عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی طرف سے نکلنے والا رسالہ "ہلال” کا دسمبر 2022 کا شمارا "مشرقی پاکستان” کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام اور 71ء کی جنگ جیسے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے اور ایک بار پھر اس ادارے کے ترجمان رسالے نے اپنے قاری کو مسخ شدہ تاریخ پڑھانے کی کوشش کی ہے –
پاکستان فوج کے ترجمان ادارے کے رسالے میں نہ تو اداریے میں اپنی کوتاہیوں، جنگی جرائم کے ارتکاب کا نہ تو اعتراف ہے اور نہ ہی اس پر کسی طرح کا عرق انفعال اور نہ ہی اس پر بنگالی قوم سے معافی بلکہ سارا قصور عوامی لیگ اور اُس کی قیادت پر ڈال دیا گیا –
انعام عزیز روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر تھے- اپنی کتاب "اسٹاپ دا پریس….” میں وہ لکھتے ہیں کہ دسمبر(1971ء) میں پاکستان سے اُن کے ٹیلی فونک رابطے مکمل منقطع ہوگئے تھے اور مشرقی پاکستان میں کیا ہورہا تھا اس بارے اُن کو جنگ آفس سے کچھ بھی موصول نہیں ہورہا تھا اور رائٹر جس ایجنسی سے وہ خبریں لیتے تھے اُن کی فراہم کردہ مواد اخبار کی "پالیسی” سے ملتا نہیں تھا-اور وہ اخبار کی پالیسی سے ہٹ نہیں سکتے تھے- انہوں نے برطانیہ میں پاکستان کے سفارت خانے کے ہائی کمشنر جنرل یوسف سے رابطہ کیا اور اُن سے کہا کہ وہ میر خلیل الرحمان سے اُن کا رابطہ کرائیں- جنرل یوسف نے اگلے دن ان کو بلایا اور جی ایچ کیو کال ملائی جہاں میر خلیل الرحمان پہلے سے موجود تھے-
انعام عزیز نے میر خلیل الرحمان کو ساری صورتحال بتائی تو انہوں نے فون پہ ہی وزرات دفاع کی طرف سے جاری تازہ پریس ریلیز لکھوادی-
اس پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان مشرقی پاکستان میں شورش پسندوں اور غداروں کے خلاف اور بھارتی فوج کے خلاف کامیابیاں سمیٹ رہی ہے-
انعام عزیز کہتے ہیں میں نے اس کو روزنامہ جنگ کی لندن کی لیڈ اسٹوری بنائی اور اخبار کو چھپنے کے لیے کہہ دیا- اور خود دفتر سے نکل کر کچھ دوستوں سے ملنے چلا گیا- وہ کہتے ہیں رات گئے جب گھر جانے کے لیے وہ ایک سب وے ٹرین اسٹیشن پہنچے تو اسٹال پر لگے روزنامہ ٹائمز کی تازہ اشاعت جو انہوں نے ایک رات پہلےہی چھاپ دی تھی لی اور جیسے ہی انہوں نے اخبار پہ نظر ڈالی تو اُن کو لگا کہ ہتھوڑے کی طرح کوئی چیز ان کے سر پہ لگی ہو- اخبار بتارہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں پاکسانی فوج نے سرنڈر کردیا ہے….. وہ واپس دفتر کی جانب بھاگے لیکن دفتر تو بند ہوچکا تھا اور اخبار پریس سے چھپ کر تقسیم ہونے چلا گیا تھا…..
وہ لکھتے ہیں کہ اگلے چند روز تک اُن کو فون آتے رہے جس میں اُن پر بد دیانت صحافت کرنے اور پبلک کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا…
سولہ دسمبر 1971ء کے مغربی پاکستان میں شایع ہونے والے اخبارات کی سُپر لیڈ پاکستانی فوج کی مشرقی اور مغربی میدان جنگ میں دشمن کے خلاف کامیابی کی داستان سُنارہی تھیں………
مغربی پاکستان کی عوام کی اکثریت کو مشرقی پاکستان میں عام لوگوں پہ ہوئے بدترین مظالم کی خبریں پروپیگنڈا اور جھوٹ لگا تھا وہ اپنے حکام بارے یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ بے گناہ بنگالیوں کے خون سے ہاتھ رنگ لیں گے اور نوجوان عورتوں کے جسم نوچ ڈالیں گے…..
مغربی پاکستان کی عوام بنگلہ دیش کے بن جانے کی سرکاری سطح پر تصدیق ہونے تک فتح کا جشن منارہے تھے اور پھر جب پاکستانی فوج کے ھتیار ڈالنے کی خبر عام ہوئی تو تب بھی وہ بنگالی عوام کے قتل عام اور بڑے پیمانے پہ بے دخلی پہ نہیں روئے تھے بلکہ انھیں تو پاکسانی فوج کی شکست اور ہتھیار ڈالنے کا دکھ رلائے جارہا تھا…..
اگلے آنے والے مہینوں میں پاکستانی پریس پھر اُن کو 30 لاکھ بنگالیوں کے مارے جانے اور پاکستانی فوج کے جنگی جرائم کی خبروں کو ہندوستانی پروپیگنڈا کہہ کر رد کرنے اور ردعمل میں مُکتی باہنی اور انڈین آرمی کی طرف سے غیر بنگالی لوگوں کے ساتھ ہوئی زیادتی، جنگی جرائم کو بڑا چڑھا کر دکھانے میں مصروف ہوگیا، عام آدمی کو بیچارے غیر بنگالیوں خصوصی طور پر بھیاریوں کا غم کھا گیا (اور یہ سچ ہے کہ ایک وقت میں یہ بھیاری کافی بڑا انسانی المیہ بن گئے….. لیکن کیا کسی کو یہ خبر ہے کہ ایک وقت میں بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آنے والے آسام اور مغربی بنگال میں کیمپوں اور بعد ازاں کچی پکی بستیوں میں رہنے والے جو اب کئی کروڑ ہیں کو ہندوستانی ماننے سے انکار کردیا جائے گا اور ان کے خلاف فوج، پولیس ہر طرح کی طاقت استعمال کی جائے گی؟) اور اُسے یہ پتا ہی نہ چلا کہ مارچ 1971ء سے 16 دسمبر 1971 تک بنگالیوں سے کیا سلوک ہوتا رہا…..
پاکستان کی فوجی اشرافیہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کوشش میں رہی ہے کہ وہ پاکستان کے عام شہری کے زہن میں کسی نہ کسی طرح یہ بٹھا دے کہ 5 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن انتقال اقتدار اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو منتقل نہ کرنے پر پورے ملک میں احتجاج کو دبانے کے لیے شروع نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ تو ہندوستان کی ملک کو دو ٹکڑوں میں بانٹنے کی مکروہ سازش روکنے کے لیے شروع کیا گیا تھا……. فوجی حکمران اشرافیہ کو ولن کی ضرورت تھی اور یہ ولن تھے عوامی لیگ، اس کی مکمل لیڈرشپ، اس کے سیاسی کارکن، نوجوان طالب علم، شاعر، ادیب، دانشور تھے…. اور بھارت…. سو اس نے پریس کو مکمل کنٹرول کرکے عوام کی نظر میں اپنے مجرمانہ اقدام کو نیک اقدام بناکر دکھایا…… سچ سے نظر نہ ملا پاؤ تو سچ کو جھوٹ کہتے رہو……
جب تھوڑا وقت اور گزرا اور ایک بار پھر فوجی جنتا نے مارشل لاء لگایا تو اس نے مغربی پاکسان سے ایک سویلین ولن تلاش کیا اور ساری کی ساری زمہ داری اُس "سویلین ولن” پر ڈال دی……
پاکستان کس نے توڑَا؟
اسٹبلشمنٹ کا جواب تھا
بھٹو نے…..
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر