نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تہران یونیورسٹی: فیکلٹیز، شعبہ جات اور غیرملکی طلباء(24)||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لائبریری سے باہر نکلتے ہوئے منظر نقوی ڈاکٹر علی شہیدی سے پوچھتے ہیں کہ کیا یونیورسٹی آف تہران میں غیرملکی طلباء بھی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ ڈاکٹر شہیدی کہنے لگے کہ ہماری یونیورسٹی میں غیرملکی طلباء کی ایک بڑی تعداد تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ ان کے جواب کے ساتھ ہی نقوی صاحب نے دوسرا سوال کر دیا۔ بالعموم یہاں پر کن ممالک کو داخلہ ملتا ہے؟ اس سوال پر ڈاکٹرشہیدی بتانے لگے کہ یہاں تمام براعظموں سے طلبا آتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایشیا، افریقہ، اسٹریلیا،لاطینی امریکہ، یورپ اور امریکہ سے طلباء آ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہ طلباء افغانستان، عراق، ترکیہ، جاپان، چین، شام،اٹلی، آرمینیا، کوریا، ہالینڈ، اسٹریلیا، پاکستان، فرانس، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، اٹلی، بحرین، بھارت، جرمنی، مصر، میکسیکو، اومان،نائیجیریا ، ویت نام، سربیا، جارجیا، سوڈان، لبنان، سینیگال، سنگاپور، انڈونیشیا، ملائشیا اور بہت سے دیگر ملکوں سے آتے ہیں اور اس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ ڈاکٹر شہیدی جب اتنے ممالک سے غیرملکی طلبہ آتے ہیں تو وہ رہائش کہاں اختیار رکھتے ہیں؟ ڈاکٹر شہیدی بتانے لگے کہ یونیورسٹی کے ارد گرد بہت سے ہاسٹل ہیں جہاں ملکی اور غیرملکی طلباء و طالبات کیلئے رہائش اختیار کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ ان ہاسٹلز میں بڑی تعداد میں کمرے ہوتے ہیں جو طلباء کیلئے دستیاب ہوتے ہیں۔ کارگر ہاسٹل میں 10 ہزار طلبا کی رہائش اختیار کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دیگر ہاسٹل ہیں، جہاں طلبہ اور طالبات کو الگ الگ محفوظ رہائشی سہولتیں دی جاتی ہیں۔
میرے ذہن میں ایک اور سوال کلبلانے لگا،” یہاں داخلے کیلئے طلباء کا فارسی جاننا بھی تو ضروری ہوتا ہوگا۔ ایسے بڑے مسئلے کو کیسے حل کیا جاتا ہے؟
ڈاکٹر شہیدی نے بڑے اطمینان سے کہا کہ یہاں پر فارسی پڑھانے کا ایک بہت ہی باوقار ادارہ موجود ہے۔ یہاں کا انٹرنیشنل سنٹر فار پرشیئن اسٹڈیز فارسی زبان سکھانے اور فارسی میں تعلیم دینے کا بہت بڑا ادارہ ہے۔ یہاں فارسی میں ہر سطح کی تعلیم کا بندوبست موجود ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر سید جعفر شہیدی نے بے مثال کام کیا۔ اُن کا نام ایران میں بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔انہوں نے فارسی زبان و ادب کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے تاریخ اسلام کی ترتیب اور تدوین میں بنیادی نوعیت کا کام کیا۔ وہ یونیورسٹی آف تہران کی فیکلٹی برائے ادبیات و انسانی علوم کے ڈین تھے۔ انہوں نے فارسی کی تدریس کیلئے جدید طریقے اختیار کئے۔انہوں نے دھخدالغت نامہ ومرکز بین المللی آموزش زبان فارسی کے نام کے ادارے میں کام کیا اور اس کو چار چاند لگا دیئے۔یہ ادارہ مرزا علی اکبر غزنوی کے نام پر قایم کیا گیا جو دھخدا کے نام سے مشہور تھے۔ وہ ایران کی نامور ادبی شخصیت، شاعر اور ایک بڑے اسکالر تھے۔پروفیسر جعفر شہیدی نے اس شعبہ کے ڈائرکٹر کے طور پر شاندار خدمات انجام دینے کیلئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ انہوں نے اسلامی نظام قانون میں بھی بڑی مہارت حاصل کی۔ جعفر شہیدی مرزا علی اکبر دھخدا اوربدیع الزمان فرونزافر کے سچے اور حقیقی پیروکار تھے۔ انہوں نے قم اور نجف اشرف میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔

Advertisement

   
ہم تہران یونیورسٹی میں غیرملکی طلباء کے داخلے، رہائش کی سہولتوں اور فارسی کی تدریس کے بارے میں باتیں کرتے کرتے لائبریری کی عمارت سے باہر ایک سڑک پر آجاتے ہیں۔ ہمیں ہر طرف یونیورسٹی پھیلی نظر آتی ہے۔ قدیم اور جدید طرزِ تعمیر کی آمیزش سے فیکلٹیز کی عمارتوں سے سادگی اور وقار چھلک رہا ہے۔ یہاں غالباً تعطیلات کے باعث تدریسی عمل معطل ہے۔ کہیں کہیں طلباء و طالبات نظر آجاتے ہیں جو غالباً غیر تدریسی دفتری معاملات کے سلسلے میں آئے ہو ئے ہیں۔
یونیورسٹی آف تہران کی 39 فیکلیٹیز اور 120 شعبہ جات ہیں۔ اس یونیورسٹی کے سات کیمپس ہیں جو تہران کے علاوہ قم، کرج اور کیش میں واقع ہیں۔ کیش خلیج فارس میں ایک ایرانی جزیرہ ہے جس کا مجموعی رقبہ ہمارے ہاں کے کسی گاؤں کے رقبہ کے برابرہے یہ جزیرہ فری ٹریڈ زون ہے۔ میں نے اس جزیرے کا بیس سال پہلے 2003ء میں سفر کیا تھا۔ جب میں وہاں گیا تھا اس وقت اس جزیرے کی آبادی 18 ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور اب وہاں کی آبادی دگنی سے بھی زیادہ ہوکر 40 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ یہاں ایک بندرگاہ اور ایئرپورٹ کے علاوہ اس جزیرے کی اپنی کیش ایئرلائن بھی ہے مگر ہم ایران ایئر کی پرواز سے وہاں گئے تھے۔ کیش میں تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی بعد میں بنی۔ جب ہم وہاں گئے تھے تو اس جزیرے کی اپنی کیش یونیورسٹی میں بھی گئے تھے۔ کیش میں تہران یونیورسٹی کا بین الاقوامی کیمپس ہے۔
تہران یونیورسٹی میں طلباء وطالبات کی تعداد کے بارے مختلف اندازے اور تخمینے لگائے جاتے ہیں مگر آج سے سات سال پہلے 2016ء میں یہاں پر طلبہ کی تعداد 55 ہزار 297 تھی۔ یہاں پر داخلے کیلئے کم از کم جی پی اے 2.8 ہونا لازمی ہے۔ داخلے کے خواہشمند طلبہ کیلئے اسپورٹس اور کمیونٹی سروسز میں شرکت کرنا ضروری ہے۔ اس سے داخلے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہاں پر دنیا کی دیگر یونیورسٹی کی طرح جی پی اے کی حد4 ہے۔ تہران یونیورسٹی لگ بھگ 90 سال پہلے 1934ء میں قائم ہوئی۔ پہلے فارسی میں اسے مدرسہ کہا گیا بعد میں اس کا نام دانشگاہ تہران رکھا گیا جبکہ فیکلٹی کو دانشکدہ کہا جانے لگا۔ یہاں کی فیکلٹی آف میڈیسن کو دانشکدۂ پیزسکی اور فیکلٹی آف لاء اینڈ پولیٹیکل سائنس کو دانشکدۂ حقوق و علومِ سیاسی کہا جاتا ہے۔ فیکلٹی آف لیٹرز کو دانش کدۂ ادبیات اور فیکلٹی آف سائنس کو دانشکدۂ علوم کا نام دیا گیا ہے۔ فیکلٹی آف انجینئرنگ دانشکدۂ فنی کہلاتی ہے یہاں پر فیکلٹی آف اسلامک اسٹدیز کو دانشکدۂ معقول و منقول کہا جاتا تھا بعد میں اس کا نام دانشکدۂ الیہات رکھا گیا۔ یہاں فیکلٹی آف سوشل اسٹڈیز کا فارسی نام دانشکدۂ علومِ اجتماعی و تعاون رکھا گیا ہے۔
یونیورسٹی کی زرعی فیکلٹی کرج شہر میں قائم ہے۔ اسے دانشکدۂ کیسرورزیِ کرج کا نام دیا گیا ہے۔ 1940ء اور 1970ء کے درمیان یونیورسٹی میں مختلف نئی فیکلٹیز کا اضافہ کیا گیا جن میں سے فیکلٹی آف فائن آرٹس بھی شامل تھی، اسے فارسی میں ہنرکدۂ ہنرہائے زیبا کا نام دیا گیا۔ 1956ء میں شعبۂ ڈینسٹری اینڈ کو شعبۂ طب سے الگ کرکے ایک الگ فیکلٹی بنا دیا گیا۔
ہم ڈاکٹر علی شہیدی کے ساتھ چلتے چلتے اس یونیورسٹی کی ایک اہم فیکلٹی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ فیکلٹی برائے ادبیات و انسانی علوم ہے۔ ڈاکٹر علی شہیدی تہران یونیورسٹی کے بین الاقوامی امور کے مشیر ہونے کے ساتھ ساتھ قدیم ایرانی ثقافت اور ایرانی زبانوں کے شعبہ کے سربراہ بھی ہیں۔ ہماری نظرایک خاصے لمبے چبوترے کے اوپر بنے ایک مجسمے پر پڑتی ہے۔ ہم اس شخصیت کا مجسمہ کہیں اور بھی دیکھ چکے ہیں مگریہاں پرفیکلٹی برائے ادبیات کے سامنے یہ مجسمہ بہت باوقار لگ رہا ہے۔(جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

About The Author