حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بات تو طے ہے کہ جب تک سیاستدان اپنے اختلافات کو خود طے کرنے کا راستہ نہیں نکالتے اس وقت تک کبھی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور کبھی منصفین انہیں ’’دُھر‘‘ بناتے رہیں گے اور یہ طاقت کو اپنے پلڑے میں محسوس کرکے سوچنے سمجھنے سے عاری رہیں گے۔
سیاستدان مفاہمت و تحمل کو وقت کا ضیاع سمجھ کر اِدھر اُدھر کی چوکھٹوں سے مرادیں پانے کیلئے تڑپتے کیوں ہیں اس کا ایک جواب تو و ہی ہے جو عرصے سے عرض کرتا آرہا ہوں کہ سکیورٹی سٹیٹ میں یہی ہوتا ہے۔ بقول شعیب بن عزیز
’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘۔
بہرطور سچ یہی ہے کہ سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ رائے دہندگان پر اعتماد کرنا سیکھیں البتہ اس سے قبل وہ انویسٹروں کے غول سے باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پائوں ماریں اور اپنی جماعتوں میں کارکنوں کے کلچر کو فروغ دیں۔ سیاسی کارکن کسی بھی جماعت کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔
آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے جب تک سیاسی جماعتوں میں سیاسی کارکنوں کا کلچر رہا سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں تبدیل نہیں ہوئے اور خود سیاسی جماعتوں کے اندر ایک عام کارکن اٹھ کر پارٹی کے بڑے سے بڑے لیڈر سے سوال کرلیتا تھا۔ جب سے سیاسی کارکنوں کی جگہ انویسٹرز آئے سیاست کے سارے رنگ ڈھنگ تبدیل ہوگئے۔
سیاسی جماعتوں اور نظام میں جمہوریت کی رمق کیوں نہیں رہی۔ ظاہر ہے جب پتہ ہو کہ عوام کے ووٹوں کے ساتھ ’’مینجمنٹ‘‘ بھی ضروری ہے تو پھر سارا دھیان ’’کاریگروں‘‘ کی طرف رہتا ہے کہ وہ خوش رہیں۔
معاف کیجئے گا ابتدائی سطور سے آپ کو بوریت ہوئی ہوگی مگر سچ بہرحال یہی ہے کہ اولاً یہ کہ جمہوریت کا کوئی متبادل نہیں اور ثانیاً یہ کہ کاریگروں اور انویسٹروں کی بجائے رائے دہندگان پر اعتماد کے ساتھ سیاسی کارکن کے کلچر کو واپس لانا ہوگا ورنہ جو کچھ ہورہا ہے ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں۔ معاملات اس سے بھی زیادہ بگڑنے کا اندیشہ ہے۔
مجھ تحریر نویس کو اکثر یہ سننا پڑتا ہے کہ کیوں چوروں کی حمایت کرکے عاقبت خراب کرتے ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پھبتی کسنے والوں کی اکثریت کا حال ویسا ہی ہے کہ نو سو چوہے کھاکر بلی حج کو چلی۔ بعض مسائل، کچھ نفرتوں اور مولا جٹ مارکہ بڑھکوں کے اسیران لوگوں میں سے زیادہ تر کے خاندانوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے تین تین سیاسی جماعتیں بدلیں درمیان میں چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف سے بھی "اَکھ مٹکا” کرکے جی بہلایا۔
ہمارے ہاں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم دوسرے کو اختلاف رائے کا حق نہیں دیتے خود اختلاف رائے کے نام پر دشنام طرازی پر اتر آتے ہیں۔ وجہ اس کی بہت سادہ ہے وہ یہ کہ ہم میں سے ہر شخص کا خیال بلکہ زعم یہ ہے کہ اس کا پسندیدہ لیڈر "داتا گنج بخش ثانی” ہے اور باقی لکھنے کی ضرورت کیا ہے میں اور آپ سبھی جانتے ہیں۔
اصولی طور پر ایسا نہیں ہے ہر سیاسی جماعت اپنے منشور کی بنیاد پر سیاست کرتی ہے۔ ہمارے خطے میں سیاسی جماعتوں کے منشور سے زیادہ شخصیت پرستی کا چلن ہے اس لئے ہم پسندیدہ شخصیت میں سارے اچھے اوصاف حمیدہ پاتے دیکھتے ہیں اور ناپسندیدہ شخصیت کو کم سے کم شیطان قرار دیتے ہیں ۔
میری دانست میں یہ غیرسنجیدہ فہم ہے۔ اس پر بھی دو آراء نہیں کہ اس غیرسنجیدہ فہم کو رواج ہمارے ہی بعض قائدین کی غیرسنجیدگی نے دیا باقی تو خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے والی بات ہے۔
مثال کے طور پر میں سکیورٹی سٹیٹ کا دیرینہ ناقد ہوں۔ مجھے برسوں یہ طعنہ سننے کو ملا تمہیں اپنے ملک کی قدر نہیں شکر کرو پاکستان بن گیا ایک آزاد ملک میں رہتے ہو پڑوس کے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دیکھو یا یہ کہ اگر فوج نہ ہوتی تو تمہیں لگ پتہ جاتا۔ درمیان میں کوئی نہ کوئی شخص یہ بھی کہہ دیتا، ایران دفع ہوجائو۔
ارے بھائی کیوں ہم نسل در نسل آٹھ سو سال سے اس خطے میں آباد ہیں اس سرزمین پر ہمارا مساوی حق ہے کیوں کہیں اور چلے جائیں۔
آجکل عمران خان سے اختلاف اور ان کی فہم پر تنقید پر سننے کو ملتا ہے، تم بغض عمران کا شکار ہو تمہیں لفافہ جو مل رہا ہے ۔ اچھا تو کیا آپ بغض پی ڈی ایم با بغض بھٹوز کا شکار نہیں؟ میرے خیال میں تو یہ بغض وغض کی ڈھمکیری بس دہن کی لذت کا سامان ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
عمران خان سیاستدان ہونے کے مدعی ہیں تحریک انصاف ان کی سیاسی جماعت ہے ان کی تائید واجبات دین کا حصہ ہے نہ ان سے اختلاف کفروبغض۔ پی ٹی آئی یا کسی بھی دوسری جماعت کے ہمدردوں کو آر ایس ایس کا سا رویہ نہیں اپنانا چاہیے۔ وہ شدھی تحریک نہیں چلارہے سیاسی عمل میں شرکت کے دعویدار ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں سیاسی حوالوں سے مختلف آراء، نظریات کا ہونا اچھنبے کی بات نہیں۔
آپ دنیا میں دستیاب مذاہب کو دیکھ لیجئے کون سا مذہب ہے جس میں مختلف تفہیمی گروہ (فرقے) موجود نہیں۔ یہی صورت سیاسی نظریات کی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم شائستہ انداز میں مکالمہ کرنے کے عادی نہیں ہم میں سے ہر شخص کو ایک ہی وقت میں بدعتی، کافر، مشرک، ملک دشمن وغیرہ وغیرہ کی ضرورت رہتی ہے۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ ان ضرورتوں کو پالے پوسے بغیر بھی ہم اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے تحریک انصاف والے دوست ابھی پچھلے برس کے اپریل تک سکیورٹی اسٹیٹ کے پرجوش ملبغ تھے یہی نہیں بلکہ ففتھ جنریشن وار کے بازوئے شمشیر زن بھی۔ اب وہ خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ان کے قائد مختلف واسطوں سے اسٹیبلشمنٹ کی منتوں ترلوں میں مصروف ہیں ۔
خیر جانے دیجئے ہمیں کیا وہ یا کوئی اور جو مرضی کرتا پھرے۔ ہمیں فقط یہ عرض کرنا ہے کہ جس طرح انہیں اور ان کے حامی صحافیوں، یوٹیوبروں اور اینکروں کو عمران خان کی حمایت کا حق ہے یہی حق ان سب کا بھی ہے جو ان کے ناقد ہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ دونوں کے حامی اور مخالف دلیل سے بات آگے بڑھاتے ہیں یا نفرتوں کو۔
کرنے والا کام یہ ہے کہ اس ملک کے عام آدمی کو یہ باور کروایا جائے کہ آپ کسی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر کی حمایت کریں ان کا محاسبہ ضرور کریں کیونکہ یہ ہمارے آپ جیسے لوگ ہی ہیں ’’امر الٰہی‘‘ ہرگز نہیں۔ ویسے تو امر الٰہی والی باتوں پر بھی غور وفکر ضروری ہے کہ ان میں سچائی کتنی ہے اور دکانداری کتنی۔ تحریک انصاف کے دوست کہتے ہیں عمران خان ان کی اہلیہ اور ساتھیوں کے خلاف درج مقدمات سیاسی انتقام کا حصہ ہیں۔ ماضی میں عمران خان کہا کرتے تھے شریف خاندان اور زرداری کی کرپشن کی فائلیں مجھے ایجنسیوں نے دیکھائیں۔
ایک بار سہیل وڑائچ کو جدہ میں د یئے گئے انٹرویو میں میاں محمد نوازشریف نے کہا ہمیں پیپلزپارٹی کے رہنمائوں اور محترمہ بینظیر بھٹو و آصف زرداری کے خلاف مقدمات بنانے کے لئے آئی ایس آئی کے دبائو کا سامنا تھا۔ اب حساب یہ ہوا کہ اگر ایجنسیوں کی فائلوں سے جنم لینے والے مقدمات کی بنیاد پر پی پی پی اور (ن) لیگ والے چور ہیں تو فائلوں کی بنیاد پر بننے والے مقدمات کے باوجود عمران خان سادھو کیسے ہوگئے۔
ہونا یہ چاہیے کہ یہ سارے سیاستدان جن کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات ہیں، عدالتی عمل کا سامنا کریں۔ بہانے بازی نہ کریں۔ یہاں پھر ایک مسئلہ ہے ہم سب کو عدالتی نظام کے صرف وہ فیصلے پسند ہوتے ہیں جو ہمارے ’’محبوب‘‘کے حق میں ہوں ورنہ جو ہم اور آپ کہتے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہرگز نہیں۔ باردیگر عرض ہے سیاستدان وہ کوئی بھی ہو، طاقت کے مراکز سے مدد مانگنے اور ‘‘بالک‘‘ بننے کی بجائے سیاسی عمل اور عوام پر اعتماد کریں تو وقت کے ساتھ ساتھ بہتری آتی جائے گی۔
شرط صرف ایک ہے وہ یہ کہ سکیورٹی اسٹیٹ کی ” دلداری ‘‘ کی بجائے طاقت کے مراکز کو دستور پر عمل کرنے کے لئے مجبور کریں اس کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی بنانے کی بجائے انہیں طے کرنے کا سیاسی طریقہ اپنائیں۔
پاکستانی سیاست اور نظام کو سب سے زیادہ نقصان طاقت کے مراکز کی چاپلوسی نے پہنچایا۔ سیاستدانوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ لوگوں کا سیاسی عمل پر یقین بحال کرانے کے لئے کردار ادا کریں۔
طاقت کے مراکز کی ساجھے داری (ملازمت ہے اصل میں تو) کی بجائے عوام پر اعتماد کریں اس کے سوا بہتری لانے کا دوسرا کوئی راستہ نہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر