نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خودکشی کریں یا بغاوت؟ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیپرا نے سال 2022-23ء کی چوتھی سہ ماہی کے لئے بجلی کے فی یونٹ قیمت میں 5روپے 40 پیسے اضافے کی منظوری دیدی ہے۔ بجلی کے فی یونٹ قیمت میں مستقل طور پر لگ بھگ ساڑھے 4 روپے اضافے کی درخواست کی سماعت 30 یا 31 اگست کو ہونی ہے۔ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر تقریباً ساڑھے پانچ روپے فی یونٹ قیمت بڑھانے کا فیصلہ مختلف درجات کے صارفین میں سے کسی کے لئے بھی قابل برداشت نہیں ہے۔

پچھلے دو تین دن سے مختلف شہروں میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ اس ماہ کے بھیجے گئے بلوں میں ڈالے گئے اضافی یونٹوں کی وجہ سے موصول ہونے والے بھاری بھرکم بلوں نے صارفین کی چیخیں نکلوادی ہیں۔

ہمارے پالیسی ساز تو ایک بات کہہ کر جان چھڑالیں گے کہ یہ اضافہ آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کی مجبوری ہے۔ یقیناً مجبوری ہی ہے لیکن اپنے لوگوں کی اوسط ماہانہ آمدنی اور پھر آمدنی و اخراجات میں عدم توازن سے پیدا ہوئے مسائل کیا ہیں انہیں فیصلہ سازی اور معاہدوں کے وقت سامنے رکھنے کی ضرورت نہیں؟

پی ڈی ایم و اتحادی حکومت نے اپنے سولہ ماہ کے دور اقتدار میں بجلی، گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں مسلسل اضافے پر یہی رونا رویا کہ پچھلی (پی ٹی آئی) حکومت کے سربراہ نے آئی ایم ایف کے معاہدے کے برعکس پٹرولیم و بجلی میں سبسڈی دی جو صریحاً نامناسب اقدام تھا اس سے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ اعتماد سازی میں کمی ہوئی۔

یہ امر بجا طور پر درست ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے سربراہ وزیراعظم عمران خان نے پٹرولیم پر فی لٹر 10روپے اور بجلی کے فی یونٹ پر 5 روپے کی سبسڈی دیتے وقت اپنی ہی حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدے کو مدنظر نہیں رکھا تھا اسی وجہ سے جنوری 2023ء میں آئی ایم ایف نے قرضہ پروگرام کی 96 کروڑ ڈالر کی قسط روک لی۔

آئی ایم ایف اور پی ٹی آئی حکومت کے درمیان تنازع دسمبر 2021ء میں اس وقت شروع ہوا جب عالمی مالیاتی ادارے نے الزام لگایا کہ پاکستانی حکومت نے قرضہ پروگرام کے تحت حاصل کی گئی دو اقساط کی رقم میں سے معاہدہ کے برعکس کچھ رقم دفاعی مدوں میں استعمال کی ہے ۔

کہا گیا کہ معاہدہ کے برعکس استعمال کی گئی رقم کا کچھ حصہ میزائل پروگرام اور کچھ دفاعی شعبہ کی تنخواہوں کے لئے استعمال ہوا۔ گو حکومت نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا تھا مگرمحض تردیدی بیان جاری کردینا کافی نہیں تھا اس وقت کے وزیر خزانہ کا فرض تھا کہ وہ شواہد کے ساتھ آئی ایم ایف کے کنٹری ہیڈ اور بورڈ سے رجوع کرتے۔

جنوری فروری 2022ء میں جب سبسڈی دیئے جانے کے معاملے پر اختلافات بڑھے اور 96 کروڑ ڈالر کی قسط روکنے کا اعلان کیا گیا تو میں نے ان سطور میں عرض کیا تھا کہ

"حکومت کو دو باتوں کی وضاحت کرنا چاہیے اولاً یہ کہ معاہدے کے برعکس پٹرولیم و بجلی پر سبسڈی کیوں دی نیز اگر قرضے کی رقم کا کچھ حصہ واقعی دفاعی مدوں پر صرف نہیں ہوا تو ان متعلقہ شعبوں کے اعدادوشمار سامنے لائے جائیں جن پر رقم صرف ہوئی” ۔

ثانیاً یہ کہ

"یہ بھی بتایا جائے کہ آئی ایم ایف معاہدے کی اس شق پر کتنا عمل ہوا جس کے تحت دفاعی شعبہ سمیت تمام وزارتوں اور فوجی فائونڈیشن کے مختلف کاروباروں کے محفوظ منافع کی رقم اور وزارتوں کی فاضل رقوم سٹیٹ بینک میں جمع کرائی جانی تھیں اس پر کیا پیش رفت ہوئی ” ۔

یاد رہے کہ معاہدے کے مطابق دفاعی شعبہ سمیت دیگر وزارتوں اور کاروباری فائونڈیشنوں کی اضافی رقم سٹیٹ بینک میں جمع کرانے کا معاملہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے معاہدہ کا حصہ تھا۔

اس کے مطابق اسٹیٹ بینک کے پاس موجود رقم میں سے ضرورت کی صورت میں رقم نکلوانے کے لئے بینک کو 15دن قبل تحریری طور پر ضرورت کی تفصیل سے آگاہ کرنا ضروری تھا۔ بہرطور پی ٹی آئی حکومت اور آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی سے پیدا ہوئے مسائل اپنی جگہ موجود تھے کہ پی ڈی ایم و اتحادی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے۔

تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی اس کی جگہ اتحادی آگئے۔ آئی ایم ایف سے اعتماد سازی کے نام پر ان کے 16ماہ کے دور اقتدار میں جو کچھ ہوا وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات اور معاہدہ طے پانے کے درمیانی عرصہ میں قدم قدم پر سابق حکمران جماعت کو ہر مسئلہ کا ذمہ دار قرار دیا۔

ہم مسلسل ان سطور میں عرض کرتے رہے کہ ناتجربہ کاروں کے پیدا کئے ہوئے مسائل کا حل تجربہ کار کیوں نہ تلاش کرسکے اور کیا وجہ ہے کہ ماضی کے مقابلہ میں سخت شرائط کا معاہدہ عوام کے گلے کا طوق بنایا جارہا ہے؟

یہ بھی عرض کیا تھا کہ عوام کو زندہ درگور کرنے کی بجائے مختلف وزارتوں اور دفاعی شعبہ کے نجی کاروباروں سے حاصل شدہ اضافی رقم (یہ رقم متعلقین کے پاس ہی ہے) اسٹیٹ بینک میں جمع کرانے میں امر مانع کیا ہے؟

حالانکہ اگر یہ رقم اسٹیٹ بینک میں محفوظ ہو تو ڈالر کی شرح تبادلہ کے حساب سے محفوظ ذخائر کا حصہ ہی ٹھہرے گی۔ تب انہی دنوں میں اتحادیوں کی اندھی محبت میں گرفتار بعض دوستوں کا خیال تھا کہ

’’ہمیں سمجھنا چاہیے کہ مسائل پی ٹی آئی نے پیدا کئے ہیں‘‘۔

سو یہ عرض کرنا ضروری ہوگیا کہ پھر تو تحریک عدم اعتماد ہرگز نہیں لانا چاہیے تھی۔

آئی ایم ایف حکومت پاکستان پر معاہدے کی خلاف ورزی اور مختلف مدوں کی فاضل رقوم اسٹیٹ بینک میں نہ رکھوانے پر جو بھی کارروائی کرتا اس سے پی ٹی آئی کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ براہ راست متاثر ہوتے۔ ہوتے تھے تو ہونے دیا جاتا شہریوں پر مزید عذاب توڑنے کی کیا افتاد آن پڑی تھی۔

حوالہ جات کچھ تفصیلی ہوگئے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس ملک میں شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بجلی، پٹرولیم اور سوئی گیس کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں۔

پی ٹی سی ایل نے اپنی خدمات کے ماہانہ حق میں کچھ اضافہ کیا ہے۔ ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتیں سن کر اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔

خود وفاقی ادارہ شماریات یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ جون میں ختم ہونے والے مالی سال اور موجودہ مالی سال کے اب تک کے عرصہ میں جتنی مہنگائی ہوئی اس نے 50سال کا ریکارڈ توڑدیا۔

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہمارے پالیسی سازی اس امر سے لاعلم ہیں کہ یوٹیلٹی بلز اور مہنگائی میں بے لگام اضافے سے ستائے شہری دو راستے اختیار کرسکتے ہیں حالات سے گھبراکر خودکشیاں شروع کردیں یا سیاسی جماعتوں پر تین حرف بھیج کر بغاوت پر اتر آئیں۔

میرے خیال میں پہلا راستہ کوئی دیرپا حل نہیں دے سکتا۔ دوسرے راستے پر اگر عوام چل پڑے تو نتائج کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔

طبقاتی بالادستی حکمران اشرافیہ کے اللے تللے، منافع خوری اور ریاستی محکموں کے وہ کاروبار جن پر معمول کے ٹیکسز عائد نہیں ہوتے عوامی ردعمل کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

کیا عوامی ردعمل کے سامنے ریاست کھڑی ہوپائے گی؟ یہ وہ سوال ہے جس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

بجلی ایک تو مہنگی ہے اس پر ستم یہ ہے کہ صارفین کے بلوں میں ڈالے گئے اضافی یونٹوں نے ان کا بھرکس نکالنے کا سامان کردیا ہے۔ مالکان نے تو کمائی کے لئے کارپوریٹ کاشتکاری کا ذریعہ تلاش کرلیا ہے۔ شہری کہاں جائیں؟

حالیہ عرصہ میں تواتر کے ساتھ ہر قسم اور ’’نسل‘‘ کے سرکاری ملازم کے لئے بجلی، گیس، پٹرولیم وغیرہ کی مقررہ مفت ماہانہ حد پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہ سوالات جذباتی ہیں نہ سطحی۔ درست ترین سوالات ہیں۔

لوگ درست مطالبہ کررہے ہیں کہ جب بھاری بھرکم تنخواہیں لیتے ہیں تو مفت سہولتیں کیوں؟

ہماری دانست میں اس مفت خوری بارے سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا۔

عوام کے پاس کھانے کو روٹی نہ ہو اور افسر شاہی کو مفت پٹرول، بجلی، سوئی گیس، فون و موبائل کی سہولتیں مل رہی ہوں تو لوگوں میں ردعمل کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔

مناسب ترین بات یہی ہے کہ افسر شاہی کی ’’مفت بری‘‘ کسی تاخیر کے بغیر بند کی جائے اور لوگوں پر ان کی قوت برداشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔

لکھ کے رکھ لیجئے اگر دانش مندی سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی سعی نہ کی گئی تو لوگ ٹوٹنے کی بجائے توڑنے کو ترجیح دیں گے، یہی کڑوا سچ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author