رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہمارے بس میں ہوتا تو ہر بچہ سکول میں ہوتا۔ تعلیم ہی نے صنعتی دور کی بنیاد رکھی اور انقلاب در انقلاب برپا کیے۔ دُور جانے کی ضرورت نہیں‘ پڑوسی ملک کی علمی معیشت کے صرف ایک شعبے‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی پر نظر ڈالتے ہیں۔ گزشتہ سال اس سے اندرونی آمدنی 51 ارب ڈالر ا ور اس شعبے کی برآمدات 194 ارب ڈالر تھیں۔ ایک سال کی برآمدات ہمارے مجموعی بیرونی قرضوں کے لگ بھگ ہیں۔ اس کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر اربوں ڈالر کی وہاں سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ مشرقی ایشیا کی طرف ہی دیکھ لیتے ہیں کہ جس دوران ہم افغانستان کی جنگوں میں مصروف تھے‘ انہوں نے اپنی معیشتوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ یاد رہے جن کی تصویریں مفت آٹے کے تھیلوں پر پنجاب میں لگائی جا رہی ہیں‘ بڑھکیں مارتے تھے کہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنائیں گے‘ اور اسی دھن میں شیر کو انتخابی نشان بنایا تھا۔ ان کے بعد اور پہلے آنے جانے والوں کی فکری اور علمی استعداد ان سے مختلف نہیں تھی۔ کبھی کسی نے سوچا کہ معیشت‘ معاشرے اور امن و سلامتی کے مقاصد پورے کرنے کے لیے پہلا قدم سب کے لیے یکساں تعلیمی مواقع ہیں۔ ترقی اور خوشحالی کی ابتدا منظم‘ مربوط اور جدید سائنسی تعلیمی نظام سے ہوتی ہے۔ آج ہم ان اقوام میں اول نمبر پر ہیں جہاں سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پانچ سے سولہ برس کے دوکروڑ اسی لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ اس بارے میں حکمران طبقات چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ انہیں دیگر کاموں سے فرصت نہیں کہ اس قومی المیے کی طرف توجہ دے سکیں۔ کبھی کبھار تعلیمی ادارے یا تعلیم سے متعلق تقریب میں جانے کا اتفاق ہو تو بیان داغنے میں دیر نہیں کرتے۔ گزشتہ سال محترم رانا تنویر وفاقی وزیر تعلیم تھے۔ اُس مشہورِ زمانہ کابینہ‘ جو اب تک کی سب سے بڑی تھی‘ کسی ایسی ہی تقریب میں فرمایا تھا کہ جون 2023ء کے آخر میں اسلام آباد کے علاقے سے ستر ہزار آئوٹ آف سکول بچوں میں سے ایک بھی سکولوں سے باہر نہیں ہو گا۔ کوئی یہاں پوچھنے والا‘ احتساب کرنے والا نہیں جو پوچھے کہ جو ہدف آپ نے مقرر کیا تھا‘ اس کا کیا بنا؟ آج کل کوئی اور وزارت انہوں نے سنبھالی ہوئی ہے۔ دیکھیں‘ اس کے اہداف وہ کیا مقرر فرماتے ہیں۔
اپنی حکومتوں اور چودھریوں کے ڈیروں میں کئی مشابہتیں ہیں۔ ویسے ڈیروں والے ہی حکومتیں بناتے رہے ہیں کہ سرپرستوں کو بہت عزیز ہیں۔ کئی بار دیکھا ہے کہ بیچارے غریب‘ مفلوک الحال فرشوں پر بیٹھے ہاتھ جوڑ کر کوئی سفارش کرانے کے لیے التجائیں کر رہے ہوتے ہیں۔ انہیں ”ہو جائے گا‘ ہو جائے گا‘‘ کہہ کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ وزیر‘ مشیر اور معاونِ خصوصی‘ پتا نہیں نوکرشاہی کی بھرمار اور وزیروں کی فوج کے ساتھ ان معاونین کی کیا ضرورت پڑتی ہے؟ زراعت سے لے کر صنعتوں تک انقلاب اور پاکستان کو ہر قومی شعبے میں دیگر ممالک کی صفوں میں پہلی قطار میں کھڑا کرنے کی یقین دہانیاں اب ہمارے کانوں پر بھاری پڑتی ہیں۔ چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا کہ لوگ انہی نعروں کے ساتھ‘ اور اب تو کھلی دھاندلی کے نتیجے میں ملک کی قسمت بدلنے کے لیے اقتدار میں ہیں۔ ایک لحاظ سے تو واقعی انہوں نے قسمت بدل دی ہے کہ تقریباً تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ یہ پانچ سال انہوں نے پورے کر بھی لیے تو آخر میں وہی کہیں گے جو ماضی میں کہتے آئے ہیں کہ ہمیں تو کام نہیں کرنے دیا گیا‘ اس کے باوجود ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ کوئی بتائے کہ کوئی ملک آج تک دیوالیہ ہوا؟ فرد‘ کارپوریشنز دیوالیہ ہوتی ہیں‘ ملک نہیں ہوتے۔
جب ملک بنا تھا‘ نئی آزادی میسر تھی‘ تو قانون یہ تھا کہ تعلیم سب بچوں کے لیے لازم ہے۔ زندگی کا وہ دن کیسے بھول سکتا ہوں جب پہلے دن سکول گیا تھا۔ ہمارے چند گھروں پر مشتمل گائوں اور خاندان میں اُس وقت باقاعدہ سکول تو کوئی نہیں تھا مگر حرفوں اور ہندسوں سے واقفیت کی حد تک ہمارے بزرگ پڑھے ہوئے تھے۔ ایک صبح تقریباً تین میل دور سکول سے دو استاد آئے اور سب بچوں کو اکٹھا کیا‘ حکم تھا کہ سب کو یہاں حاضر کرو۔ ہم تین ہی تھے‘ اور انہوں نے تین کو ہی قطار میں کھڑا کیا‘ نام پوچھا اور رجسٹر میں لکھ لیا۔ اگلے روز ہم سکول میں تھے۔ استاد بھی کمال کے تھے کہ وہ لوگوں کے پاس جا کر ہدایت کرتے کہ بچوں کو سکول بھیجیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد محترم نے کہا کہ تین میل دور ہے‘ راستے میں جنگل‘ بہت مشکل ہو گا تو سید کاظم حسین شاہ نے‘ جو شہر سے آئے تھے‘ کہا کہ وہ مجھے سائیکل پر لے جائیں گے۔ اور کچھ دن تو یہی ہوا۔ پھر شوق میں دوڑتے دوڑتے دریا کے کنارے بھاگ کر پرائمری سکول پہنچ جاتے۔ بعد کی دہائیوں میں ہمیں جمہوریت اور آمریت نے باری باری ضربیں لگا کر پوری قوم کو زخموں سے نڈھال کر دیا۔ نفسا نفسی کے اس عالم میں جو اہل استعداد اور خوش قسمت تھے‘ یا تعلیم کے فیض سے زندگی کے سفر میں آگے نکل گئے‘ وہ تو سنور گئے‘ مگر جو غربت کی لکیر کے قریب تھے‘ وہ حکمرانوں کے رحم و کرم پر رہ گئے۔
سیاست چمکانے اور سستی شہرت کے لیے ہماری نام نہاد جمہوری حکومتوں نے مفت خوری کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ سارا دن لائن میں کھڑے ہوکر اب لوگ مفت آٹے کی بوری اور فری راشن کو کام کرنے اور دیہاڑی لگانے پر ترجیح دیتے ہیں۔ اب حکمرانوں میں اور نہ عوام میں عزتِ نفس اور خود احترامی کی حساسیت باقی ہے۔ انگریزی زبان کا مقولہ ہے کہ لوگوں کو مچھلی مفت دینے کے بجائے ماہی گیری کی تربیت دیں۔ یہی تو تعلیم کا مقصد ہے کہ انسان کی فطری صلاحیتوں کو جلا بخشی جائے۔ اس بات کا تعین بھی حکومتیں کرتی ہیں کہ ہماری قوم کے بچوں کو کس سمت جانا ہے۔ جن رہنمائوں میں وژن تھا‘ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ سندھ مدرسۃ الاسلام‘ اسلامیہ کالج پشاور اور ایسے کئی اور اداروں کی بنیاد رکھی۔ انگریزی حکومت نے نئی جامعات اور کالجز اور سکول دور دراز کے علاقوں میں قائم کیے۔ ان میں ہمارا پہلا بھاگسر سکول بھی شامل تھا۔ ہمارے ہاں بھی ایک دو ادوار ایسے آئے کہ جب تعلیم پر توجہ دی گئی‘ مگر اس شعبے میں رہنمائی ان کے سپرد کی گئی جو نمائشی پروگراموں سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ دکھ ہوتا ہے کہ جس گائوں‘ شہر‘ محلے اور چوک میں دیکھیں‘ بچے‘ بوڑھے‘ عورتیں بھیک مانگ رہے ہیں اور ہماری حکومتیں خود ہاتھ میں کشکول لیے امیر ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں۔ سوچیں‘ کون ہیں وہ حکمران جو خود تو قارون سے بڑھ کر خزانوں کے مالک بن گئے اور قوم اور اس کے بچوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل پچیس کا بھی مذاق‘ اور قوم کا بھی۔ حکومتیں اس قابل بھی نہیں کہ ہمارے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کر سکیں۔ کدھر ہے ہماری نوکرشاہی‘ سیاسی گھرانے اور موروثی گدی نشین؟ اس وقت وہ عہدے آپس میں بانٹ رہے ہیں اور خوب تیاری ہے کہ ان کا مستقبل اور بھی روشن ہو لیکن قوم کے بچوں کا مستقبل تاریک رہے۔ کاش چالیس ارب مفت آٹا تقسیم کرنے کے بجائے تعلیم پر خرچ ہوتا اور ہمارے بچے سکولوں میں ہوتے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر