مئی 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بیگم نصرت بھٹوکی آٹھویں برسی پر بلاول بھٹو زرداری کا شاندار الفاظ میں خراج عقیدت

برسی کے موقعے پر جاری کردہ اپنے پیغام میں پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ بیگم نصرت بھٹو ایک باوقار، حوصلہ مند و دلیر خاتوں تھیں

کراچی : پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کو ان کی آٹھویں برسی کے موقعے پر شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش  کیاہے ۔

بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ مادرِ جمہوریت کی پاکستان کے لیئے خدمات و قربانیاں بے  مثال اور بے نظیر ہیں۔

برسی کے موقعے پر جاری کردہ اپنے پیغام میں پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ بیگم نصرت بھٹو ایک باوقار، حوصلہ مند و دلیر خاتوں تھیں، جنہوں نے اپنے عظیم خاوند کا ہر دکھ سکھ میں ساتھ دیا اور ان کی شہادت کے بعد فکرِبھٹو کو آگے بڑھایا، جو کہ پاکستانی عوام کے حقِ حاکمیت کی حفاظت اور پاکستان کے روشن مستقبل کی جانب پیشقدمی کا راستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مادرِ جمہوریت نے قائدِ عوام کی شہادت کے دکھ کو عوامی طاقت میں تبدیل کرنے کا عملی مظاہرہ  کرتے ہوئے پاکستان میں مسلط اپنے دور کی بدترین آمریت کے خلاف پرامن سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا، جس کے دوران انہوں نے خود بھی آمریتی فورسز کے ہاتھوں راستوں پر لاٹھیاں کھائیں، زخمی ہوئیں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ غنیمت ہوتا، اگر ان کی قسمت میں لکھے ظلم و مصائب وہاں تھم جاتے۔ پاکستان میں جمہوریت کی خاطر انہیں اپنے ہیروں جیسے بچوں کو بھی جیلوں میں بند ہوتے، جلاوطنی کے امتحانات کا سامنا کرتے اور پھر عوام دشمن قوتوں کے ہاتھوں شہید ہوتے بھی دیکھنا پڑا۔

پی پی پی چیئرمین نے زور دیا کہ مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کو آج خراج عقیدت پیش کرنے کا احسن طریقہ یہ ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نظریئے اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے فلسفے پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے ملک میں 1973ع کے متفقہ آئین پر مکمل عملدرآمد اور اس کے تحت پارلیمان کی بالادستی کی جدوجہد کو تیز اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے تن، من و دھن کو قربان کرنے کے لیئے ہمہ وقت تیار رہیں۔

چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم سب کا مطالبہ ہے کہ اب نئے انتخابات کرانے پڑیں گے اور انتخابات کی انتخابی اصلاحات کرنا پڑیں گی کیونکہ اس کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایسے ہی انتخابات الیکشن نہیں سلیکشن ہے جو ابھی ہوئے ہیں۔ ہم نے جمہوریت کو بحال کرنا ہے میڈیا کی آزادی کو بحال کرنا اور نیب جو آمریت کا ادارہ اور سیاسی مخالفین کے لئے استعمال ہورہا ہے جس کا ہمیں پتہ ہے کہ نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کے حوالے سے یہ موقف پہلے اپوزیشن کا موقف تھا اور اب حکومت کا اور دیگر اداروں کا موقف ہے اس لئے نیب کو بند کرنا پڑے گا۔ ملک کے جو مسائل ہیں وہ صرف عمران خان کی وجہ سے ہے اور اب عمران خان کو استعفیٰ دینا پڑے گا جس سے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے اسلام آباد میں نیب کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی صحت پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت میڈیکل بورڈز کی ہدایات پر عمل نہیں کر رہی ہے بلکہ صدر آصف علی زرداری کی صحت پر پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو بلیک میل کرنا چاہتی ہے مگر پیپلزپارٹی ان کے دباﺅ میں کبھی نہیں آئے گی۔ ہم اس سے پہلے بھی ایسے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں اور اب بھی کریں گے۔ کٹھ پتلی کا مقابلہ کریں گے ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ہم نے سانحہ کارساز کے شہیدوں کی یاد میں ایک جلسہ رکھا تھا ۔ کراچی کے عوام نے یہ پیغام بھیجا کہ ہم کٹھ پتلی کو برداشت نہیں کریں گے اور عمران خان کو گھر بھیجیں گے۔ کل 23 تاریخ کو تھرپارکر میں جلسہ کر رہا ہوں وہاں کے عوام بھی یہی پیغام دیں گے کہ کٹھ پتلی کو گھر بھیجنا ہے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ عوام اپنے جمہوری حق کا تحفظ چاہتے ہیں، وہ اپنے انسانی حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں سب سے بڑھ کر وہ اپنے معاشی حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔ یہ حقوق پاکستان پیپلزپارٹی عوام کو دیتی رہی ہے یہ حکومت عوام سے یہ حقوق چھین رہی ہے مہنگائی کی سونامی نے عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ ہماری اور عوام کی جدوجہد سے اور پیپلزپارٹی کے جیالوں کی جدوجہد سے یہ حکومت گھر جائے گی اور عوام کے حقوق بحال ہوں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ حکومت خود اسلام آباد کو بند کرنا چاہتی اور لاک ڈاﺅن کرنا چاہتی ہے اور یہ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ حکومت خود دارالحکومت کو بند کررہی ہے۔ جمہوری احتجاج تو ہر جماعت کا حق ہوتا ہے۔ یہ ہمارا آئین کہتا ہے اور یہ سپریم کورٹ کہتی ہے آپ نے خود اس کا بڑا فائدہ اٹھا یا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خان صاحب نے تو خود کہاتھا کہ جہاں مرضی احتجاج کریں، کنٹینر بھی بھیجوں گا کھانا بھی بھیجوں گا مگر اب ہر بات پر یو ٹرن لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ خان صاحب کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سیاست میں سیاسی کردار ادا کیا جاتا ہے۔انہیں سیاسی میدان میں سپیس دینا ہوگا ورنہ ہم یہ چھین کر لیں گے۔ مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اسمبلی پر تالا لگائیں انتخابات میں دھاندلی کروائیں ، آپ عدلیہ پر پریشر ڈالیں ، آپ نیب پر پریشر ڈالیں اور اس طرح آپ جمہوری راستے بند کر رہے ہیں۔ اس سے ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہم احتجاج کریں۔ کل رہبر کمیٹی کا تمام پارٹیوں کا جو اجلاس ہوا تھا اس میں حکومت کی طرف سے مذاکرات کی دعوت پر غور ہوا کہ اس میں حکومت کو مذاکرات کے ساتھ ساتھ یہ بھی کرنا پڑے گا کہ احتجاج کرنے والوں کوسہولتیں دینی چاہئیں جو ان کا جمہوری حق ہے۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پیپلزپارٹی کی پالیسی بالکل واضح ہے کہ شروع کی اے پی سی میں واضح طور پر اپنی سپورٹ آزادی مارچ کو دے گی۔ پیپلزپارٹی کے کارکن اور عہدیدار مولانا کے مارچ کا ہر جگہ استقبال کریں گے اور مدد کریں گے ۔ ہماری اپنی عوام رابطہ مہم جاری ہے۔ کراچی کے بعد تھرپارکر اور اس کے بعد کشمور میں جلسہ ہوگا اور ہم اپنا پریشر اس طرح بڑھائیں گے۔ ہماری کوشش ہے ہماری اس سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں گھر جانا پڑے گا۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ حکومت کی جو گھبراہٹ ہے، جو ڈر اور جو پریشانی ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جتنا یہ بزدل یہ وزیراعظم ہے اتنا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم کو حوصلہ پکڑنا چاہیے اور ہر ریلی سے، ہر پریس کانفرنس سے اور احتجاج سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ اسلام آباد صرف اس کا شہر نہیں یہ پورے ملک کا دارالخلافہ ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ہمیشہ ایک واضح موقف رہا اور ہم نے ہر آمر کا اور ہر کٹھ پتلی کا مقابلہ کیا ہے۔ ہم پارلیمان کے فورم پر اور احتجاج کے فورم پر ان کو بے نقاب کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

%d bloggers like this: