نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ٹیسٹ ٹیوب سیاستدانوں سے کیا توقع کرنا ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گران وزیراعظم بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوارالحق کاکڑ ہوں گے۔ اس منصب کے لئے پچھلے ہفتہ بھر سے جتنے نام دوڑائے جارہے تھے وہ ریس سے باہر ہوگئے اور جو ریس میں شامل ہی نہیں تھا اس نے "ڈربی” جیت لی۔

انوارالحق کاکڑ کے نام کا اعلان ہوتے ہی سوشل میڈیا لطائف سے بھر گیا۔ انصافیوں نے بھی اس کی عمران خان کے ساتھ ایک پرانی تصویر لگاکر ’’رانجھا‘‘ راضی کیا۔ کچھ یوٹیوبرز نے بھی خوب اَت اٹھائی۔

ساعت بھر کے لئے رکئے اپنے پڑھنے والوں کو یاد کروادوں کہ تحریر نویس پچھلے سولہ ماہ سے تواتر کے ساتھ یہ عرض کرتا آرہا ہے کہ پی ڈی ایم و اتحادیوں نے اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دے کر فاش غلطی کی ہے ۔

ہماری دانست میں تحریک عدم اعتماد لانا عمران خان کی اپوزیشن کا آئینی اور جمہوری حق تھا البتہ اس حق کے استعمال کا وقت درست نہیں تھا۔ پی ڈی ایم و اتحادی اس بارے جو بھی کہتے رہے ہم نے ان سطور میں مسلسل یہی عرض کیا کہ اگر تحریک عدم اعتماد نہ لائی جاتی تو کوئی قیامت برپا ہرگز نہ ہوتی بہت ہوتا تو اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان منطقی انجام سے دوچار ہوتے۔

ایک غلطی پی ڈی ایم و اتحادیوں نے کی اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دیا دوسری غلطی عمران خان سے ہوئی جنہوں نے چند ریٹائر بابوں کے انقلاب کو دل دے دیا۔

ان کا خیال تھا کہ یہ بابے اپنے پرانے شاگردوں اور ماتحتوں پر اثرانداز ہوں گے اور انقلاب آجائے گا۔

ہوا یہ کہ ناکام بغاوت کا وارث کوئی نہیں بنا نتیجتاً بہت ساری وجوہات کی بنا پر دس بیس قدم پسپا ہوئی اسٹیبلشمنٹ ایک سو دس قدم آگے بڑھ آئی۔ اب جو ہے وہ سب کے سامنے ہے۔

نصف صدی سے قلم مزدوری کرتے ہوئے دوسری بار اسٹیبلشمنٹ کو اس قدر طاقتور، توانا اور بااختیار دیکھ رہا ہوں۔ پہلا دور تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کا تھا۔ اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کے ڈھول پی ڈی ایم و اتحادیوں کو اب خود ہی بجانا ہوں گے۔ رہی سہی کسر انوارالحق کاکڑ کے نگران وزیراعظم بننے سے پوری ہوگی۔

شہباز شریف نے یہ کہہ کر جی بہلانے کی کوشش تو کی کہ ’’میں 30سال سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تاراہوں نیز یہ کہ مجھے اس پر فخر ہے‘‘ لیکن یہ وہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی جیب میں جو دو عدد پرچیاں تھیں انہیں جیب سے نکالنے کا موقع بھی نہیں ملا لیکن میرا خیال ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے۔

درست بات یہ ہے کہ جولائی کے اوائل میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک وفد کی جام کمال کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر محترمہ مریم نواز شریف سے جو ملاقات ہوئی تھی معاملات اسی میں طے پاگئے تھے۔

پیپلزپارٹی لاکھ کہے کہ ہمیں اس اتفاق رائے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا لیکن سیاسی اتارچڑھائو کو سمجھنے والی جماعت کے ذمہ داران کو عبدالقدوس بزنجو کے آصف علی زرداری کے نام لکھے گئے خط سے نہ صرف معاملات کو سمجھ لینا چاہیے تھا بلکہ اعتماد کی اس فضا کو بھی جس میں مسلم لیگ (ن)، بی اے پی اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھے۔

ہم آگے بڑھتے ہیں۔ نگران وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھانے والے انوارالحق کاکڑ بارے اگر ہم رشید یوسفزئی کی تحریر کے مندرجات سے کامل اتفاق نہ بھی کریں تو بھی اس سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے کاکڑ کی صورت میں بلوچستان کی محرومیوں کا وقتی علاج کرنے کی بجائے باردیگر یہ پیغام بھجوایا ہے کہ ’’ہمارا ملک ہماری مرضی‘‘

یہ ہمارا ملک ہماری مرضی والی بات کا ترجمہ و تفسیر اپنے رسک پر کیجئے گا مترجمین و مفسرین کے خیالات سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کاکڑ کی نامزدگی پر بلوچستان کے اسٹیبلشمنٹ نواز حلقوں کی خوشی فطری امر ہے۔ جہاں تک وائس آف بلوچستان کے نام سے قائم ان کی ایک این جی او کے بعض ناپسندیدہ معاملات کی 2021ء میں ہوئی نیب انکوائری کا تعلق ہے تو اس پر جواب اس وقت کی حکومت کو دینا چاہیے۔

تحریک انصاف کے جو ہمدرد اور یوٹیوبرز اس انکوائری لیٹر کو لہرالہراکر سوال پوچھ رہے ہیں انہیں اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی محبوب قیادت سے پوچھنا چاہیے کہ اس انکوائری کا کیاانجام ہوا تھا۔

یہ تو پھر ایک انکوائری کا معاملہ ہے قبل ازیں ایک بار بلوچستان سے وزیراعظم منتخب ہونے والے میر جبل خان نصراللہ جمالی جب وزارت عظمیٰ کے منصب کا حلف اٹھارہے تھے تو وہ گندم سکینڈل میں ہائیکورٹ کے مفرور تھے

اسی دور میں سندھ میں وزیراعلیٰ بننے والے لیاقت جتوئی بھی حلف اٹھاتے وقت مفرور تھے (یاد رہے کہ یہ حوالے صرف اس دور کے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے دور سمجھے جاتے ہیں) ویسے تو موجودہ صدر عارف علوی اور سابق وزیراعظم عمران خان بھی جب 2018ء میں اپنے عہدوں کا حلف لے رہے تھے اس وقت دونوں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے اشتہاری تھے۔

شہباز شریف نے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو نصف درجن کرپشن کیسوں میں ضمانتوں پر تھے۔

معاملہ الزامات، مقدمات، مفروریوں وغیرہ کا نہیں نہ ہی یہ آج کے کالم کا موضوع ہے۔

ہم تو یہ عرض کررہے ہیں کہ اگر انوارالحق کاکڑ کے اسم گرامی پر مسلم لیگ (ن)، اسٹیبلشمنٹ اور بی اے پی تینوں ایک پیج پر ہیں تو پھر رونے دھونے کی ضرورت نہیں خصوصاً شہباز شریف کے اس کھلے اعتراف کے بعد کہ "میں 30سال سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے” ۔

اس اعتراف کو ذہن میں رکھ کر سوچئے کیا شہباز شریف کاکڑ کا نام دیئے جانے پر یا اس نام پر اتفاق رائے کئے جانے دونوں میں سے کسی بھی ایک سے انکار کی جرات کرسکتے تھے؟

رشید یوسفزئی نے انوارالحق کاکڑ کے قیام لندن کے دوران ان کی ایک ملازمت کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ویسی ملازمت اب ملالہ یوسفزئی کے والد کررہے ہیں۔ اپنی تحریر میں انہوں نے کاکڑ کی محمود اچکزئی سے ایک ملاقات اور محمود خان اچکزئی کے ردعمل کا ذکر بھی کیا۔

کچھ پشتون دوست رشید یوسفزئی کو ڈینگیں مارنے والے ایسے شخص سے تعبیر کررہے ہیں جو خود بھی ” کہیں ” سے ملے احکامات کی بجاآوری کرتا ہے خیر ان دو طرفہ الزامات کی اوکھلی میں سر دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

البتہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ انتخابات نومبر کی بجائے مارچ 2024ء میں بھی نہ ہوپائیں گے۔ اس احساس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں اور اسے دوچند مقرر کردہ نگران وزیراعظم کی اس بات نے کیا کہ ’’مجھے کیا معلوم انتخابات کب ہونے ہیں‘‘ یہ جواب انہوں نے انتخابات کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر دیا۔ جو منصب ہے ہی انتخابی عمل کی عبوری مدت کے لئے اس پر فائز شخص اگر انتخابات کے انعقاد اور وقت سے لاعلم ہے تو سورۃ فاتحہ کی تلاوت رہنے ہی دیجئے۔

کالم کے اس حصے میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کروں کہ استحکام پاکستان پارٹی، پرویز خٹک کی پی ٹی آئی، سندھ سے جی ڈی اے، بلوچستان سے بی اے پی ان چار گروپوں کا وسیع تر انتخابی سیاسی اتحاد بنوانے کے لئے صلاح مشورے ہورہے ہیں۔ (ن) لیگ بلوچستان کی حد تک تو بی اے پی کے ساتھ انتخابی اشتراک عمل کے لئے آمادہ ہے اس سے آگے وہ کیا سوچ رہی ہے اس بارے واقفان حال کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن اس کوشش میں ہیں کہ (ن) لیگ سندھ میں جی ڈی اے کی حمایت کرے۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایسا ہونا مشکل لگ رہا ہے لیکن سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اس لئے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بالفرض پرویز خٹک کی پی ٹی آئی، علیم خان کی استحکام پارٹی، جی ڈی اے اور بی اے پی اپنی صوبائی سطح سے اوپر ایک اتحاد بناتے ہیں اور مسلم لیگ (ن) اپنا وزن اتحاد کی قیادت کی قیمت پر اس کے پلڑے میں ڈالتی ہے تو مستقبل کی انتخابی سیاست کے میدان کا نقشہ بڑا دلچسپ ہوگا۔

بہرحال سینیٹر انوارالحق کاکڑ کو نگران وزارت عظمیٰ مبارک ہو۔ میں ان سے یہ توقع نہیں کرسکتا کہ وہ تاریخ میں زندہ رہنا چاہیں گے یا تاریخ کی دھول میں گم ہونا پسند کریں گے کیونکہ کسی ٹیسٹ ٹیوب بے بی سیاستدان سے شعوری توقع بذات خود جرم ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author