نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مقامی حکومتوں کا مقدمہ۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمہوریت اور سیاست سے واجبی سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ جمہوریت کے پودے کی جڑیں مقامی حکومتی نظام میں پیوست ہوتی ہیں۔ کوئی بھی سیاسی نظام ہو‘ خلا میں تو وجود میں نہیں آتا۔ عملی طور پر اس کی ابتدا اور انتہا مقامی لوگ ہی ہوتے ہیں۔ ہزاروں برسوں سے قدیم مملکتوں میں حکومتیں شہری ہوا کرتی تھیں۔ یونان جو آج بھی ایک چھوٹا سا ملک ہے‘ اس میں کئی شہری ریاستیں تھیں۔ سب شہری اسمبلی کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ مشاورت ہوتی تھی‘ قانون اور قواعد بنتے تھے‘ ترقی کی راہیں ہموار کرنے کیلئے وسائل اکٹھے کیے جاتے تھے ا ور ضرورت پڑنے پر سب شہری اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے لیے میدان میں آجاتے تھے۔ ان مقامی شہری ریاستوں میں جس ادب‘ فلسفے اور دیگر علوم کی ترویج ہوتی‘ آج کی جدید دنیا اب بھی ان کے عملی خزانوں سے فیض یاب ہورہی ہے۔ یورپ میں رومی کلیسائی سلطنت کے عروج اور اس کی ٹوٹ پھوٹ سے لے کر قومی ریاستوں کی تشکیل تک مقامی حکومتوں کو ریاستی ڈھانچے میں بنیاد ی حیثیت دی گئی۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کے بڑی دیر تک رہنے والے ایک مشہور سپیکر‘ٹپ اونیل (Tip O’ Neil) تھے‘ جن کی کتاب کا عنوان”سب سیاست مقامی ہوتی ہے‘‘ تھا۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس سے کوئی سیاسی نابالغ یا کوئی کوڑھ مغز مفاد پرست ہی انکار کرسکتا ہے۔ مقامی حکومتیں ہی لوگوں کے قریب ہوتی ہیں۔ ان کے مسائل سے باخبر رہتے ہوئے مقامی وسائل سے سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سکول‘ پارک‘ سڑکیں‘ تفریحی مقامات کی دیکھ بھال‘ کتب خانے‘ مقامی طور پر پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظام‘ کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانا اور مقامی تاریخی ورثے کی حفاظت بھی شامل ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں ان کا دائرہ کار بہت وسیع ہے جس میں عدالتی نظام‘ پولیس‘ فائر بریگیڈ‘ مکانات کی تعمیر کی منظوری اور ماحولیات کا انتظام بھی شامل ہے۔ ہر مقامی حکومت اپنی کائونٹی‘ شہر یا قصبے کے لیے خود قانون سازی کرتی ہے۔ وہاں تو سکولوں کے بورڈز‘ اساتذہ کی بھرتی اور تعلیم کا معیار قائم رکھنے کی ذمہ داری بھی مقامی حکومتوں کی ہوتی ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقات مغرب میں صرف سیرو سیاحت کے لیے جاتے ہیں‘ بلکہ کچھ تو وہاں مستقل طور پر رہائش بھی رکھتے تھے۔ انہیں سب پتا ہے کہ برطانیہ میں مقامی حکومتیں کس طرح کام کرتی ہیں اور ان کا مغربی جمہوریت میں کیا مقام ہے۔ آپ ذرا یورپ اور امریکہ کے بڑے شہروں‘ جیسا کہ نیویارک‘ لندن اور پیرس کے میئرز اور وہاں کی شہری حکومتوں کو دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے کہ لاہور میں جو کام وزیر اعلیٰ صاحب نے اپنے ذمے لیے ہوئے ہیں‘ وہ دراصل شہر کے میئر کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے جس قسم کے بھی حکمران آتے جاتے رہے ہیں‘ وہ اختیارات کو اپنی ذات تک‘ صرف اپنے ہاتھوں میں مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ اختیارات کی تقسیم انہیں اس لیے گوارا نہیں کہ نچلی سطح پر مقامی حکومت عوام کے قریب ہوجائے گی۔ وہ تو صوبوں کے وسائل اپنے ہاتھ میں رکھ کر سرپرستی کی سیاست کرتے رہے ہیں۔ ہمارے پارلیمانی نظام میں ان کا حلقۂ انتخاب اسمبلی کے اراکین ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ مقامی حکومتیں قائم ہوں‘ ان کے پا س وسائل ہوں اور وہ عوام کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ جب بھی ایسا ہوا ہے‘ یا آئندہ ہ کبھی ہوگا‘ تو ترقیاتی فنڈز صرف مقامی حکومتوں کو ملیں گے۔ اور پھر وہاں سے جو قیادت ابھرے گی‘ اگر چہ وہ بھی ہم نے دیکھا ہے کہ حکمران سیاسی گھرانوں سے ہی آتے ہیں‘ تو اراکینِ اسمبلی کی مقامی طور پر اہمیت کا کم ہونا فطری بات ہے۔ سب سے بڑا مفاد ترقیاتی فنڈز اور اس کے ساتھ جڑے حصے میں ہے جو اوپر سے لے کر نیچے تک تقسیم ہوتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اگر پہلے کوئی مقامی حکومتیں تھیں تو نئی آنے والی حکومت سب سے پہلے ان کا خاتمہ کردیتی ہے۔ تحریک انصاف نے پنجاب میں بالکل یہی کچھ کیا تھا۔ جو پہلے والی حکومتیں کرتی رہی تھیں۔ اس ضمن میں کسی کو استثنا حاصل نہیں۔
ہماری سیاسی جماعتوں اور ان پر قابض موروثی سیاسی گھرانوں کے مفادات جو بھی ہوں اور جو بھی سیاست وہ کریں‘ ہم تو اس معیار پر پرکھیں گے کہ وہ ملک کے لیے کیا کررہے ہیں‘ کیا کچھ کرپائے ہیں او ر آئندہ کی منصوبہ بندی کیا ہورہی ہے یا ان کے پاس کیا پروگرام ہے۔ اس لحاظ سے اگر تمام سیاسی جماعتوں کے منشوروں کو دیکھیں تو سب مقامی حکومتوں کے قیام کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتی ہیں۔ مگر جب اقتدار ہاتھ میں آتا ہے تو عملی طور پر کچھ بھی نہیں کرتے۔ اس ملک میں جمہوریت اور ترقی پسند دانشور ہمیشہ مقامی حکومتوں کے حق میں لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔دانش مند حلقے جانتے ہیں کہ ہماری جمہوریت کی راہ میں حائل اصل رکاوٹ کیا ہے۔ اس سلسلے میں جو کام سلمان عابد صاحب نے علمی اور عملی میدان میں کیا ہے‘ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ عملی طور پر وہ کئی دہائیوں سے ملک کے کونے کونے میں مجالسِ مشاورت‘ سماجی تنظیموں کی مقامی حکومتوں کے قیام کے حوالے سے تربیتی سمینار اور مکالموں کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔ اس درویش کو بھی ان میں سے کچھ مشاورتی اجلاس میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ نجانے کتنے مضامین اخباری کالموں کی صورت مقامی حکومتوں کی اہمیت پر لکھے ہیں۔ ایک عرصے سے وہ ”مقامی حکومتوں کا مقدمہ‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھنے میں مصروف تھے۔ اس کا مسودہ‘جو گزشتہ سال میری نظروں کے سامنے سے گزرا تھا‘ آج وہ ایک خوبصورت کتاب کی صورت انہوں نے عنایت کیا۔ ایک زمانہ تھا کہ شعبہ سیاسیات‘ جامعہ پنجاب میں مقامی حکومتوں پر ایک کورس پڑھایاجاتا تھا۔ دنیا کی دیگر جامعات میں تاریخ‘ ثقافت‘ سیاست اور حکومت اور مقامی حوالوں سے پڑھائی جاتی ہیں۔ میرے نزدیک یہ کتاب طلبہ اور اساتذہ کے لیے اس میدان میں اساسی نصاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ نہایت ہی جامع لیکن مختصر انداز میں دنیا بھر کی مقامی حکومتوں کی روایات کے ساتھ پاکستان میں قائم ہونے والی مقامی حکومتوں اور ان کو بیک جنبش قلم ختم کرنے کی سب روداد موجود ہے۔ یہ کام سیاسی سے زیادہ علمی اور فکری نوعیت کا ہے۔ہر باب اور ہر صفحہ دعوت ِفکر دیتا ہے کہ مقامی حکومتوں کو استوار کیے بغیر ہم جمہوریت کا راستہ ہموارنہیں کرسکے اور نہ ہی کرسکتے ہیں۔ سیاسی روایات‘ قوانین اور اختیارات کو سامنے رکھتے ہوئے سلمان عابد صاحب دلیل دیتے ہیں کہ اگر ملک میں جمہوریت کو آگے بڑھانا ہے تو اس کی پہلی کنجی مقامی حکومتوں کے جمہوری نظام سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ ہماری سیاست اور جمہوریت میں کئی تضادات کی بات کرتے ہیں کہ ایک طرف تو ہمارے سیاستدان مرکز کی حد تک عدم مرکزیت کی بات کرتے ہیں مگر صوبوں میں جب ان کی حکومتیں قائم ہو جائیں تو عدم مرکزیت کا منشور اور فلسفہ کراچی‘لاہور‘ پشاور اور کوئٹہ کی حدود میں دم توڑ جاتا ہے۔ صاف بات ہے کہ جب آئین اور جمہوریت کی موروثی سیاسی گھرانوں کے سامنے اہمیت ذاتی مفادات کی حد تک ہے تو مقامی حکومتوں کی خود مختاری اور اختیارات کی تقسیم کو وہ کیوں کرقبول کریں گے۔ سلمان عابد صاحب نے تو تاریخ میں اپنی گواہی لکھ دی ہے۔ آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author