حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیرت ہوتی ہے کہ عمل کی دنیا میں قدم رکھنے کے بجائے کئی نسلوں سے ان محبوب حملہ آوروں کے جانشینوں کا انتظار ہورہا ہے جنہوں نے متحدہ ہندوستان کی سرزمین پر قدم رنجہ فرماتے ہی لاشوں سے میدان اٹ ڈالے تھے ۔
مذہب، رنگ و نسل، عقیدے اور وفاداریوں کا امتیاز کئے بنا ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ احساس ہے کہ جس ملک میں نسیم حجازی، الیاس سیتا پوری، رضیہ بٹ اور عمیرہ احمد رجحان ساز ادیبوں کا درجہ پاجائیں اور ایک دو نہیں تین چار نسلیں اُس گھوڑے سوار کے انتظار میں زندگی برباد کرلیں ’’جو آئے گا کشتوں کے پشتے لگائے گا اور پھر ایک کافر حسینہ اس پر عاشق ہوجائے۔
آخر میں یا دونوں قربان ہوجائیں گے اور یا پھر کافر حسینہ مسلمان پر‘‘ ہائے رے انتظار جس کے دیپ ہماری چوتھی نسل آنکھوں میں جلائے سمندر پار کی طرف دیکھتی۔ کبھی صحرا کے اس اور، اور گاہے بلند و بالا پہاڑوں کے دوسری سمت سے آنے والے راستے پر آنکھیں گاڑ لیتی ہے۔
کچھ مہربان ان عسکریت پسندوں کو ’’لشکر خراسان‘‘ سے جوڑتے نچلے نہیں بیٹھ رہے۔
انہیں کون سمھجائے کہ حضور! اب جنگ پیداواری انڈسٹری سے آگے کی چیز ہے۔ بربادی کامل بربادی، جنگوں کا ایندھن ترقی یافتہ ممالک کم فراہم کرتے ہیں کیسی تلخ حقیقت ہے شکاری اور شکار دونوں کا تعلق مفتوحہ خطوں سے تعلق ہوتا ہے ۔
گاہے ان زمینوں سے جس کے چند صد یا ہزار زمین زادے اپنے اصل سے کٹ کر ایسی مہم جوئی کا حصہ بن رہتے ہیں جس سے ان کی اپنی ہی سرزمین دھول سے اٹتی اور اپنے ہی لوگ کھیتے ہوتے ہیں۔
ان لشکروں نے جنم بھلے سامراجی کھوکھوں سے لیا ہوتا ہے لیکن ان کا رزق تیسری دنیا کے بے نوا ممالک سے ہی ملتا ہے ۔ بہت احترام کے ساتھ مجھے یہ عرض کرنا پڑے گا کہ اگر کبھی ہم نے حساب کا حوصلہ کیا تو جواب یہ ہوگا کہ ان لشکروں نے اتنے کافر نہیں مارے جتنے ان کے ہاتھوں مسلمان کھیت ہوئے۔ میں افغانستان، لبنان ۔ عراق اور شام کا حساب آپ کے سامنے نہیں رکھتا۔ گو ان ممالک میں بے جرم مارے گئے انسانوں کے ورثا سے مجھے ہمدردی ہے لیکن میرا مسئلہ پاکستان ہے۔
سو اگر حساب کا دفتر 1980ء کی دہائی سے کھولا جائے تو گزرے پچھلے 43 برسوں میں لگ بھگ ایک لاکھ مسلمانوں کا خون بہایا گیا گلگت سے پارا چنار سے پشاور سے کوئٹہ اور اسلام آباد سے کراچی براستہ لاہور یہی حساب بنتا ہے۔ مرنے والے ان ایک لاکھ مردوزن اور معصوم بچوں کا ان سامراجی قوتوں سے کوئی تعلق نہیں رہا کبھی بھی نہیں۔
بہت پہلے ایک کالم میں عرض کیا تھا ’’سوویت یونین کے خلاف افغانوں کے قتل عام کا پروپیگنڈہ کرنے والوں نے سوویت یونین کے افغانستان سے انخلاء کے بعد شروع ہوئی برادر کشی (خانہ جنگی) میں پانچ لاکھ سے اوپر لوگ ماردیئے‘‘۔ پچھلے سوا چار عشروں کے دوران پاکستان میں فرقہ پسندوں، نسل پرستوں اور دوسرے مسلح لشکروں کے ہاتھوں مارے گئے لوگوں کی تعداد بالائی سطور میں لکھ چکا۔
فی الوقت یہ عرض کرناہے کہ اگر یہ بدلے کی بھاونا ہے جیسا کہ غیرت بریگیڈ اور جنون گروپ والے فرماتے ہیں تو پھر اصل مجرموں کو مارنے کی ضرورت تھی۔ بے سروسامان ہم مذہبوں کو کس جرم کی سزا دی گئی؟
بدقسمتی سے جواب بڑا تلخ ہے اور یہ کہ جب جنت دوزخ تقسیم کرنے کا ٹھیکہ مخلوق خود سنبھالے اور اس ’’خدائی کام‘‘ کو کچھ لوگ حق کہیں تو پھر یہی ہوتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم ایک تقسیم شدہ سماج میں سانس لینے پر مجبور ہیں ’’مجبور محض‘‘ زندگی کی اصل حقیقتوں کی پردہ پوشی تو ہے ہی لیکن علم و سماجی وحدت پر جہل کے کوڑے برسانے والے دندناتے پھر رہے ہیں۔
اس سے بھیانک اور بڑے المیے کی طرف ایک پچھلے کالم میں توجہ دلاچکا ’’انتہا پسندی دونوں طرف ہے جاہل ٹائپ عالم فاضل ماحول کو تباہ تو کرہی چکے اب سماج کی اجتماعی ارتھی اٹھوانے پر بضد ہیں۔
یک رخوں نے سب تلٹ پلٹ دیا ہے۔ خواب فروشوں کی بن آئی ہے۔ قدیم تاریخ میں علم و ادب، ثقافت، نظام ہائے حکومت سماجی احترام اور انصاف کے حوالے سے شہرت رکھنے والے خطے (اس میں آج کا پاکستان بھی شامل ہے) کو بیرونی نظریات کے ذہنی غلاموں نے چراگاہ بنالیا ہے۔
دیندار عرب کی قبائلی معاشرت، تعصب اور انا پرستی کو دین کے حصے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور جدید انتہا پسند کمرشل لبرل، مغرب کی خرابات کو۔
سوال یہ ہے کہ یہ دونوں آخر ہماری جان چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو یہیں رہنا ہے۔ رہے اور مرے ہمیشہ ہم ہی ۔
کڑواسچ یہ ہے کہ خوابوں کی تجارت اور تسخیر کے جنون کا ڈھول گلے میں لٹکائے۔ ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
معاف کیجئے گا فقط آمریت ہی قابل لعنت نہیں ہوتی آمریت اور یک رخی کی ہر صورت قابل نفرین ہے۔ اس عاجز کو ہمیشہ یہ احساس رہا ہے کہ دو انتہائوں میں تقسیم معاشرے میں اعتدال، توازن ، علم اور محبت کی باتیں زیادہ لوگ نہیں سنتے پڑھتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی سماج کی اکثریت آج بھی انتہا پسندی سے محفوظ ہے۔ دینداری لبرلیت اور تنگ نظری یہ شہری اور نیم شہری علاقوں کے لوگوں کے کھابے ہیں۔ دوردراز کے دیہاتی علاقوں میں انتہا پسندی کسی اور قسم کے چورن میں ملاکر بیچی جارہی ہے۔
عسکریت پسند اب قبائلی علاقوں تک محدود نہیں رہے۔ ان کے نظریاتی حلیف ہمارے آپ کے درمیان پہلے سے موجود تھے اور عسکری اتحادی وہ بھی۔
مجھے اس سے انکار نہیں کہ اس صورتحال کی کسی حد تک ذمہ داری بعض ریاستی اداروں پر بھی عائد ہوت یہے مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج جو لوگ مسلح گروہوں کے خلاف ریاستی اداروں کی کارروائیوں پر اداروں کے بخیئے ادھیڑ رہے ہیں یہ کل دونوں کے درمیان ’’وچولے‘‘ کا کردار رکھتے تھے۔
کئی بار لکھ چکا ’’آج امریکہ کی مخالفت میں مرے جاتے کل تک اسی امریکہ کے یارغار تھے” ان ساری معروضات کا مقصد یہ ہے کہ ہر دو طرح کے انتہا پسندوں اور کچی پکی محبتوں کی کہانیوں سے بندھی تاریخ سے باہر نکل کر حال میں زندہ رہنے اور اپنے ہاتھوں سے آئندہ نسلوں کا مستقبل بنانے کے لئے میدان عمل میں نہیں نکلتے تو بہتری کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوسکتی۔
رونا اس بات کا ہے کہ جو لوگ سماج کی صحیح سمت رہنمائی کرسکتے ہیں وہ پسندوناپسند کا شکار ہیں۔
ایک ستم یہ ہے کہ عقل کو عقیدہ اور شخصیت کا غلام بناکر رکھنے والے خوانچے اٹھائے پھرتے ہیں اور دوسری یہ کہ منحرفین ایک نئے قسم کے تعصب کو پروان چڑھارہے ہیں۔
فی الوقت ان دونوں طرح کے جنونوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ہماری نسل کے لوگوں نے اپنے حصے کا فرض ادا کرنے میں تھڑدلے پن کا مظاہرہ کیا تو بعد کی نسلیں ہماری طرح خون کے آنسو بہائیں گی۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جہل کی کالک خون کے دھبے اور تنگ نظری کا پینٹ یہ برساتوں اور آنسوئوں سے نہیں دھلتے۔ جدوجہد عزیزان من! جدوجہد لازم ہے۔
بغاوت ضروری۔ مشرق و مغرب کے برانڈز فروشوں اوران کے ساجھے داروں سے بصورت دیگر ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر