جماران میں علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کا گھر اور عجائب گھر
آج کے پروگرام کا پہلا حصہ پہلے ہی بتا دیا گیا تھا۔ آج منگل ہے اور جولائی کی 11ویں تاریخ۔ میں اپنے معمولات کے مطابق صبح جلدی اُٹھ جاتا ہوں اور نہا دھو کر ناشتہ کرنے ہال میں پہنچ جاتا ہوں، ناشتہ سے فارغ ہو کر ہوٹل کی لابی میں بیٹھ جاتا ہوں۔ میرا فون صرف ہوٹل کی لابی میں ہی میرا ساتھ دیتا ہے۔ میرے پاس جس کمپنی کا فون ہے۔ اس کمپنی کے فون ایران میں صرف مجھ جیسے مسافروں کے پاس ہی ہوتے ہیں۔ یہ فون ایران میں عام نہیں ہیں۔ اس لئے میرے ہمسفر دیگر دوستوں کے فون تو ہر جگہ کام کرتے ہیں مگر میرے فون میں ہر جگہ کانیٹ ورک کام نہیں کرتا۔ جناب منظر نقوی اور میں نے ایران پہنچتے ہی سب سے پہلے ہوٹل سے باہر آ کر ایران کی سمیں حاصل کی تھیں اور اس کام میں خاصا وقت اور سرمایہ بھی لگا تھا مگر میرے فون نے لابی کے باہر چند ایک مرتبہ ہی میرا ساتھ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ تصویریں بنانے کیلئے میرا فون زیادہ کارگر ثابت ہوا۔ میں لابی سے واٹس اپ پر گھر بات کرتا ہوں اور اہل خانہ کی خیرخیریت جان کر اطمینان کی سانس لیتا ہوں۔
آج محمد رضا شعبانی پھرنہیں آئے۔ آج علی فاطمی اور ڈرئیور محمد بھائی آئے ہیں۔ میں لابی سے اُٹھ کر ناشتے کے ہال میں آجاتا، وہاں پر جناب منظر نقوی ناشتہ کر رہے ہیں اور سید زین نقوی اور اویس ربانی تھوڑی دیر میں پہنچنے والے ہیں۔ منظر نقوی صاحب مجھ سے ناشتے کا دوسرا دور چلانا کیلئے کہتے ہیں مگر میرے اندر دوبارہ ناشتہ کرنے کی ہمت اور گنجائش نہیں۔
سب ناشتے سے فارغ ہو کر اپنے اپنے کمروں کا چکر لگا کر گاڑی میں آکر بیٹھ گئے۔ اب ہم جماران جا رہے ہیں۔ میں اس علاقے میں لگ بھگ 22 یا 23 سال بعد آ رہا ہوں۔ جب پہلی بار یہاں آیا تھا تو اس سفر کا اہتمام برادرم شہنشاہ جعفری کی معرفت اور انہی کی کوششوں سے کراچی کے ایران کے قونصل خانہ نے کیا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا قافلہ تھا۔ جس میں سینیٹر وقار مہدی، سینیٹر مسرور احسن، آغا مسعود حسین، مشتاق احمد فریدی، حبیب الدین جنیدی، سلیم برہان، مہدی حسن اور دیگر درجنوں دوست شامل تھے۔ ہم نے کراچی سے زاہدان تک ایک بڑی کوچ میں سفر کیا تھا اور زاہدان سے بذریعہ ہوائی جہاز تہران پہنچے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ یکم جون تھا اور ہم مہرآباد کے ہوائی اڈے پر سردی سے تھرتھر کانپ رہے تھے۔ انہی ایام میں ہم جماران بھی آئے تھے۔
جماران کوہِ البرز کے دامن میں واقع ہے۔ ہمارا ہوٹل بھی کوہ البرز کے دامن میں ہی ہے۔ ہوٹل اور جماران کا فاصلہ یہی کوئی چھ سات کلو میٹر رہا ہوگا۔ جب ہم پہلی بار جماران آئے تھے تو اس وقت کوچ نے ہمیں ایک تنگ سی گلی کے کونے پر اُتارا تھا مگر اب وہ گلی قدرے کشادہ ہو چکی ہے۔ پہلے اس گلی کی اہمیت یہ تھی کہ یہاں انقلابِ ایران کے بعد رہبر انقلاب آیتہ اللہ خمینی نے ایک چھوٹے سے دو کمروں کے گھر میں رہائش اختیار کی تھی۔ اس کے علاوہ یہاں حسینیہ امام بارگاہ ہے جہاں رہبرِ انقلاب عوام وخواص سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے اور اسی علاقے میں وہ اسپتال اور اس کا وہ بستر بھی موجود تھا جہاں آیتہ اللہ خمینی کا انتقال ہوا تھا۔ اب اس گلی کی ایک اور اہمیت یہ بھی بن گئی ہے کہ اسی گلی میں وہ گھر بھی واقع ہے جہاں انقلابی قیادت کی ایک مرکزی شخصیت اور ایران کے سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی قیام کرتے تھے اور تہران میں یہی مکان اُن کا گھر ہوا کرتا تھا۔ اب اس گھر کو میوزیم میں بدل دیاگیا ہے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جب عراق میں نجف اشرف سے آیتہ اللہ خمینی نے انقلابی جدوجہد کا آغاز کیا تو ایران میں ایک پانچ رکنی خفیہ سپریم کونسل ایرانی عوام اور نجف اشرف میں موجود قیادت کے مابین رابطہ کی ذمہ داری انجام دیتی تھی۔ اس اعلی ترین کونسل کے سربراہ علی اکبر ہاشمی رفسنجانی تھے۔ انقلابی جدجہدکے عروج میں مزید پانچ ارکان شامل کیے گئے جن میں ایران کے موجودہ سپریم لیڈر آیتہ اللہ خامنہ ای بھی اُن میں سے ایک رکن تھے۔ انقلاب سے پہلے ایران میں یہی دس رکنی انقلابی کونسل آیتہ اللہ خمینی کی ہدایات کی روشنی میں انقلاب کی قیادت کر رہی تھی اور اس کونسل کی سربراہی علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے پاس تھی۔
علی اکبر رفسنجانی کا تعلق ایران کے صوبہ کرمان کے مرکزی ضلع رفسنجان سے تھا۔ 2016ء کی مردم شماری کے مطابق رفسنجان شہر کی آبادی ایک لاکھ 62 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ ساری دنیا میں خشک میوہ جات میں اخروٹ، بادام اور کاجو کے ہم پلہ سمجھے جانے والے پستہ کی سب سے بڑی پیداوار اسی ضلع رفسنجان میں ہوتی ہے۔ رفسنجان تہران سے 875 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے اور اصفہان سے اس کا فاصلہ 570 کلومیٹر ہے۔
جماران کی اس گلی میں ایک اور اضافہ امام خمینی کے نام سے موسوم کیا جانے والے عجائب گھر کا ہوا ہے۔ ہم گلی کے تنگ ہونے سے پہلے ہی گاڑی سے اُتر آتے ہیں اور آگے چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ قبل ازیں بہت پہلے اُتر کر کافی پیدل چلنا پڑتا تھا۔ انقلاب کے بعد جب عالمی سیاستدانوں کو ایران کا دورہ کرنا پڑا تو انہیں بھی آیتہ اللہ خمینی سے ملنے کیلئے اچھا خاصا پیدل چل کر آنا پڑتا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ متحدہ سوویت یونین کے آخری حکمران میخائیل گورباچوف بھی اسی گلی میں پیدل چل کر آیتہ اللہ خمینی کے گھر آئے تھے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد ہمارے گائیڈ علی فاطمی ایک گھر کے سامنے رُک گئے اور بتایا کہ یہ علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کا گھر ہے۔ علی اکبر ہاشمی رفسنجانی انقلاب کے بعد ایران کے چوتھے صدر تھے۔ ایران کے پہلے صدرابوالحسن بنی صدر موجودہ سپریم لیڈر آیتہ اللہ خامنہ ای کے بہنوئی تھے ۔ وہ صدر بننے سے قبل عبوری انقلابی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے۔ پھر صدر منتخب ہونے کے بعد اُن پر انقلاب سے غداری کا الزام لگایا گیا اور اُن کا مواخذہ ہوا مگر وہ مواخذہ کا سامنا کرنے کی بجائے ملک سے فرانس فرار ہوگئے ۔اُن کی جگہ محمد علی رجائی ایران کے دوسرے صدر منتخب ہوئے جو پارلیمنٹ پر 30 اگست 1981ء کے خودکش حملہ میں شہید ہو گئے تھے۔ اس حملہ میں تقریباً 70 ارکانِ پارلیمنٹ بھی جان بحق ہوئے تھے۔ اس حملہ کے وقت آیتہ اللہ خامنہ ای وزیراعظم تھے جو بعد ازاں ایران کے تیسرے صدر منتخب ہوئے۔ خامنہ ای کے بعد علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ملک کے چوتھے صدر منتخب ہوئے۔ صدر رفسنجانی کے دور میں ہی ایران عراق جنگ کا آغاز ہوا تھا جس کے بارے میں تفصیل کسی حد تک آپ سفرِایران کی اسی روداد میں پڑھ چکے ہیں۔
ہم علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے گھر میں داخل ہوتے ہیں جس کا رقبہ کراچی کے اعتبار سے 240 سے 300 مربع گز اور ہمارے دیہات کے اعتبار سے آٹھ یا دس مرلے رہا ہوگا۔ ہم اس سفر کے دوران علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کا مومی مجسمہ تیسری بار دیکھ رہے ہیں۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد آپ اس میوزیم میں دیواروں پر تاریخی تصویروں کے علاوہ سابق صدر کے زیراستعمال فرنیچر، ملبوسات، اسٹیشنری، اہم کاغذات، برتن، کراکری، تعلیمی اسناد، مختلف سرکاری دستاویزات، کتابیں اور دیگر اشیاء ایک ترتیب سے رکھی ہوئی دیکھ سکتے ہیں۔ اس میوزیم میں صدر رفسنجانی کے گھر کے ڈرائینگ روم کو اس کی اصل شکل میں جوں کا توں رکھا گیا ہے۔ڈرائینگ روم میں الگ پڑی ایک کرسی پر میوزیم کا ایک اہلکار بیٹھا ہے، جسے میں میوزیم کے ایک حصے کے طور پر ایک مجسمہ ہی سمجھ رہا تھا۔ ڈرائینگ روم کے پردوں کی سادگی میوزیم کے حُسن میں اضافہ کر رہی ہے۔ علی فاطمی صدر رفسنجانی کے مجسمے کے ساتھ میری اور منظر نقوی صاحب کی تصویریں بناتے ہیں۔ ایک کمرے میں ایک سادہ سی صوفہ نما کرسی رکھی ہے جس پر صدر رفسنجانی بیٹھ کر ملنے کیلئے آنے والوں سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ ساتھ ہی فرشی نشست کیلئے گدے اور تکئے بھی بچھے ہوئے ہیں۔ ایک دیوار پر صدر رفسنجانی کے اہلِ خانہ کی تصویریں لگی ہوئی ہیں۔ دیواروں پر اسرائیلی مظالم کے ستائے فلسطینی لوگوں خواتین وحضرات کی تصویریں بھی لگی ہوئی ہیں۔ ہم جب پہلی بار جماران آئے تھے تو اس وقت بھی علی اکبر ہاشمی رفسنجانی اسی گھر میں رہتے تھے مگر اس وقت ہم اس سے بے خبر تھے۔ اور یوں بھی وہ اس وقت تاریخ بننے کے عمل سے گزر رہے تھے۔ ایک دیوار پر صدر رفسنجانی کے ہاتھ سے لکھے ہوئے خطوط اور دوسری تحریریں بھی خُوبصورت فریم میں لگائی گئی ہیں۔ ہم نے جو خوشخطی غالب، اقبال اور فیض کے خطِ نستعلیق میں لکھے گئے خطوط میں دیکھی، صدر رفسنجانی کے خطوط بھی ویسی ہی خوشخطی میں لکھے گئے ہیں۔ ڈائیننگ روم میں ڈائیننگ ٹیبل کے گرد آٹھ کرسیاں رکھی ہیں۔ بعض تصویروں میں وہ عالمی سربراہوں سے مصافحہ کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ جن میں سعودی بادشاہ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز، شام کے صدر بشارالاسد اور دیگر افریقی اور لاطینی امریکی حکمران شامل ہیں۔ اس گھر کی بالائی منزل پر صدر رفسنجانی کی زندگی کی یادگار نشانیاں موجود ہیں۔ ہمارے سب دوستوں نے اس عجائب گھر کے عجائبات میں گہری دلچسپی لی۔ پھر ہم اس گھر سے باہر نکل آئے۔ ہم نے چند قدم اور چلنا ہے جہاں ایک اور عجائب گھر موجود ہے اور اس عجائب گھر کی ایک ایک چیز سے تاریخ کا مکالمہ ہو رہا ہے۔ وہ وقت قیدی کی صورت میں ہمارےسامنے آجاتا ہے جو ہمارے سامنے بیتا اور کہیں کہیں تو خود ہمارے اوپر بیتا ہے (جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر