حالت میں۔

لیکن پچھلے سال اس تاریخی عمارت چوگلیہ کو مکمل طور پر مختلف رنگوں اور بیلوں سے منقش سرامکس ٹائلوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ اس سے خوبصورتی میں تو اضافہ تو ہوا لیکن اس کی اصل شناخت چھُپ گئی اور نئی نسل کے لئے تاریخ کھوجنے کا راستہ بند ہو گیا اب وہ نہیں جان سکیں گے کہ اس میں کُل کتنے گارڈر استعمال ہوئے اور کس زاویے سے۔ اس میں استعمال ہونے والے اصل پتھروں کی لمائی چوڑائی کیا تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔

گلزار احمد خان صاحب کے اسی کالم سے مجھے بھی تحریک ملی اور سرزمین ڈیرہ پر پہلی دفعہ مجھ جیسے شخص نے بھی ایک تاریخی کام سرنجام دیا جو خود تاریخ سے نابلد ہے وہ تاریخی کام چوگلیہ کی مکمل پیمائش ہے جو کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی کسی بھی تاریخی کتاب میں درج نہیں ہے۔ یہ تاریخی کام جناب فیصل علی سیال (صوبائی صدر سٹیٹ یو تھ پارلیمنٹ) کی ذاتی کوششوں اور خصوصی اجازت نامہ لینے کے بعد ممکن ہوا کیونکہ آج کل چوگلیہ پر ایک حساس ادارے کا دفتر قائم ہے اور فیصل سیال صاحب اس پیمائش میں شانہ بشانہ میرے ساتھ رہے۔ چوگلیہ کی ابھی موجودہ پیمائش درج زیل ہے۔

چوگلیہ کی موجودہ اونچائی = 53 فٹ تقریبا (بغیر آخری چھت کی چاردیواری کے )

موجودہ سڑک تا مرکزی ہال اونچائی = 39 فٹ، مرکزی ہال چھت تا آخری چھت اونچائی = 14 فٹ

مشرق تا مغرب چوڑائی = 34 فٹ 10 انچ، شمال تا جنوب چوڑائی = 35 فٹ 2 انچ

شمال تا مشرقی کونہ بائی کونہ = 40 فٹ 5 انچ

کُل کھڑکیاں = 11 عدد

مشرقی طرف کھڑکیاں = 2 عدد، مغرب، شمال، جنوب کھڑکیاں = 3 عدد ہر طرف، کھڑکیوں کی چوڑائی = 3 فٹ

کُل سیڑھیاں = 3 عدد

پہلی سیڑھی بازار تا پہلی منزل= چوڑائی 2 فٹ، کُل قدم = 17 عدد، دوسری سیڑھی پہلی چھت تا مرکزی چھت = چوڑائی 3 فٹ، کُل قدم = 15 عدد، تیسری سیڑھی مرکزی چھت تا آخری چھت = چوڑائی 4 فٹ، کُل قدم = 12 عدد

نوٹ :پہلی سیڑھی پختہ اینٹوں کی باقی دو سیڑھیاں دیار کی لکڑیوں کی بمعہ لوہے کے فریم کے ساتھ۔

مرکزی ہال کی مکمل چھت بھی دیار کی لکڑی سے بنی ہوئی ہے۔ آخری چھت پختہ بنی ہوئی ہے۔

آخری چھت پر موجود چاردیواری = اونچائی 5 فٹ تقریبا

چوگلیہ کی عمارت 8 مرکزی ستونوں پر مشتمل ہے۔ ہر ستون کی چوڑائی تقریبا 4 فٹ ہے۔ ان 8 مرکزی ستونوں کے علاوہ چھوٹے سپورٹ مستطیل شکل کے ستون شمالی اور مغربی طرف زمین پہ ستونوں کے درمیان قائم دکانوں کے اوپر۔اس کے علاوہ آخری چھت پہ مرکزی ہال سے دھوئیں کے اخراج کے لئے ایک عدد چمنی اور ایک سائرن بھی موجود ہے جو ہر سال ماہ رمضان میں سحری اور افطاری کے لئے استعمال ہوتا ہے اور ماضی میں شہر کے اندر کرفیو وغیرہ کے لئے بھی اسی سائرن کو استعمال کیا گیا۔

%d bloggers like this: