مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

طلبہ کا احتجاج

اسلام آباد کے طلبہ ’’حق رہائش ‘‘کے لئے سڑکوں پر نکل آئے

احتجاجی طلبہ کا کہنا تھا کہ ان کی جامعات انہیں ہاسٹل کی سہولت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں اور وہ پرائیوٹ ہاسٹلوں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی تین بڑی جامعات کے طلباء وطالبات نے وفاقی ترقیاتی ادارہ (سی ڈی اے)  کی جانب سے سیکٹر ای الیون کے رہائشی علاقوں سے بے دخل کیے جانے کے خلاف اسلام آباد میں نیشنل  پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا۔

اسلام آباد کی بحریہ یونیورسٹی، ائر یونیورسٹی اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور دیگر جامعات کے طلبہ وطالبات کا کہنا تھا کہ ان کے متعلقہ ادارے انہیں ہاسٹل کی سہولت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون  اور دیگر راہئشی علاقوں میں پرائیوٹ رہائش اختیار کر رکھی ہے۔

احتجاج کرنے والے طلبہ کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے نے ان سے رہائشی ہاسٹل خالی کرادیے ہیں جس سے ان کی رہائش کے حوالے سے مسائل پیدا ہوگئے ہیں اور پڑھائی شدید متاثر ہوگئی ہے۔

احتجاجی طلبہ کا کہنا تھا کہ ان کی جامعات انہیں ہاسٹل کی سہولت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں اور وہ پرائیوٹ ہاسٹلوں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔

طالب علموں  کا کہنا تھا کہ ان کی جامعات ہائر ایجوکیشن کمیشن سے سالانہ کروڑوں روپے کے فنڈز وصول کرتی ہیں لیکن وہ  طلبہ و طالبات کو ہاسٹل کی سہولت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

طلبہ نے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ ان تینوں جامعات کی انتظامیہ سے اس حوالے سے بازپرس کرے تاکہ ان کی رہائش کا مسٗلہ ہمیشہ کے حل ہوسکے۔ انہوں نے سی ڈی اے سی بھی مطالبہ کیا کہ وہ خالی کرائے گئے ہاسٹل دوبارہ کھولے۔

درایں اثناء اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد عمر رندھاوا  نے احتجاج کرنے والے طلبہ و طالبات کے ساتھ مذاکرات کیے۔ انہوں نے طلبہ وطالبات سے کہا کہ وہ ایک مذاکراتی کمیٹی بنائے تاکہ اس حوالے سے سی ڈی اے سے بات کی جاسکے۔

انہوں نے احتجاجی طلبہ و طالبات کو یقین دلایا کہ سی ڈی اے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سربراہ کی اسلام آباد واپسی پر اتوار تک معاملہ حل کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ و طالبات کا مسئلہ سی ڈی اے کے ساتھ ہے۔

اے سی عمر رندھاوا کی یقین دہانی پر طلبہ و طالبات نے احتجاج ختم کردیا، جس کے بعد بلاک کی گئی سڑک ٹریفک کے لیے کھول دی گئی۔

%d bloggers like this: