حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے چند کالموں میں لکھے گئے ایک جملے ’’سنی سنائی پر ایمان‘‘ بارے چند دوستوں نے وضاحت چاہی ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ’’سنی سنائی پر ایمان‘‘ والے لکیر کے وہ فقیر ہوتے ہیں جو خود سے کچھ جاننے سمجھنے کی شعوری کوشش نہیں کرتے نہ انہوں نے زندگی بھر کسی کتاب کو ہاتھ لگایا ہوتا ہے۔ بس چونکہ ہمارے ابا کہتے تھے بھٹو نے ملک توڑا تو بالکل توڑا ہوگا ابا بھلا جھوٹ کیوں بولیں گے۔
گزشتہ دو کالموں پر جماعت اسلامی کے صالحین بڑے برہم ہیں۔ سوشل میڈیا کی سائٹ ٹیوٹر پر وہ مجھ طالب علم کو جس طرح کے شرعی کوسنے اور گالیاں دے رہے ہیں اس سے اطمینان ہوا کہ ان کی دوغلی فکر کو برچھیاں لگی ہیں۔
مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے ہم مغربی پاکستان والے چند افراد کے علاوہ اجتماعی مجرم ہیں لیکن جماعت اسلامی، اس وقت کی فوجی قیادت اور مسلم لیگ بڑے مجرم ہیں۔
ساعت بھر کے لئے رکئے میں آپ کے سامنے تقسیم (میں اسے بٹوارہ کہتا لکھتا ہوں) سے قبل کے چند معاملات کے حوالے سے سوالات رکھتا ہوں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ 1936ء سے 1947ء تک مسلم لیگ نے اپنے بنگال کے صوبائی یونٹ کی متعدد درخواستوں کے باوجود مرکزی مجلس عاملہ اور مرکزی کونسل کا کوئی اجلاس ڈھاکہ میں منعقد کیوں نہ کیا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ بنگال مسلم لیگ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے بمبئی میں ہونے والے 1936ء کے اجلاس میں شرکت کیوں نہ کی؟ حالانکہ اس اجلاس میں مسلم لیگ نے صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مزید سوالات کچھ یوں ہیں ۔ محمدعلی جناح نے 21مئی 1936ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے 54رکنی مرکزی پارلیمانی بورڈ کا اعلان کیا اس میں بنگال مسلم لیگ کے صدر اور سیکرٹری کیوں شامل نہیں کئے گئے؟
جناح صاحب نے بنگال سے جن آٹھ ارکان کو مرکزی پارلیمانی بورڈ میں سے شام کیا اس میں 4غیربنگالی کیوں تھے؟ اسی سال جون میں مرکزی پارلیمان بورڈ کا لاہور میں اجلاس ہوا تو بنگال کے 8ارکان میں سے 2ارکان نے شرکت کی اور دونوں غیربنگالی تھے۔ 1937ء میں جناح نے بنگال مسلم لیگ کی تشکیل نو کے لئے بیس رکنی کمیٹی قائم کی اس کا انجام کیا ہوا؟
آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری اعزازی سیکرٹریز اور جوائنٹ سیکرٹری ہمیشہ یوپی سے ہی کیوں لئے گئے بنگالیوں کو جنہیں تحریک پاکستان کا ہراول دستہ قرار دیا جاتا ہے مرکزی عہدوں سے دور کیوں رکھا گیا؟
یہ وضاحت کردوں کہ 1938ء میں کلکتہ میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کا اجلاس خصوصی اجلاس تھا سالانہ نہیں ۔ اس سلسلے کا آخری سوال یہ ہے کہ کیا محمدعلی جناح کو گورنر جنرل کے طور پر آل انڈیا مسلم لیگ کی جنرل کونسل یا مجلس عاملہ نے نامزد کیا تھا؟ اس ضمن میں بنگال مسلم لیگ کی تجویز کا لیاقت علی خان وغیرہ نے تمسخر کیوں اڑایا؟
کیا یہ درست نہیں کہ جناح صاحب نے خود ہی اپنے لئے گورنر جنرل کا منصب پسند کیا اور خود کو نامزد کرلیا؟
مکرر ایک سوال کو دہرائے دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی عہدوں پر مسلم اقلیتی صوبوں کے نوابین ہی کیوں قابض رہے؟ یاد رہے کہ ڈاکٹر سیف الدین کچلو ایک واحد مثال ہیں یو پی سے باہر کی۔
آپ اگر مندرجہ بالا سوالات پر غور فرمائیں تو یہ امر دوچند ہوجائے گا کہ جن بنگالیوں کو تحریک پاکستان کا ہراول دستہ قرار دیتے نہیں تھکتے ان سے غیرمساویانہ برتائو میں آل انڈیا مسلم لیگ پیش پیش رہی کیا یہ سب مسلم لیگ کے سربراہوں کی مرضی کے بغیر ہوا؟
ہمارا اصل المیہ مطالعہ پاکستان ہے جو مغالطوں سے بھرا بلکہ دھنسا ہوا ہے۔ ان تاریخی اور فکری مغالطوں سے نجات مل سکتی تھی اگر قیام پاکستان کے فوراً بعد ہمارے ہاں قومی تاریخی کمیشن بنالیا گیا ہوتا۔ ’’ہسٹری کمیشن‘‘ اس لئے نہیں بن پایا کہ متحدہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے پاس ہیرو کے معیار (یہ بھی ان کا اپنا گھڑا ہوا ہے) پر پورا اترنے والی کوئی شخصیت ہی نہیں تھی اس لئے وہ مجبور تھے مغل دور کو اسلامی دور حکمرانی کہنے، ابدالی، نادر شاہ ، غوری ، غزنوی و محمد بن قاسم کو ہیرو تسلیم کرنے اور کروانے پر۔
ان کے مقابلہ میں بنگالیوں، سندھیوں، پشتونوں یہاں تک کہ پنجابیوں اور سرائیکیوں کے پاس اپنے مزاحمتی کردار تھے مگر کمال مہارت کے ساتھ انہیں برطانوی سوچ کے عین مطابق ڈاکو قانون شکن اور باغی بناکر پیش کیا گیا۔ مثلاً سردار احمد خان کھرل، ہوش محمد شیدی، عجب خان آفریدی، یہ ایک مثال ہے جب آپ تاریخ پر مکالمہ اٹھائیں گے تو خود ساختہ تاریخ تنکوں کی طرح بکھرے گی اور جعلی ہیروز کے بت ٹوٹ جائیں گے۔
اب آیئے جماعت اسلامی کے اس سیاسی دعوے پر بات کرتے ہیں کہ ’’پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا‘ فکری غذا سید مودودی نے فراہم کی اور منزل پر جناح صاحب لے گئے‘‘۔
پہلی بات یہ ہے کہ علامہ اقبال نے کوئی خواب دیکھا نہ بیان کیا اس خوابی رنگ بازیوں کا پردہ ان کے صاحبزادے جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال چاک کرتے رہے۔ جناح صاحب مسلم لیگ کے سربراہ تھے افسوس کہ ان کے بطور سربراہ مسلم لیگ پر بھی اس ملک میں تجزیہ و مکالمہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم لیڈر کو اوتار بنالیتے ہیں اس کے گرد تقدس کا ہالہ کھینچ کر توہین کی سزا کے نعرے لگاتے ہیں۔
رہی سید مودودی کی فکری غذا تو آیئے اس غذا کا ایک دانہ چکھ لیجئے۔
جماعت اسلامی کی کتابیں شائع کرنے والے ایک ادارے اسلامک پبلیکشنز کے زیراہتمام شائع ہونے والی سید مودودی کی کتاب ’’تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘‘ میں سید مودودی لکھتے ہیں ( جنت الحمقا) ’’احمقوں کی جنت ” میں رہنے والے اپنے خوابوں کے کتنے ہی سبز باغ دیکھ رہے ہوں لیکن آزاد پاکستان (اگر فی الواقع وہ بنا تو) لازماً جمہوری لادینی اسٹیٹ کے نظریہ پر بنے گا‘‘۔
اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’’منزل حق وہی ہے جس لئے ہم اس کی طرف دوڑتے ہوئے مرجانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ جانتے بوجھتے ہوئے غلط مگر آسان راہوں میں اپنی قوت صرف کریں یا نادانی کے ساتھ ’’احمقوں کی جنت ‘‘ (پاکستان) کے حصول کے لئے اپنی قوت ضائع کریں‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ سید مودودی کے نزدیک ’’احمقوں کی جنت ‘‘ المعروف پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں شرکت سے راہ حق میں مرنا زیادہ بہتر ہے تو پھر انہوں نے تحریک پاکستان کو کون سی فکری غذا فراہم کی؟
پچھلے چند دنوں سے عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمن کی ستائش میں باولے ہوئے صالحین کا خیال ہے کہ پروپیگنڈے کی دھول اڑاکر حقائق مسخ کئے جاسکتے ہیں لیکن یہ پچھلی صدی کی آخری تین دہائیوں جیسی دہائی نہیں۔
جماعت کا اپنا حال یہ ہے کہ اس کا نظریہ پاکستان دوسرے فوجی آمر جنرل یحییٰ کے وزیر اطلاعات میجر جنرل شیر علی خان پٹودی کا عطا کردہ ہے۔ جنرل پٹودی یحییٰ کے وزیر اطلاعات تھے یہ وہی ذات شریف ہے جس کے ایما پر جماعت اسلامی نے یکم مئی 1970ء کو یوم مزدور کے مقابلہ میں یوم شوکت الاسلام منایا اس وقت کی فوجی حکومت نے اس کے لئے وسائل فراہم کئے
اسی 1970ء میں منعقدہ عام انتخابات میں جماعت اسلامی کو امریکی سفیر نے فنڈز دیئے۔ میاں طفیل محمد نے شکریہ کا خط لکھا۔
اب آیئے شیخ مجیب الرحمن کے مینڈیٹ پر جس کی حقانیت کا صالحین کو کچھ دنوں سے دورہ پڑا ہوا ہے۔ فوجی جنتا اور عوامی لیگ میں جنم لینے والے اختلافات کے بعد فوجی حکومت نے عوامی لیگ کے 78 ارکان قومی اسمبلی کو نااہل قرار دے کر مشرقی پاکستان میں ان نشستوں پر ضمنی انتخابات کا اعلان کیا اور یہ ہوئے بھی۔
ان ضمنی انتخابات میں جماعت اسلامی کے 50امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ 23 نشستیں اس متحدہ محاذ کو ملیں جس کے سربراہ نورالامین تھے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا جنرل یحییٰ نے ایل ایف او کے تحت ہی سہی 78ارکان کو غیرقانونی طور پر نااہل نہیں کیا تھا؟
شیخ مجیب الرحمن کے مینڈیٹ کا رونا رونے والوں نے اس وقت عوامی لیگ کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے فوجی جنتا کی خوشنودی کو مقدم کیوں سمجھا؟
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بنگالی قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں خود سے روا رکھے گئے سلوک پر برہم تھے، بنگلہ دیش اسی برہمی کا نتیجہ تھا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر