حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فی الوقت اہم بات یہ ہے کہ پیا اپنی سہاگن کا انتخاب کر چکا، لیکن یہ 2013ء اور 2018ء ہے نا ہی 1988 اور 1990 ء بلکہ 2023ء ہے زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں کیا "بارات اور ولیمے” کے لئے ایمرجنسی لگا کر مقاصد حاصل کئے جائیں گے، ایسا اگر ہوا تو کیا دنیا کا ردعمل نہیں آئے گا؟
سادہ سا جواب یہ ہے کہ اس ردعمل کو سمجھنے کے لئے اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نے بارڈر مینجمنٹ کے لئے جو ساڑھے 4ارب ڈالر دینے کا کہا تھا (یہ اعلان سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے دورہ امریکہ کے دوران ہوا تھا)اسی نے ستمبر کے اوائل میں واضع کر دیا کہ یہ رقم انتخابی عمل کے مکمل ہونے اور منتخب حکومت کے قیام پر ادا کی جائے گی،
یعنی انتخابات سے فرار کی کوئی گنجائش نہیں، ایک معاملہ اور ہے وہ ہے آئی ایم ایف سے تحریک انصاف کے دور حکومت میں ہوئے معاہدہ کی شرائط نومبر 2021ء میں ہونے والے اس معاہدے کے بعد ہی سٹیٹ بینک کی خود مختاری کا قانون بنا تھا، کورونا وبا کے عرصہ میں ملنے والی بیرونی امداد کے تھرڈ پارٹی آڈٹ کی شرط ہی باقی نہیں بلکہ ایک اور مشن بھی ابھی پورا نہیں ہوا وہ ہے وزارت دفاع کے کاروباروں کی فاضل رقوم سمیت دیگر وزارتوں کی سالانہ رقوم جنہیں اصولی طور پر سٹیٹ بینک منتقل کیا جانا ہے
اس میں فوجی فاونڈیشن کے تمام اداروں کی اب تک کی محفوظ رقوم بھی شامل ہیں، پی ڈی ایم واتحادیوں نے سولہ ماہ کے عرصہ اقتدار میں عمران دور میں ہوئے معاہدوں کی ان شقوں پر عمل کیا نہ ہی اس پر کہ دفاعی بجٹ کم کیا جائے، پنشن فنڈز پر نظرثانی کی جائے، دفاعی بجٹ کون کم کر سکتا ہے؟
پنشن فنڈ پر نظرثانی کا مطلب یہ لیا گیا کہ سول پنشن سے جان چھڑائی جائے، یہاں کسی میں ہمت ہے کہ سوال کرے ڈیفنس پنشن کتنی ہے اور سول پنشن کتنی یا یہ کہ فوجی فاونڈیشن کے مجموعی کاروباروں کی اب تک کی محفوظ رقم کتنی ہے کیا واقعی یہ رقم اسی تناسب سے ہے جس کا دعویٰ آئی ایم ایف کے کنٹری منیجر نے فروری 2022ء میں کیا تھا؟
دوسرے مسائل اور مشکلات کو اٹھا رکھیئے، پہلے اس پر غور کر لیجئے کیا مسلم لیگ ن نئے انتظامات کے تحت "سہاگن” بن کر پیا کی مرادیں پوری کر سکتی ہے؟
کورونا کی بیرونی امداد کی تھرڈ پارٹی آڈٹ کا رسک کیسے اور کون لے گا، این ڈی ایم اے کے اس وقت کے سربراہ نے تو سپریم کورٹ میں باضابطہ بیان دیا تھا کہ ایک مریض کے علاج پر 25لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں، اس جواب پر عدالت سے باہر بہت شور اٹھا لیکن انگلیاں دانتوں میں داب لینے والے منصفوں نے 25لاکھ فی مریض والے جواب پر گردنیں جھکاتے ہوئے کہا ’’جنرل صاحب آپ جا سکتے ہیں‘‘
آگے بڑھنے سے قبل ایک بات بطور خاص ذہن میں رکھیئے، انتظام ہمیشہ پنجاب سے ہوا، 1988ء میں بنوائے گئے اسلامی جمہوری اتحاد سے غور شروع کیجئے، اسٹیبلشمنٹ کو کون کیا دے سکتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کسی کو کیا دے سکتی ہے،
عمران خان کو تھرڈ پارٹی متبادل بنا کر پروان چڑھانے پیش کرنے اور مینجمنٹ سے اقتدار دلانے والوں نے کیا مطلوبہ نتائج حاصل کرلئے؟ انتخابی مینجمنٹ کو میزائلوں کا تجربہ ہی سمجھ لیا گیا ہے کہ اخراجات پر سوال نہیں اٹھیں گے،
اصل بات یہ ہے کہ پنجاب سے باہر کی کسی قیادت کے پاس اسٹیبلشمنٹ کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں، الٹا بیرون پنجاب کی لیڈر شپ پنجابیوں کو "گمراہ” کرکے ایسی آئینی ترامیم کرالیتی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے لئے لوہے کے چنے ثابت ہوتی ہیں،
موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی کے پاس اسٹیبلشمنٹ کودینے کے لئے کچھ نہیں، سادہ الفاظ میں یہ کہ خود پیپلز پارٹی کے پاس حاکمیت اعلیٰ کے لئے راستہ ہموار کرنے والے صوبہ پنجاب میں کچھ نہیں ہے، کیوں نہیں ہے کا سوال ہمارے مدنظر ہے نا ہم اس پر بحث اٹھا رہے ہیں ،
اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ اسے جو کچھ درکار ہے وہ مسلم لیگ ن ہی دے سکتی ہے پنجاب میں اس کا ووٹ بینک ہے ہلکی پھلکی مینجمنٹ کی بدولت سہاگن اسلام آباد کے لئے روانہ کرنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی،
لیکن اس وقت خود مسلم لیگ ن پنجاب میں کہاں کھڑی ہے؟ جولائی 2022ء کے ضمنی انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر ہم رائے اس لئے قائم نہیں کر پار رہے کہ تب بھی اس سلسلہ میں عرض کیا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حکم پر دو بڑی ایجنسیوں نے مینجمنٹ کی اور اس کا مقصد پنجاب میں مسلم لیگ ن کے کُلی اقتدار کو روکنا تھا اس مینجمنٹ میں ترپ کا پتہ چودھری پرویز الٰہی تھے جو خود تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ تحریک انصاف میں کیوں گئے،
اب کیا نون لیگ پنجاب میں کُلی اقتدار حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ کیا آئی پی پی یعنی استحکام پاکستان پارٹی والے تحریک انصاف کے ووٹ بینک پر کسی حد تک قبضہ کر سکیں گے، اس میں تو مخصوص نشستوں پر جیتنے والی خواتین ہی الیکٹیبلز سے زیادہ شامل ہوئی ہیں،
ان باتوں کو چھوڑ دیجئے، پنجاب میں متبادل انتظام کتنی دیر چلے گا یا یوں کہہ لیجئے کہ متبادل انتظام کے پلڑے میں مینجمنٹ کے لڈو ڈال کر بھی مقاصد حاصل ہو سکیں گے؟
ایک اور اہم سوال ہے کیا مینجمنٹ اور اتحادی سیاست کے بغیر مسلم لیگ ن پنجاب میں 2013ء کی طرح واپس آسکے گی؟
یہ درست ہے کہ 2018ء کی صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ ن ایک زندہ حقیقت کے طور پر موجود تھی مگر اس وقت اس کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اس کے پنجابی ووٹرز کے دلوں پر دستک دیتا تھا، لوگ نواز شریف کو نکالنے کے عمل میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ دونوں کو عمران خان کا پشت بان بھی سمجھتے تھے، مسلم لیگ ن اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانہ سے رجوع کر چکی ہے
اسی طرح باہر (گلی محلوں اور بازاروں) کا ماحول بھی یکسر مختلف ہے،
میاں نواز شریف کی آمد پر لاہور کا استقبالی جلسہ ایک اچھا اور بڑا جلسہ ضرور تھا لیکن 10لاکھ لوگوں کو جلسہ گاہ میں اتارنے اور بیٹھانے کی توقعات پوری نہیں ہوئیں، مسلم لیگ ن ادھوری توقعات کے تجزئیہ کی بجائے مخالفین سے جس طور الجھ رہی ہے وہ درست نہیں،
چلیں بالفرض میاں نواز شریف کی مقبولیت، اسٹیبلشمنٹ کی مینجمنٹ، آئی پی پی کا پی ٹی آئی کو جھٹکا یہ سب ملکر مسلم لیگ ن کو اقتدار اعلیٰ کا مالک بنا دیتے ہیں تو جس سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری کا دور دورہ ہے اس سے نجات مل سکے گی،
یہ ممکن ہوتا تو پی ڈی ایم کے سولہ ماہ کے عرصہ اقتدار میں ابتدائی باب تو لکھا گیا ہوتا، میاں نواز شریف کے سمدھی جو حکومت ملنے پر یقیناً ایک بار پھر وزیر خزانہ ہوں گےاسحق ڈار تو کہہ رہے ہیں کہ معاشی اصلاح احوال کے لئے کم ازکم 10برس درکار ہیں، تو کیا نیا انتظام 10 برسوں کے لئے ہوگا،
ہوگا تو کیسے، ہمارا عمومی مزاج تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں تین سال بعد مقبول ترین حکومت کے لتے لینے کا پروگرام شروع ہو جاتا ہے، بھٹو صاحب کے اقتدار کے تیسرے برس میں ان کے خلاف اتحاد بن گیا تھا اس اتحاد کی سول نافرمانی تحریک سیلاب کی وجہ سے دم توڑ گئی پھر یو ڈی ایف بنا جس نے آگے چل کر پاکستان قومی اتحاد کی شکل اختیار کی،
1988ء سے 1999ء کے درمیانی دس برسوں میں کیا ہوا، 2008اور 2013ء کے بعد طریقہ واردات تبدیل کیا گیا دونوں ادوار میں مینجمنٹ کے ذریعے عدلیہ اور میڈیا دونوں کو منتخب حکومتوں کے لئے قصائی بنا دیا گیا،
اسٹیبلشمنٹ کے تخلیق کردہ دیوتا عمران خان اور گاڈفادرز میں تنازعہ کیوں شروع ہوا، ان ساری باتوں پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے،
حق حاکمیت کے شوق میں اب تک کے سارے سیاسی وغیر سیاسی تجربے الٹ کر گلے پڑے یہی پورا سچ ہے،
مگر 15سال عمومی اور 10 برس خصوصی طور پر میڈیا وعدلیہ مینجمنٹ کے ذریعے سیاسی عمل کی جو مٹی پلید کی گئی وہ سوچ اب بھی بدرجہ اتم موجود ہے بلک اس میں نئے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کا "گڑ” بھی شامل ہے،
ان حالات میں توقعات کیسے پوری ہوں گی اور خوابوں کو تعبیر کیسے ملے گی یہ چھبتا ہوا سوال ہے اس کے جواب میں ہی مستقبل کا منظر نامہ محفوظ ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر