نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’قصہ‘‘ ایک فائل کی گمشدگی کا ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا یہ بات درست ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی آئین پسندی کی باسی کڑی میں حالیہ ابال کی وجہ ایک فائل کی گمشدگی ہے؟ آخر اس فائل میں ایسا کیا ہے کہ صدر مملکت کے ہاتھوں کے طوطے ہی نہیں اڑنچھو ہوئے بلکہ چہرے کی رنگت میں زردی قدرے زائد ہے۔

’’واقفِ حال‘‘ کا دعویٰ ہے کہ گم ہوجانے والی فائل میں 9 مئی کی ناکام کھٹی میٹھی بغاوت کی کامیابی کی صورت میں متبادل انتظامات کی تفصیل تھی۔ سابقین اور حاضرین (سابق اور بعض حاضر افسروں) کی اس تیار کردہ بغاوت بارے ان کالموں میں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکا ہوں اپنے ضابطوں کی حدود میں بری فوج کے چند دوسرے تیسرے اور چوتھے درجہ کے "حاضرین” کے خلاف کارروائی کر چکی ہے ۔ منصوبہ سازوں میں شامل سابقین بیانات صفائی دے رہے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ 9 مئی کے بلنڈر نے نہ صرف معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت ماضی کے مقابلہ میں قدرے مضبوط بنادی بلکہ اس سے پیدا ہونے والے 7 عشاریہ 5 سکیل کے زلزلے نے خود تحریک انصاف کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

یہ کہنا کہ اگلے برس ہونے والے انتخابات کو ان حالات (موجودہ حالات) میں عوام قبول نہیں کریں گے اپنی جگہ درست ہے لیکن یہ بات وہ کررہے ہیں جن کے لئے 2018ء کے انتخابات میں کھلی مینجمنٹ کی گئی اس کے باوجود چند چھوٹے گروپوں اور آزاد امیدواروں کو ڈھوئے بغیر حکومت سازی میں خیبر پختونخوا کے علاوہ مشکل پیش آرہی تھی۔

چھوٹے پارلیمانی گروپوں اور آزاد امیدواروں کو کیسے ’’رام‘‘ کیا گیا وہ سب ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے۔

ہماری سیاسی اور انتخابی تاریخ میں ایک بھی انتخابات ایسے نہیں ہوئے جن کے بارے میں کہا جائے کہ وہ خالصتاً آزادانہ شفاف اور منصفانہ تھے۔ جو دوست 1970ء کے انتخابات کو ملکی تاریخ کے واحد آزادانہ و منصفانہ اور شفاف انتخابات قرار دیتے نہیں تھکتے وہ صرف یہ معلوم کرنے کی زحمت کریں کہ دوسرے فوجی سربراہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے ایل ایف او کے تحت ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے منجمد فنڈز میں سے خطیر رقم نکلواکر فوجی حکومت کے حکم پر کن سیاسی گروپوں کو دی گئی اور ڈیوس روڈ لاہور پر واقع کنونشن لیگ کا دفتر کس کے حکم پر کونسل مسلم لیگ کو عطا ہوا؟ یا یہ کہ کس جماعت کے سیکرٹری جنرل نے فنڈنگ کرنے پر امریکی سفیر کو شکریہ کا خط لکھا تھا

ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ پچھلے چند دنوں سے بعض "باخبر واقفانِ” حال کے رازونیاز سے ہی اس خبر نے جنم لیا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی 9 مئی کے منصوبہ سے کاملاً آگاہ تھے۔ نہ صرف آگاہ تھے بلکہ ان کے پاس متبادل انتظامات میں کی جانے والی تقرریوں کی فہرست بھی موجود تھی۔ یہ فہرست اور چند دیگر کاغذات جس فائل میں تھے وہ گم ہو گئی ہے ۔ ایک فائل کی گمشدگی مسئلہ تو ہے اور ہے بھی نہیں کیونکہ یہاں پارلیمنٹ سے منظور شدہ بل وزارت قانون و انصاف اور سپیکر کے دفتر سے گم ہوجاتے ہیں۔

پچھلے چند دنوں سے صدر مملکت کی آئین پرستی کی باسی کڑی میں جو ابال آیا ہوا ہے کہ یہ اس وقت کیوں نہ آیا جب انہوں نے اپنے وزیراعظم کی غیرقانونی سمری پر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم نامہ جاری فرمادیا تھا؟

صدر مملکت کے اس عمل کو سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں جو نام دیا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے چند دن قبل ان سطور میں عرض کیا تھا کہ اپنے منصب اور فرائض کی ادائیگی کی بجائے ایک غیرقانونی کام میں حصہ ڈالنے کو سپریم کورٹ نے جو نام دیا ہے کہ اس کے بعد صدر مملکت کے پاس دو ہی شریفانہ راستے ہیں

اولاً یہ کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اپنے بارے میں لکھے گئے ’’کلماتِ مبارک‘‘ پر عدالت سے رجوع کریں تاکہ اگرانہوں نے آئین شکنی نہیں کی تو اس کا رد ہوسکے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے منصب سے مستعفی ہوجائیں۔

خیر اب جو ایک فائل کے گم ہوجانے کی اڑتی اڑتی خبر ہے یہ اگر درست ہے تو منصب سے الگ ہونے کے بعد بہت ساری مشکلات ان کے گلے پڑسکتی ہیں۔

کہتے ہیں اس خطرے کو بھانپ کر صدر مملکت نے حال ہی میں چند بیانات اور ایک انٹرویو دیا جن پر الیکشن کمیشن اور نگران وزیر اطلاعات کا ردعمل بھی آیا۔ نگران وزیر اطلاعات اور الیکشن کمیشن کے جوابی بیانات کے بیچوں بیچ ایک سوال تھا وہ یہ کہ صدر مملکت اگر یہ سمجھتے تھے کہ انتخابات کے حوالے سے غیرآئینی کام ہورہا ہے تو انہیں سپریم کورٹ کے حکم پر مشاورت کے لئے آئے چیف الیکشن کمشنر اور اٹارنی جنرل کو دوٹوک انداز میں کہہ دینا چاہیے تھا کہ دو صوبوں کی نگران حکومتوں کی آئینی و قانونی حیثیت مشکوک ہے۔

وفاق اور دو صوبوں کی نگران حکومتوں کی آئینی حیثیت پر بھی اگلے ایک دو ہفتوں میں سوالات اٹھ کھڑے ہوں گے۔ جب تک اس معاملے کی قانونی تشریح نہیں ہوجاتی اس وقت تک معاملات کو آگے نہ بڑھایا جائے۔

نیز یہ کہ صدر مملکت کو الیکشن کیس میں درخواست دیتے کہ سپریم کورٹ کے سامنے بھی یہ سوال رکھنا چاہیے تھا انہوں نے دونوں کام کرنے کی بجائے الیکشن کمیشن کی دی ہوئی الیکشن کی تاریخ میں چند دنوں کی کمی بیشی کرکے اس کی منظوری دی یہ سب کرچکنے کے ہفتہ بھر بعد وہ چاند ماری میں جُت گئے اس درمیانی عرصے میں آخر کیا ہوا تھا؟

یہ وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ صدر مملکت 9 مئی کے واقعات سے نہ صرف پیشگی آگاہ تھے بلکہ اپنی جماعت کے سربراہ عمران خان کی مشاورت سے انہوں نے متبادل انتظام پر رضامندی کی مہر ثبت کردی تھی۔ یعنی اگر حاضر سروس اور ریٹائر افسروں کے منصوبے کے مطابق بغاوت کامیاب ہوجاتی تو پھر کون نیا آرمی چیف کون چیف آف جوائنٹ سٹاف کمیٹی، بحریہ و فضائیہ کا سربراہ، آئی ایس آئی چیف ، چیف جسٹس اور دیگر اہم عہدوں کے ساتھ چاروں صوبوں کے لئے گورنروں کی تقرری کی جاتی۔

راوی کے بقول متبادل انتظام میں جن خواتین و حضرات کو منصب عطا ہونے تھے ان کی فہرست صدر مملکت کے پاس تھی۔ واقعتاً ایساہے تو پھر یہ ان کی تحویل سے کون لے اڑا؟

واقعی ایسی کوئی فائل تھی تو کیاایوان صدر کادفتری نظام اتنا بودہ ہے کہ کوئی جب چاہے وہاں سے صدر کی مرضی و منشا کے بغیر احکامات جاری کروادے جیسا کہ کچھ عرصہ قبل دو قانونی بلوں کی منظوری کے حکمناموں کے اجراء سے ایک تنازع اٹھا اور صدر کو ذاتی طور پر کہنا پڑا کہ انہوں نے منظوری نہیں دی اس تنازع کی بدولت ہی صدر نے اپنے سیکرٹری کی خدمات واپس کرنے کا اعلان کردیا؟

دستیاب اطلاعات کی روشنی میں تحریر نویس یہی سمجھ پایا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔ کچھ رولا ہے ضرور اور آنے والے دنوں میں اس حوالے سے تماشے لگیں گے۔

اگر ہم ایک لمحہ کے لئے کسی فائل کے گم ہوجانے کی روایت کو محض ایک افواہ مان بھی لیں تو بھی ضروری ہوگیاہے کہ صدر مملکت ذاتی طور پر اس کی وضاحت کریں تاکہ اگر کوئی ایسی باتیں کرکے ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے بچے کھچے تعلقات پر کاری وارکررہا ہے تو وہ اپنے "مقاصد” حاصل نہ کرنے پائے۔

یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ بعض ذرائع یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جن دو صوبوں (پنجاب اور خیبر پختونخوا) کی نگران حکومتوں کی قانونی اور آئینی حیثیت متنازعہ ہے اس حوالے سے اور آنے والے دنوں میں وفاق اور دو صوبوں (سندھ بلوچستان) کی حکومتوں کی آئینی و قانونی حیثیت پر اٹھنے والے سوالات سے پیدا ہونے والی صورتحال سے بچنے کے لئے ہاتھ پائوں مارے جارہے ہیں۔

بالفرض یہ دوسری رائے درست ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ فائل کی گمشدگی والا قصہ اسی لئے چھیڑا گیا ہے کہ صدر مملکت کو اپنی پڑجائے۔

لیکن چلتے چلتے یہ عرض کردوں کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو جو لوگ ذاتی طور پر جانتے ہیں وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ صدر عارف علوی مشکل وقت میں دبنگ انداز میں دوستوں کے ساتھ کھڑا رہنے کی تاریخ نہیں رکھتے۔

آئین پسندی کی ان کی باسی کڑی میں حالیہ اُبال مستقبل میں گلے پڑنے والی مشکلات کے خطرے کا پیشگی علاج کرنے کی کوشش ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author