مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے کئی دوستوں نے ڈنکی لگائی تھی۔ میرے متعدد جاننے والوں نے اسائلم لیا تھا۔ کل امریکا کے ایک سینما میں اپنے بیوی بچوں اور ان ہندوستانیوں پاکستانیوں کے ساتھ بیٹھ کر فلم ڈنکی دیکھی جس سے ہم سب خود کو ریلیٹ کرسکتے تھے۔
بھائی اقبال خورشید اور دوسرے ماہرین باکس آفس رپورٹس کی معلومات دیتے ہیں۔ ابوعلیحہ اور دوسرے ماہرین فلم کی تکنیک پر بات کرسکتے ہیں۔ میں ان جیسا ماہر نہیں ہوں۔ ایک عام فلم بین ہوں۔ میں صرف یہ بتاسکتا ہوں کہ فلم اچھی لگی یا نہیں۔ دل پر اثر کیا یا نہیں۔ ڈنکی نے میٹھا سا ڈنک مارا۔ دل کو لگی۔
عام لوگ، امریکا یورپ کی سیر کرکے واپس جانے والے لوگ بھی بالکل ٹھیک نہیں جانتے کہ بیرون ملک رہنا کیسا ہوتا ہے۔ چند دن یا چند ہفتے رہنے سے کسی ملک کا تھوڑا سا ہی اندازہ ہوسکتا ہے۔ قیام کرنے والے کو سیاست، سماج، معیشت، روزگار، تعلیم، صحت بہت سے معاملات کا بار بار اور مختلف طرح سے تجربہ ہوتا ہے۔ تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہمدردی کرنے والے ملتے ہیں، ناپسند کام کرنے پڑتے ہیں اور جگہ جگہ دھکے کھانے پڑتے ہیں۔
مجھے حیرت ہوتی ہے جب چند دن رہ کر واپس جانے والے کسی ملک کے بارے میں بڑے بڑے فیصلے سنادیتے ہیں کہ وہ ایسا ہے یا ویسا ہے۔ سیاح کی نظر سے دیکھنا اور ہوتا ہے اور شہری کا تجربہ کچھ اور ہوتا ہے۔
ہندوستانی پاکستانی بنگلادیشی صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی جاننے والا امریکا یا انگلینڈ چلا گیا اور اس کا خاندان خوشحال ہوگیا۔ جانے والے کا وہاں کیا حشر ہوا یا ہورہا ہے، یہ کم لوگ جانتے ہیں۔ یا پھر یہ سوچتے ہیں کہ سر پڑے گی تو بھگت لیں گے۔ لیکن بھگتنا آسان نہیں ہوتا۔
میں بہرحال ملک سے نکلنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ لیکن ڈنکی مار کے نہیں، قانونی طریقے سے۔ امریکا یورپ کینیڈا آسٹریلیا قانونی طور پر پہنچنے کے ہزار طریقے ہیں۔ زندگی خطرے میں نہیں پڑتی۔ سیٹل ہونا نسبتا آسان ہوتا ہے۔ تعلیم یا ہنر سیکھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ تھوڑی اسٹرگل کے بعد بہترین زندگی منتظر ہوتی ہے۔
ڈنکی کا ایک پیغام عوام کے لیے ہے اور ایک حکومتوں کے لیے۔ حکومتوں کے لیے یہ کہ ڈنکی غریب لوگ مارتے ہیں۔ امیر آدمی ویزا اور شہریت خرید سکتا ہے۔ غریب آدمی کے پاس پیسہ نہیں ہوتا اس لیے اپنی جان کا سودا کرتا ہے۔ ہر سال دسیوں لاکھ افراد غربت سے بھاگتے ہیں اور ان میں سے ہزاروں بھاگتے بھاگتے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
لیکن کیا سرحدوں کو کھول دینا چاہیے؟ انسانی حقوق کی رو سے ہاں۔ لیکن انتظامی لحاظ سے یہ ناممکن اقدام ہے۔ میکسیکو کی سرحد سے ہر سال لاکھوں افراد امریکا میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پورا سال وسطی اور جنوبی امریکا سے ہزاروں افراد کے قافلے امریکا کی طرف پیدل چلتے رہتے ہیں۔ آج کی خبر ہے کہ سات ہزار افراد کا قافلہ میکسیکو سے گزر رہا ہے اور اس کا رخ امریکا کی طرف ہے۔
دنیا میں ناانصافی رہے گی، ظلم ہوتا رہے گا، غربت رہے گی، تعصب رہے گا تو ڈنکی کا کاروبار بھی چلتا رہے گا۔ یہ کسی فلم، کتاب، قانون، دیوار اور فوج سے رکنے والا نہیں۔
میں انڈین فلمیں اب کم دیکھتا ہوں۔ ڈنکی میں شاہ رخ خان کو دیکھ کر لگا کہ بھائی اب بڈھے ہوگئے ہیں۔ جوانی والے مناظر میں بھی یہ احساس ہوتا رہا۔ گھر آکر آئینہ دیکھا تو احساس بڑھ گیا۔
ڈنکی راج کمار ہیرانی اور شاہ رخ خان سے زیادہ تاپسی پنو کی فلم ہے۔ اس نے بہت اچھی اور بے ساختہ اداکاری کی۔ مجھے اس میں ان کہی والی شہناز شیخ کی جھلک نظر آئی۔ پتا نہیں کسی اور کو ایسا لگا یا نہیں۔
مجھے اعتراف ہے کہ اس سے پہلے پنو کی کوئی فلم نہیں دیکھی تھی۔ اب اس کی فلموگرافی کو بک مارک کیا ہے۔ ڈنکی کا خمار کم ہوجائے تو اس فہرست کا آغاز کروں گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر