مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جارجیا میں تنہا رہنا مشکل ہورہا تھا۔ پیسے بھی نہیں بچ رہے تھے۔ چنانچہ استعفا دے کر گھر چلا آیا۔ گاڑی پر اوبر کا اسٹیکر لگایا اور ادھر ادھر اپلائی کرنا شروع کیا۔
ایک کمپنی نے کہا، باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن اس کام میں ٹائپنگ بھی کرنا پڑے گی۔ میں نے کہا ہاں، وہ تو آتی ہے۔ انھوں نے کہا، نہیں۔ اس کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ فلاں جگہ ایک دفتر ہے جہاں وہ گھڑی رکھ کر رفتار اور معیار جانچیں گے۔ اگر ٹائپنگ اسپیڈ 45 لفظ فی منٹ سے کم ہوئی یا تین سے زیادہ غلطیاں ہوئیں تو آپ فیل ہوجائیں گے۔
مجھے میٹرک کے بعد کا زمانہ یاد آیا۔ نتیجہ آنے اور کالج میں داخلہ ہونے میں کئی مہینے تھے۔ بابا نے کہا، فارغ اوقات میں ٹائپنگ سیکھ لو۔ یہ 1989 کی بات ہے۔ اس وقت تک کمپیوٹر دیکھا بھی نہیں تھا۔
ان دنوں یوسف پلازا میں ٹائپنگ سکھانے کا مرکز ہوتا تھا۔ وہاں باوا آدم کے زمانے کے بارہ پندرہ ٹائپ رائٹر پڑے رہتے تھے۔ مجھ جیسے فارغ لڑکے آتے اور تیس روپے مہینہ دے کر روزانہ ایک گھنٹا ان ٹائپ رائٹرز سے کشتی لڑتے۔ کبھی ان کی کیز پھنس جاتیں اور کبھی ربن اٹک جاتا۔ ٹائپنگ سکھانے والا کوئی نہیں تھا۔ خود ہی اے ایس ڈی ایف جی، سیمی کولن ایل کے جے ایچ سے انگلیاں چلانا سیکھیں۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے چھوٹے ماموں کے پاس بھی ایک پرانا ٹائپ رائٹر تھا۔ انھوں نے ضیا الحق دور میں آٹھ نو سال بیروزگاری کاٹی تھی۔ اس دوران ٹائپنگ کرکے کچھ پیسے کمائے ہوں گے۔
میں نے ٹائپنگ بہت جلد سیکھ لی۔ انگریزی نہیں، اردو بھی، کیونکہ میں نے پڑھا تھا کہ منٹو اپنے افسانے اردو ٹائپ رائٹر پر لکھتا تھا۔ منٹو پڑھنے کا صحیح زمانہ وہی تھا، میٹرک کے بعد، جب جوانی شور مچاتی ہوئی آتی ہے اور باغی تحریریں پڑھنے میں لطف آتا ہے۔
ایکسپریس کا 1998 میں آغاز ہوا، تو وہ پہلا اردو اخبار تھا جس کا سارا کام کمپیوٹر پر ہوا۔ سلطان لاکھانی نے تمام کارکنوں کو لیکسن بلڈنگ میں قائم سائبرنیٹ کے دفتر میں ایک ایک ہفتے کی ٹریننگ دلوائی۔ پہلے دن ٹرینر نے بسم اللہ یوں کی: یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں، کمپوٹر ہے۔ کمپیوٹر نہیں، کمپوٹر۔ اس نے بالکل ٹھیک آغاز کیا کیونکہ ٹریننگ میں بزرگ صحافی اور نیوز ایڈیٹرز تک شامل تھے جنھوں نے زندگی میں کبھی کمپیوٹر نہیں چلایا تھا۔
میرے ساتھ ٹریننگ میں نصرت علی بھی تھا، جو پیٹرنز ٹرافی کھیل چکا تھا اور ایکسپریس کی اسپورٹس ڈیسک پر میر ا کولیگ تھا۔ بعد میں اس کا داخلہ آئی بی اے میں ہوگیا اور اس نے جرنلزم شروع کرنے سے پہلے اسے خیرباد کہہ دیا۔ ہم نے جب ٹرینر کا پہلا جملہ سنا تو ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔ ہفتہ بھر ہم پچھلی نشستوں پر بیٹھے گیم کھیلتے رہے کیونکہ نئی نئی نوکری تھی، ٹریننگ سے غیر حاضر نہیں ہوسکتے تھے اور اس کورس میں ہمارے سیکھنے کے لیے بھی کچھ نہیں تھا۔ اس کے بعد نصرت جتنے دن ایکسپریس میں رہا، مجھے یہی بتاتا رہا، یہ جو کمپوٹر ہے۔۔۔
ٹریننگ سے واپس آکر لاکھانی صاحب نے ایک کمرے میں بہت سے کمپیوٹر رکھوائے اور نیوزروم اسٹاف اور رپورٹرز سے کہا کہ اس اخبار میں سب لوگ اپنی خبریں خود کمپوز کریں گے۔ اخبار نکلنے میں کئی ماہ ہیں۔ آپ روزانہ دفتر آنے کے بعد ایک گھنٹا ٹائپنگ سیکھیں۔
چند دن بعد لاکھانی صاحب دفتر آئے تو سب لوگ ٹائپنگ سیکھ رہے تھے اور میں اکیلا نیوزروم میں بیٹھا گیم کھیل رہا تھا۔ لاکھانی صاحب بہت ناراض ہوئے۔ مجھ سے تو کچھ نہیں کہا لیکن ایڈیٹر نیر علوی سے شکایت کی کہ یہ لونڈا ٹائپنگ کیوں نہیں سیکھ رہا۔ اسے جاکر بتائیں کہ اخبار نکلنے کے بعد اگر یہ خبر کمپوز نہ کرسکا تو اس کی نوکری خطرے میں پڑجائے گی۔ علوی صاحب نے یہ چتاونی مجھ تک پہنچادی۔
اگلے دن لاکھانی صاحب نے دورہ فرمایا تو میں کمپوزنگ روم میں ٹائپنگ "سیکھ” رہا تھا۔ وہ سیدھے علوی صاحب کے پاس گئے اور ان سےکہا، یہ لونڈا جو ایف سکسٹین کی رفتار سے ٹائپنگ کررہا ہے، اسے کہیں کہ ٹائپنگ سیکھ لی ہے تو وہاں سے دفع ہوجائے تاکہ کوئی بھلا آدمی اس کمپیوٹر پر ٹائپنگ سیکھ سکے۔ علوی صاحب ہنستے ہوئے آئے اور مجھے دفع ہونے کا پیغام پہنچایا۔
یہ سب رام کہانی اس لیے سنائی کہ امریکی کمپنی میں نوکری کے لیے ٹیسٹ دیتے وقت لاکھانی صاحب یاد آئے۔ ٹیسٹ لینے والی آنٹی نے کہا، یہ کمپیوٹرائز ٹیسٹ ہے۔ یاد رکھنا، 45 الفاظ فی منٹ اور زیادہ سے زیادہ تین غلطیاں۔ دوسرا موقع نہیں ملے گا۔
ایک منٹ بعد انھوں نے کمپیوٹر پر نتیجہ دیکھ کر کہا، ٹائپنگ ٹیسٹ دینے کو کس نے بولا تھا؟
اس قصے کا دکھ بھرا انجام یہ ہے کہ جب میں نے اس نتیجے کے ساتھ اپنی ڈگری جمع کرائی تو یہ کہہ کر معذرت کرلی گئی کہ آپ اوور کوالیفائیڈ ہیں۔ یہاں یہ مسئلہ بھی ہے۔ بندے کی قسمت خراب ہو تو آدھی کمپنیاں یہ کہہ کر منع کردیتی ہیں کہ ہمارے پاس آپ سے بہتر امیدوار ہیں اور باقی آدھی یہ کہہ کر کہ آپ کی کوالیفکیشن ہمارے مطلوبہ معیار سے زیادہ ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر