مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کارکنوں کی زبان بندی ۔۔۔طاہر محمود اعوان

ہمارے سمارٹ وزیر اعظم جب اپوزیشن میں تھے تو ان کی جمہوریت پسندی اور جمہوری سوچ کا ایک عالم گواہ تھا

مولانا صاحب نے مبینہ طور پر اپنے کارکنان کو میڈیا سے بات چیت سے روک دیا جبکہ ان کے باوردی فورس کے ڈنڈا بردار میڈیا سے بات کرنے والے کارکنوں کو دھکیلتے ہوئے ویڈیو میں دیکھے گئے ۔ آزادی اظہار رائے نہ صرف ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے بلکہ جمہوریت کا حسن بھی ہے ، وہی جمہوریت جس کے نام پر مولانا صاحب یہ دھرنا دئیے بیٹھے ہیں ۔ عجب المیہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کے اپنے لیے جمہوری اصول الگ اور دوسرے کے لیے الگ ہیں ۔
گویا ہمارے ہاں کی جمہوریت کو ہر جماعت اور ہر قائد اپنی اپنی عینک سے دیکھنے کا عادی ہے ۔

ہمارے سمارٹ وزیر اعظم جب اپوزیشن میں تھے تو ان کی جمہوریت پسندی اور جمہوری سوچ کا ایک عالم گواہ تھا ،لیکن حکومت میں آتے ہی ان کو جمہوریت کا نیا ذائقہ مل گیا جس کے مطابق ان کے لیے دھرنا، احتجاج حلال تھا اور اب ایسا کرنا حرام ہے،جس میڈیا کی آزادی کے وہ گن گاتے تھے آج اس پر نادیدہ سنسر شپ لگائے بیٹھے ہیں

یہی حال آج کل کی اپوزیشن کا ہے ،ن لیگ ،پیپلزپارٹی ،محمود اچکزئی ،اسفند یار ولی اور خود مولانا صاحب نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں کی کھل کر مخالفت کی اور انہیں غیر جمہوری،غیر آئینی اور ناجائز قرار دیا ،مولانا صاحب تو اس سے بھی کچھ آگے نکل گئے اور انہیں اس بات پر غصہ تھا کہ حکومت ان مظاہرین کو طاقت کے زور پر اسلام آباد سے باہر کیوں نہیں پھینک رہی ،انھوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کردیا تھا ،اس وقت ان قائدین کے مطابق کسی لشکر ،دھرنے کے بل بوتے پر منتخب حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ ناجائز ہے اور اس عمل کی ہر حالت میں حوصلہ شکنی کرنی چاہے ،آج جب کہ یہ سارے دھڑے خود اپوزیشن میں ہیں تو ان کے لئے جمہوری اصول بدل گئے ہیں ،ا ب دھرنا بھی ہورہا ہے ،استعفے بھی مانگے جار ہے ہیں اور اداروں کو کھلے عام دھمکیاں بھی دی جارہی ہے ،گویا جمہوریت نہ ہوئی گھر کی لونڈی ہوگئی جسے اپنی مرضی اور اپنے مفاد کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے ۔
بات ہو رہی تھی مولانا صاحب کے معصوم کارکنوں کی کہ جن کی زبان بندی کر دی گئی ، شاید اسی پر علامہ اقبال نے کہا تھا ؛-

گلہ تو دبا دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے گی صدا لاالہ الااللہ

کیا یہی وہ جمہوری اصول ہیں جن کا سبق امام سیاست پوری قوم کو پڑھا رہے ہیں؟ اگر بات پارٹی پالیسی کی ہو تو اس کے لئے بجا طورپر پارٹی کے ترجمان ہی کوئی رائے دے سکتے ہیں لیکن دھرنے کے عام شرکا سے ان کے جذبات ،خیالات اور مشکلات کے بارے میں جاننا کون سا جرم ہے ؟ اگر مولانا صاحب اپنے کارکنوں کو بھی اتنا سا جمہوری حق نہیں دے سکتے تو پھر پوری قوم کے لیے کون سے جمہوری حق مانگ رہے ہیں ؟ جے یو آئی کے اس عمل کے پیچھے دو وجوہات ہوسکتی ہیں ،اول یہ کہ انہیں خدشہ ہے کہ کہیں دور دراز سے آئے یہ معصوم کارکن کوئی ایسی بات نہ کردیں جس سے ان کی ہانڈی بیچ چوراہے نا پھوٹ جائے ، دوسرا یہ کہ جے یو آئی کے قائدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے کارکن اتنا شعور ہی نہیں رکھتے کہ انہیں میڈیا پر کیا کہنا ہے اور کیا نہیں ۔ گویا ان کی نظر میں عقل و شعور صرف ان کے پاس ہے اور عام کارکن اس دولت سے محروم ہیں ، اگر ایسا ہی ہے تو پھر مخالفین کا یہ کہنا بجا ہے کہ مولانا کے ساتھ چلنے والے لوگ اتنے سادہ ہیں کہ مولانا انہیں باآسانی اپنے دام میں پھانس کر مطلب نکال لیتے ہیں ۔

%d bloggers like this: