رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آٹھ فروری کا دن پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جا چکا۔ رنگ اتنا شوخ کہ نگاہوں کو خیرہ کر دے۔ اور لکھائی دنیا کے سخت ترین پتھر پر اتنی گہری کہ کوئی کتنی ہی طاقت آزمائی کرے‘ کبھی نہ مٹ پائے۔ اپنی اس محکوم قوم سے جو لوگ مایوس ہو چکے تھے‘ اس دن کی روشنی سے سب کے بجھے چراغ امید کی قندیلوں کی طرح فروزاں ہیں۔ یاد رکھیں! یہ خموش ترین پُرامن انقلاب دنیا کے لیے بے مثال ثابت ہو گا۔ اس وقت تو دنیا بھر کے مبصرین حیران ہیں کہ جبر و استبداد کی فضا میں پاکستانی عوام نے کس طرح چار موروثی جماعتوں کو‘ جو ہمیشہ اندرونی اور بیرونی طاقتوں کی شہ پر گزشتہ چھیالیس برسوں سے حکومت کرتی چلی آئی ہیں‘ چاروں شانے چت کر دیا۔
موروثی سیاست دانوں اور اُن کے پشت پناہوں کو یقین نہیں آ رہا کہ کیا ہو گیا ہے‘ اور یہ کیسے ممکن ہو سکا کہ سب بندوبست تو پہلے کر دیا تھا‘ اس کے باوجود لوگ پولنگ سٹیشنوں پر اس طرح گئے جیسے بن ٹھن کر کبھی روایتی میلوں میں جایا کرتے تھے۔ بہت بڑی اکثریت نے ادھر اُدھر دیکھنے کے بجائے ٹھپہ اُسی نشان پر لگایا جس کے بارے میں معلوم ہو سکا کہ اُسے تحریک انصاف کی تائید حاصل ہے۔ ہمارے معروف مصنف‘ محمد حنیف صاحب نے اپنے پنجابی وی لاگ میں کہا ہے کہ اس معتوب جماعت کو انتخابی نشانات اس طرح الاٹ کیے گئے جیسے کسی غریب کے گھر کا سامان بکتا ہے۔ بینگن‘ لوٹا‘ قینچی‘ پلیٹ‘ چمٹا‘ اور نہ جانے کیا کیا۔ یہ کوئی اتفاق کی بات تو نہیں کہ جب ماضی میں آزاد امیدواروں کو صرف ایک ہی نشان ملتا تھا تو اب کیوں نہیں؟ سینکڑوں مختلف نشانات کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ لوگوں کو ابہام میں رکھا جائے۔ کچھ بوڑھوں کو جانتا ہوں جنھوں نے نوجوانوں سے رہنمائی لی ”بیٹا! عمران خان کا نشان کون سا ہے؟‘‘ اور پھر اپنی لاٹھیوں کے سہارے پولنگ سٹیشنوں کی طرف چل پڑے۔ میدان کو موروثیوں کے حق میں ہموار رکھنے کا ایک اور انتظام یہ تھا کہ ایک ہی خاندان کے ووٹروں کو اور ایک ہی گھر کے مکینوں کو دور دور پولنگ سٹیشنوں پہ منتقل کر کے ان کی دوڑیں لگوائیں کہ شاید اس زحمت سے گھبرا کر گھر بیٹھ جائیں۔
مفروضہ یہ تھا کہ اگر زیادہ تعداد میں لوگ نکلے اور ووٹ دیے تو موروثیوں کی بساط لپٹ جائے گی۔ عجب بات ہے کہ گزشتہ انتخابات کی نسبت ووٹرز ٹرن آئوٹ کم رہا مگر اس کے باوجود تحریک انصاف کے حق میں ووٹ پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ انتخابات کے دن کا پس منظر دیکھیں تو وہ دن انقلاب ہی تو ہے۔ نو مئی کے واقعات کے بعد عمران خان کے نام پر غیر اعلانیہ پابندی عائد تھی۔ زیادہ سے زیادہ بانی پی ٹی آئی کہا جا سکتا تھا۔ تحریک انصاف کا نام لینا بھی دشوار تھا۔ تمام کلیدی رہنما بانی چیئرمین سمیت جیلوں میں تھے۔ انتخابات سے چند دن قبل مقدمات میں مزید سترہ سال قید سنانے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اب حکمرانی موروثیوں کی ہو گی‘ اور یہ کہ خان کا کھیل ختم ہو چکا۔ جنہیں ہم اور زمانہ الیکٹ ایبل سمجھتا ہے‘ انہیں پریس کانفرنسوں پر مجبور کر کے پارٹی چھوڑنے کے لیے دبائو ڈالا گیا۔ نئے امیدوار سامنے آئے تو کہیں کاغذاتِ نامزدگی پر اعتراض تو کہیں امیدوار اور اس کے اہلِ خانہ غائب۔ امیدواروں کی خیر کوئی کمی نہ تھی‘ ایک صف کے کاغذات مسترد ہوتے تو دوسری صف حاضر ہو جاتی۔ اکثر امیدوار غیر معروف تھے۔ مگر ایک بڑا نام بہت ہی معروف تھا۔ آپ نے تحریک انصاف کے امیدواروں کی کوئی مہم دیکھی؟ کہیں کہیں یہ آزاد امیدوار چھپ چھپا کر اپنے حلقوں میں لوگوں سے ملتے رہے۔ نہ کہیں کوئی بینر‘ نہ پوسٹر۔
موروثیوں کے لیے سب کچھ کھلا تھا۔ جہاں چاہتے جلسے کر سکتے تھے‘ اور کیے۔ ہزاروں کی تعداد میں میڈیا میں اشتہارات چلائے‘ پریس کانفرنسیں کیں اور سنا ہے کہ حسب سابق غریبوں کے ضمیر کا سودا کرنے کی بھی کوشش کرتے رہے۔ جاتی امرا والے انتخابی بندوبست سے اتنے پُرجوش اور پُرامید تھے کہ اپنے منشور کا نام بھی ”نواز دو‘‘ رکھا اور ایک دن قبل سب اخباروں میں اشتہار دے ڈالا: ”وزیراعظم نواز شریف‘‘۔ جو کچھ تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کے ساتھ مظفرگڑھ‘ سیالکوٹ اور دیگر اضلاع میں ہوا‘ وہ کسی ملک میں نہیں ہوتا جہاں قانون اور انصاف کی حکمرانی ہو۔ یہاں تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ یہ بات ہم صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ یہ دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ہم کسی جماعت سے اس کا انتخابی نشان چھین لینے کے فیصلے کا ذ کر صرف ضمناً کر رہے ہیں کہ اس کے بغیر بھی تحریک انصاف خاموش انقلاب لانے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ انقلاب بہت پُرامن طریقے سے برپا ہوا۔ پاکستانی قوم نے ووٹ کی پرچی استعمال کی‘ روایتی انقلابوں کی طرح خون خرابہ تو نہیں کیا۔ ایک اور بات جو پاکستان کے اس خاموش انقلاب کو دیگر ہنگامہ خیز انقلابوں سے ممتاز کرتی ہے‘ وہ اس کا خالص دیسی‘ عوامی اور بنیادی نوعیت کا ہونا ہے۔ یہ الفاظ قابلِ غور ہیں‘ وضاحت کی ضرورت نہیں۔ ایک بنیادی فرق عوامی طاقت اور پرانے فیض یافتہ سیاسی دھڑوں کے درمیان گزشتہ دو سال سے ابھرکر سامنے آیا۔ یہ دھڑے‘ جن کے نام اب آئندہ آنے والی حکومت میں اس طرح شامل ہوں گے‘ جس طرح سولہ ماہی حکومت میں تھے‘ یہ کئی بار حکومت کر چکے ہیں۔ بندر بانٹ‘ لوٹ مار‘ دھونس اور دھاندلی‘ غربت اور بے کاری اور معاشی دیوالیہ پن کے علاوہ اس مجبور قوم کو دیا ہی کیا ہے؟ اور عوام یہ بات سمجھ چکے ہیں۔ پھر نیب قوانین میں ترمیم اور من پسند فیصلے حاصل کرنے کے بعد جب ایک مرتبہ پھر انہیں مسلط کرنے کی سازش سوشل میڈیا نے بے نقاب کی تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریزہونا شروع ہو گیا۔ انگریزی کا عام فہم مقولہ ہے کہ بادشاہ نئے کپڑوں میں جلوہ گر ہونے لگا ہے۔
اس خموش انقلاب کو لانے میں دو دہائیاں لگی ہیں۔ اس کے پیچھے عزم‘ جذبہ اور آزادی کا پُرجوش بیانیہ کارفرما ہے۔ لیڈرشپ کی بات کسی اور دن کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ دو طاقتیں ایسی ہیں جنہوں نے پرانے نظام کی صرف چولیں ہی نہیں ہلائیں‘ اسے دریا برد بھی کر دیا ہے۔ پہلے تو پاکستان کا نوجوان ہے جس کے بارے میں کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اس نئے طبقے کی سوچ‘ فکر مندی‘ شکایات اور عزم کو سمجھے بغیر کوئی سیاست کامیاب نہیں ہو سکتی۔ لیپ ٹاپ کی پیشکش‘ نوکریوں کے وعدے‘ وعظ و نصیحت نوجوانوں کے دلوں میں چھپے غم و غصے کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ان پر طنز کے تیر چلا کر ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑکا گیا۔ خوف اور دہشت پھیلانے کا سب بندوبست ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے ووٹ کو تاریخی عزت دی کہ بڑے بڑوں کی پگڑیاں اچھل گئیں۔ دوسری اہم بات سوشل میڈیا کا کردار ہے کہ نوجوانوں نے تحریک انصاف کے حق میں اس مؤثر انداز میں استعمال کیا کہ سب بندوبست دم توڑ گئے۔ ووٹروں کی رہنمائی کے لیے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کے نشانات کی ایک ویب سائٹ غائب ہوتی تو دوسری سامنے آ جاتی۔ اس سے بڑھ کر اصل پیغام کہ ان انتخابات کے پردے میں کون کیا کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت شواہد سامنے ہیں کہ ہٹ دھرمی‘ کھلی بددیانتی اور تمام اخلاقی اور قانونی اقدار کو پامال کرتے ہوئے نتائج میں مبینہ ردو بدل کیا گیا۔ عوام نے کسی اور کو چنا ہے اور تاج کسی اور کے سر پر رکھنے کی تیاری ہو رہی۔ یہ تبدیلیاں‘ باریاں اور تاج پوشیاں ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں‘ ان میں کوئی نئی بات نہیں۔ اصل میں تو خموش‘ پُرامن انقلاب ہے‘ جو برپا ہو چکا۔ اب اس کے اثرات دیکھنا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر