مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کو علاج کے لئے باہر جانیکی اجازت دیدی

لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کے وکلا سےتحریری ضمانت طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ نواز شریف اور شہباز شریف واپس آنے سے متعلق لکھ کردیں۔

لاہور:لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے لئے 4ہفتوں کی اجازت دیدی ہے۔عدالت نے سیکیورٹی بانڈز کی شرط بھی ختم کردی ہے ۔ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم بھی دے دیا گیاہے ۔

سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ انہیں عدالتی پیشکش پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ تاہم سرکاری وکیل نے کہا کہ انہیں اس ڈرافٹ پر اعتراض ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل عدالتی ڈرافٹ اعلی حکام کو دکھانے کے لئے لیکر گئے  ۔ واپس آئے تو عدالت نے حکومت اعتراض مسترد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نوا زشریف کو علاج کےلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دینےاور ای سی ایل سے نام ہٹانے کا  کا حکم سنادیا ۔

سابق وزیراعلی پنجاب بھی نواز شریف کے ساتھ  جائیں گے۔ عدالتی فیصلے کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں شہباز شریف نے کہا کہ عدالت نے نوا زشریف کو غیر مشروط طور پر بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی ۔

انہوں نے کہا کہ پوری قوم اوروکلا کا شکریہ ادا کرتاہوں ۔ اللہ کے فضل وکرم سے اجازت مل گئی ہے ۔ قوم سی اپیل کرتا ہوں کہ وہ میاں نواز شریف کی صحتیابی کےلئے دعا کریں۔

وفاقی حکومت نےسابق وزیراعظم  نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کے لیے شورٹی بانڈ حکومت کے بجائے عدالت میں جمع کرانے کی پیشکش کردی جب کہ عدالت نے نوازشریف کی واپسی کے لیے شہبازشریف سے تحریری ضمانت طلب کرلی جو انہوں نے وکلا کے ذریعے عدالت میں جمع کرادی۔

وفاق نے شہباز شریف کے تحریری بیان پر اعتراض عائد کردیا ہے ،اس کے جواب میں وفاق نے ڈرافٹ دیا تو شہباز شریف کے وکیل اشتراوصاف کی طرف سے بھی اعتراض عائد کردیا گیا۔

عدالت نے دونوں ڈرافٹ کا جائزہ لینے کے لئے سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کردی  اورپھر ایک ڈرافٹ تیار کیااور تیار کیا گیا متن فریقین کو جائزے کے لئے ددے دیا

عدالت نے نوا زشریف کو علاج کے لئے 4ہفتوں کا وقت تجویز کیا ہے ۔ عدالت نے ڈرافٹ میں یہ بھی لکھا کہ اگر اس عرصے میں نواز شریف کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی تو وہ مزید مہلت مانگ سکتے ہیں۔

گزشتہ روز درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر لاہور ہائیکورٹ نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ شہباز شریف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست قابل سماعت ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے دورکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر سماعت اسی عدالت میں ہوگی۔

سابق وزیراعلی پنجاب کی درخواست پر فیصلہ سنانے کے بعد عدالت نے  نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے حکومتی شرائط  کے خلاف شہبازشریف کی درخواست کو آج سماعت کے لیے مقرر کیا۔

عدالت عالیہ میں جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ  نے درخواست پر سماعت کی، نیب پراسیکیوٹر، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور شہبازشریف کے وکیل درخواست پر دلائل دیے ۔

اس اہم سماعت کے موقع پر (ن) لیگ کے صدر شہباز شریف، پرویز رشید، امیر مقام، ملک احمد خان اور عطا تارڑ بھی عدالت میں موجود ہیں۔

سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اشتیاق احمد نے مؤقف اپنایا کہ نواز شریف کی صحت تشویشناک ہے، چاہتے ہیں کہ وہ بیرون ملک علاج کیلئے جائیں، اگر وفاقی حکومت کو بانڈ جمع کرانے کا مسئلہ ہے تو (ن) لیگ اسی رقم کے برابر بانڈ عدالت میں جمع کرادے، یہ عدالت کو مطمئن کر دیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مؤقف پر شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے اور حکم کی تعمیل کے لیے تیار ہیں جس کے بعد عدالت نے 7 سوال فریقین کے سامنے رکھے۔

کیا کسی سزا یافتہ شخص کا نام ای سی ایل سے نکالا جاسکتا ہے؟

کیا ای سی ایل سے نام نکالنے کیلئے یک طرفہ شرائط قائم کی جاسکتی ہیں؟

ضمانت پرہونے، سزا معطلی کے بعد عدالتی حکم کی موجودگی میں کیا قانونی صورتحال ہوگی؟

کیا حکومت،درخواست گزارانڈیمنٹی بانڈ کے حوالے سے اپنا مؤقف تبدیل کرسکتے ہیں؟

کیا کوئی چیز میمو رنڈم میں شامل یا نکالی جاسکتی ہے؟

کیا میمو رنڈم انسانی بنیادوں پر جاری کیا گیا ہے؟

کیا فریقین اپنے بانڈز میں کمی کرسکتے ہیں ؟

جسٹس باقر نجفی نے استفسار کیا کہ بانڈز کے حوالے سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ مؤکل عدالت میں موجود ہیں، مشورےکیلئے وقت دیا جائے۔

عدالت نے کہا کہ نوازشریف کےوکیل بتائیں کیا نوازشریف شورٹی کے طورپر کچھ دینا چاہتے ہیں یا نہیں، نواز شریف سے ہدایات لے کرعدالت کو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔

عدالت نے نوازشریف کی واپسی کیلئے تحریری ضمانت طلب کرلی۔

بعد ازاں عدالت نے شہباز شریف کے وکیل کی درخواست پر سماعت میں 20 منٹ کا وقفہ کردیا جس کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز کیا گیا اور مختصر سماعت ہوئی۔

لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کے وکلا سےتحریری ضمانت طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ نواز شریف اور شہباز شریف واپس آنے سے متعلق لکھ کردیں۔

عدالت کی جانب سے ضمانت طلب کیے جانے پر شہبازشریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ڈاکٹرزکی سفارش پر نواز شریف کو بیرون ملک بھجوایا جانا ہے، وہ یقین دہانی کروانے کو تیار ہیں جب بھی صحت مند ہوں گے واپس آئیں گے اور عدالتی کیسز کا سامنا کریں گے۔

سرکاری وکیل نے مؤقف اپنایا کہ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل سماعت کیلئے مقرر ہوئی ہے، ہم صرف ایک تحریری بیان مانگ رہے ہیں جو قانون اجازت دیتا ہے۔اس موقع پر عدالت نے شہبازشریف سے سوال کیا کہ آپ کا کیا کردارہوگا ان (نوازشریف ) کو واپس لانے کیلئے؟ آپ کس قسم کا بیان حلفی دیتے ہیں اس کا مسودہ دیں۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ جو بیان حلفی دینا چاہ رہے ہیں آپ دیکھ لیں، ہم دونوں فریقین کی رضا مندی سے معاملہ حل کروانا چاہتے ہیں، یہ بیان حلفی 3 بار کے وزیراعظم اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے ہو گا۔

عدالت نے امجد پرویز سے مکالمہ کیا کہ ہمیں ڈرافٹ بنا کردیں ہم ان الفاظ کو دیکھ لیں گے۔

عدالت نے شہبازشریف کے وکلا سے ضمانت کا تحریری مسودہ طلب کرنے کے بعد دوسری بار سماعت میں وقفہ کردیا۔

حلف نامے پر وفاقی وزیر فواد چودھری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے وکلاء نے جو حلف نامہ جمع تجویز کیا ہے اس میں صرف ایک یقین دھانی ہے کی میاں صاحب نے واپس نہیں آنا۔۔۔۔۔ وفاقی حکومت کے وکلاء کا موقف بالکل جائز اور قانونی طور پر درست ہے۔

گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ میں حکومت اور نیب کی جانب سے جوابات جمع کرائے گئے جس میں حکومت کا جواب 45 اور نیب کا جواب 4 صفحات پر مشتمل تھا۔

وفاقی حکومت اور قومی احتساب بیورو (نیب) نے اپنے تحریری جواب میں عدالتی دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تھا، جواب میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کو درخواست کی سماعت کا اختیار نہیں۔

حکومت نے نوازشریف کے بغیر بانڈ کے باہر جانے کی مخالفت کی

وفاقی حکومت نے تحریری جواب میں انڈیمنٹی بانڈ کے بغیر نوازشریف کانام ای سی ایل سے نکالنے کی مخالفت کی اور شہباز شریف کی درخواست مسترد کرنے اور انڈیمنٹی بانڈ کی شر ط لاگو رکھنے کی استدعاکی تھی۔

حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہےکہ نواز شریف کے خلاف مختلف عدالتوں میں کیسز زیر سماعت ہیں، ان کا نام نیب کے کہنے پر ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے۔

گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ میں شہبازشریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مثال موجود ہے، ماڈل ایان علی کا نام بھی ای سی ایل سے نکالا گیا۔

شہبازشریف کے وکیل نے ایان علی اور مشرف کیس کا حوالہ دیا

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کیسے سمجھتے ہیں کہ اس کیس میں مشرف کیس کی مثال دی جاسکتی ہے ،آپ کا درخواست گزار تو سزا یافتہ ہے۔

عدالت نے وفاقی حکومت کے نمائندے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ درخواست کیسے قابل سماعت نہیں ؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہر کیس کو اس کے حالات کے مطابق دیکھا جائے گا، احتساب عدالت کے جج نے سزا دی اور اس کیخلاف اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔

حکومت نے اپنے جواب میں استدعا کی ہےکہ نواز شریف سزا یافتہ ہیں اس لیے انہیں بغیر سیکیورٹی بانڈز کے اجازت نہیں دی جا سکتی لہٰذا سیکیورٹی بانڈ کی شرط کو لاگو رکھا جائے اور عدالت اس درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کرے۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ سنایا کہ درخواست قابل سماعت ہے اور اس کی مزید سماعت ہفتے کو پھر ہوگی۔

واضح رہے کہ وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے نواز شریف کو علاج کے غرض سے 4 ہفتوں کیلئے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا اعلان کیا تھا۔

وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق ’نواز شریف کی بیرون ملک روانگی اس بات سے مشروط ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف 7 یا ساڑھے 7 ارب روپے کے پیشگی ازالہ بانڈ جمع کرادیتے ہیں تو وہ باہر جاسکتے ہیں اور اس کا دورانیہ 4 ہفتے ہوگا جو قابل توسیع ہے‘۔

نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مشروط اجازت کے خلاف مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔

%d bloggers like this: