اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چاچا ربنواز اور اسکا بھائی

درد نگر سے:کیا چاچا ربنواز پولیس کی عزت کرے گا ؟؟؟

چاچاربنواز کا تعلق رحیم یار خان کے تھانہ اقبال آباد سےہے یہ چانڈیہ برادری سے تعلق رکھتا ہے ہے چاچاربنواز کی عمر اس وقت 60 سال سے اوپر ہے۔

 تحسین بخاری


یہ  جو اوپرآپ نے دو افراد کی تصویر دیکھی ہے، یہ ایک غریب مزدورچاچا ربنواز اور اس کے بھائی کی ہے ۔یہ اس وقت انتہائی پریشانی کے عالم میں تھانہ اقبال آباد کے باھر بیٹھے ہیں ۔آئیں زرا میں آپ کو اس تصویر کے دکھ بھرے پس منظر سے آگاہ کر دوں ۔

چاچاربنواز کا تعلق رحیم یار خان کے تھانہ اقبال آباد سےہے یہ چانڈیہ برادری سے تعلق رکھتا ہے ہے چاچاربنواز کی عمر اس وقت 60 سال سے اوپر ہے۔

یہ اس عمر میں بھی اپنے معصوم بچوں کا پیٹ پالنے کیلیے مزدوری کرتا ھے ۔یہ صبح کو گھر سے نکلتا ھےاور سارا دن بوڑھے ہاتھوں سے دو چار سو روپے کما کر لاتا ھے تو گھر میں چولھا جلتا ہے۔

سانول نامی شخص جس زمین میں پیٹرول پمپ بنا رہا ہے بقول چاچاربنواز یہ زمین اسکی ہے عدالت سے اس کا اسٹے آرڈر لے رکھا ہے ۔ سٹے آرڈر کے باوجود بھی جب مخالف فریق نے تعمیراتی کام نہ روکا تو چاچا ربنواز نے تھانہ اقبال آباد پولیس سے رجوع کیا۔

چاچا ربنواز کے بقول میں متعدد بار تھانے گیا ہر بار پولیس مجھ سے گاڑی کے تیل کے نام پر دو تین ہزار لیتی اور وہاں جا کر سانول سے چاے پی کر واپس آ جاتی کیونکہ سانول کے بااثر افراد سے تعلقات ہیں۔

بقول چاچاربنوازپولیس نے اس سے بار بار تھا نے آکر مخالف فریق کے خلاف شکایت کرنے سے منع کیا اور دھمکی دی کہ دوبارہ تھانے کا رخ مت کرنا ۔

ادھراسٹے کے باوجود تعمیراتی کام جاری تھا اور چاچاربنواز کو کیونکہ تھانے آنے سے بھی منع کیا گیا تھا تو اس نےپولیس ایمر جنسی نمبر 15 پرمختلف اوقات کال کی تو پولیس نے اس کے ملزم کو مدعی بناکر چاچا ربنواز اسکے بھائی فریدو اور اس کے طالب علم بیٹے سعید کے خلاف اسی پمپ کے سامان کی چوری کا خودساختہ جھوٹا مقدمہ نمبر 496/ 19 درج کر دیا گیا جسکی تعمیر کے خلاف اس نے سٹے لے رکھا تھا۔

قارئین اس مقدمے کو ایک ماہ ہو چکا ہے۔ اب چاچاربنواز کوروزانہ تھانے کے چکر لگوا لگوا کر خوب سبق سکھایا جا رہا ہے ۔اورمخالف فریق کو پمپ کی تعمیر کیلیے کھلا موقع دے دیا گیا ہے۔

چاچا ربنواز کو بہلانے کیلیے روانہ کٹھ رکھا جاتا ہے اور ہر بار شام کو اسے یہ کہ کر واپس بھیج دیا جاتا ہےکہ مدعی تو کٹھ میں آیا نہیں ھم کیا کریں ۔ چاچا ربنواز نے بتایا کہ میں ایک دن اے ایس پی صدر سلیم شاہ کے پاس درخواست دینے کے لیے گیا دروازے کے باہر پیش ہونے کیلیےکھڑا تھا کہ ایس ایچ او نے دیکھ لیا اور درخواست دینے سے منع کیا اور کہا کہ آؤ میں تمہارا مقدمہ خارج کرتا ہوں۔

جب تھانے گیا تو کہا کہ ہمارے اوپر بہت پریشر ہے ہم مقدمہ خارج نہیں کر سکتے تم مدعی کی جا کر منت کرو اور اس سے صلح کر لو ایسے ساری زندگی دھکے کھاتے رہو گے۔

کیا ہماری بے رحم پولیس نے سوچا کہ ایک مزدور جو ایک ماہ سے جھوٹا پرچہ خارج کروانے کیلیے ذلیل ہو رہا ہے اس کے گھر کا چولھا کیسے جلتا ہو گا؟

اس کے گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہوں گے جو دو چار سو روپے دیہاڑی کما کر لاتا تھا تو اس کے بچے رات کو کھانا کھا کر سوتے تھے کہیں اب وہ بھوکے تو نہیں سوتے؟

چاچاربنواز ڈسٹرکٹ پریس کلب رحیم یار خان میں بھی روزانہ آ کر کئی کئی گھنٹے بیٹھا رہتا ہے۔ کل جب میں نے دیکھا تو یہ دونوں بھائی پریس کلب کے سامنے والے گراؤنڈ میں انتہائی پریشان حالت میں بیٹھے ہمارے پولیس سسٹم کو کوس رہے تھے میں نے حال احوال پوچھا تو یہ روپڑے قسم اٹھا کے کہا کہ کسی ٹائم ہمارے گھر میں روٹی پکتی ہے کسی ٹائم نہیں پکتی ۔

اپنے حق کی خاطر لڑنے کیلیے ھمارے ساتھ یہ ظلم زیادتی کی جارہی ہے۔ میرا جرم یہ ہے کہ میں نے اپنی مقبوضہ زمین کا سٹے لیا ہوا ہے جس کا مجھے سبق سکھانے کے لئے ناصرف مجھ پر بلکہ میرے بھائی اور میرے بیٹے پر بھی جھوٹا مقدمہ درج کر دیا گیاہے ۔
قارئین محترم صحافی بولتا ہے اورظلم زیادتی پر آواز اٹھاتا ہے تو ہمارے یہی پولیس والے بھائی شکوہ کرتے ہیں کہ آپ ہمیشہ پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اب آپ بتائیں کیا یہ چاچاربنواز کے ساتھ ظلم نہیں ہے ؟

کیا یہ کھلی ناانصافی نہیں ہے؟ دو چار سو روپے دیہاڑی کمانے والا ایک بزرگ جو اس عمر میں صبح کو گھر سے نکلے اور شام کو کمزور ہاتھوں سےبچوں کے لیے رزق تلاش کر کے لائے اور پھر اس جرم میں اس کے ہاتھ باندھ دیے جائیں کہ وہ اپنے حق سے دستبردار کیوں نہیں ہوتا۔

اسی پاداش میں اس کے خلاف جھوٹا پرچہ درج کر دیا جائے اور وہ روزی سے بھی جاتا رہے اور صبح کو گھر سے نکل کرسارا سارا دن تھانے کے باہر انصاف کی امید لگائے بیٹھا رہے اور پھرشام کو مایوس واپس گھر چلا جاے تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہو گی ؟

قارئین یہی وہ زیاتیاں ہیں جو عوام کو پولیس سے دور کر رہی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے غریب اور کمزور کے ساتھ یہ سسٹم کب تک زیادتیاں کرتا رہے گا ۔

آپ مظفر گڑھ کا تازہ واقعہ دیکھ لیں جس میں سابق گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر کے کتے کو ایک غریب دودھ فروش کے موٹرسائیکل کی ٹکر لگ گئی کیونکہ دودھ فروش انسان تو تھا مگر غریب تھا دوسری جانب کتا تو تھا مگر وہ کسی طاقتور کا تھا اس لیے اس کے خلاف فوری مقدمہ درج کر دیا گیا حالانکہ ان امیر زادوں کی گاڑیاں غریبوں کو کچل ڈالتی ہیں اور کوئی پو چھتا نہیں ۔

آخر کب تک غریبوں کے ساتھ اس ملک میں زیادتیاں ہوتی رہیں گی کب ملے گا ان کو انصاف ۔میں آئی جی پنجاب عارف نواز صاحب آر پی او بہاولپورعمران محمود صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کب بدلے گا یہ سسٹم ۔اور کب اے گا وہ دور جس میں غریب کی بھی شنوائی ہو گی ۔غریب کو بھی تحفظ ملے گا ۔ اور کب وڈیرہ شاہی ختم ہو گئی۔ جو وڈیرہ جب چاہتا ہے کسی غریب پہ جھوٹے پرچے درج کروا دیتا ہے اور اس غریب کو اپنی بیگناہی ثابت کرنے کیلے ساری زندگی دھکے کھانے پڑتے ہیں ۔ائ جی صاحب آپ بتائیں کیا ان حالات میں چاچا ربنواز پولیس کی عزت کرے گا؟؟؟

%d bloggers like this: