نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کی عالمی تنہائی||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنرل باوجوہ سے مخصوص صحافیوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ گفتگو کا متن مُسلم لیگ نواز کے اُن "گوئبلز” کا تراشیدہ ہے جنھوں نے پہلے نواز شریف کو اینٹی اسٹبلشمنٹ چنگ چی گیوڑا بناکر پیش کیا تھا اور اُن کے "اینٹی اسٹبلشمنٹ بُت” نے اپنی بیماری کا ڈرامہ رچاکر جیل سے رہائی اور لندن روانگی کی رعایت کے بدلے پی ڈی ایم کی کامیاب تحریک کو پنکچر کردیا تھا جب اُس نے پیپلزپارٹی اور اے این پی کو پی ڈی ایم سے یہ کہہ کر نکال دیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی لانے کا مطالبہ کیوں کررہی ہے؟
پی پی پی کو نکال باہر کرکے مسلم لیگ نواز پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے نہ تو اسمبلیوں سے مستعفی ہوئی اور نہ اُس نے لانگ مارچ کیا-
اگر جنرل باوجوہ نے وہی گفتگو کی ہے جو مسلم لیگ نواز کے گوئبلز پیش کررہے ہیں تو جنرل باوجوہ نے اپنے اور اپنے ساتھی جرنیلوں کے ساتھ مل کر عمران خان کے زریعے نواز شریف کو سیف ایگزسٹ دینے والے کردار سے چشم پوشی کی ہے-
اُن سے ملاقات کرنے والے صحافیوں نے جنرل باوجوہ سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ نواز شریف کے لندن جانے کے بعد مریم نواز شریف کا ٹوئٹر اکاؤنٹ خاموش کیوں ہوگیا تھا؟
مسلم لیگ نواز نے نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد "ووٹ کو عزت دو” کے بیانیہ میں لازم و ملزوم "جی ایچ کیو” پر تنقید کی بساط لیپٹ کیوں دی تھی؟
اور صحافیوں نے یہ سوال اُن کے سامنے کیوں نہ رکھا کہ آئی ایس آئی کے نئے چیف کی تقرری کے دنوں میں مسلم لیگ نواز نے ایک جنرل فیض حمید کو چھوڑ کر باوجوہ اور اُس کے باقی ساتھی جرنیلوں کی سیاست میں مداخلت کے کردار کو بھلا کر جی ایچ کیو کے دفاع اور تعریف کا بیڑا کیوں اٹھا لیا تھا؟
جنرل باوجوہ سے صحافیوں نے یہ سوال بھی کرنا تھا کہ اُن کے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے نئے چیف کے ہوتے ہوئے جنرل فیض حمید کو جلال آباد میں اپنے منتخب کردہ نام نہاد جرگے کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان سے نام نہاد امن مذاکرات کا اختیار کس نے دیا تھا؟
کیا وہ سابق فاٹا اور سوات میں ٹی ٹی پی کے دوبارہ منظم ہونے اور تین ہزار سے زیادہ پاکستانی طالبان کے جلال آباد اور اس کے گردو نواح میں جمع ہونے، پی ٹی ایم، اے این پی، طالبان مخالف مشران اور سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کے کاروبار کے پیچھے اپنے اور اپنے حامی جرنیلوں کی حمایت سے انکاری ہیں؟
وہ پاکستان کی عالمی تنہائی کا سارا ملبہ جنرل فیض حمید، عمران خان پر ڈال کر فوجی اسٹبلشمنٹ کے کردار کو کیسے پاک صاف کرسکتے ہیں؟
پنجاب کی وزرات اعلیٰ سردار عثمان بزدار تک کیسے گئی؟ اور عثمان بزدار کے پیچھے چھپ کر لاہور میں تعینات کورکمانڈرز کیسے نچلی سطح تک ٹرانسفر پوسٹنگز کو کنٹرول کررہے تھے اس حقیقت کو وہ کیسے جھٹلا سکتے ہیں؟
عمران خان کی سربراہی میں والا سیٹ اَپ جی ایچ کیو اور آبپارہ میں آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر کی اس سوچ پر تشکیل پایا تھا کہ وہ ملک کو سو فیصد آزادی کے ساتھ اپنی سوچ کے ساتھ چلاسکتے ہیں جس کی اجازت انھیں پیپلزپارٹی نے کبھی نہیں دی تھی اور نواز شریف بھی اپنی کارپوریٹ ایمپائر کی قیمت پر کرنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا – لیکن اُن کے اس پروجیکٹ سے جو تباہی پھیلی اُس نے اُن کے چھکے چھڑوادیے تھے-
یہ ناکام پروجیکٹ اُن کے بنائے "امت مسلمہ کے لیڈر” کے بوجھ تلے دب کر جب خود فوج کے ادارے کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہونے لگا تب انھوں نے اپنا سارا لاؤ لشکر عمران خان کی حمایت سے دستبردار کرایا- اور اُس کے بعد بھی انھوں نے چُور دروازے سے آصف علی زرداری کو اقتدار کی پیشکش کی لیکن آصف علی زرداری نے” چور دروازے” کی بجائے عدم اعتماد کا آئینی راستا اپنایا –
جنرل باوجوہ اور اُس کے حامی جرنیل جس چُور دروازے کی پیشکش کررہے تھے وہ چُور دروازہ نواز شریف کب کا عبور کرچُکا ہوتا اگر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ میں تبدیلی میں اہم کردار رکھنے والی تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کو اپنے ساتھ نہ کرلیا ہوتا اور عدم اعتماد کے راستے پر زور نہ دیا ہوتا-
جنرل باوجوہ عمران خان سے اپنی لڑائی کی کہانی آدھے سچ کے ساتھ بیان کررہے ہیں – وہ یہ کہنے کی جرآت نہیں رکھتے کہ عدم اعتماد کے راستے میں فوج اور عدالتی اسٹبلشمنٹ پوری طرح سے عمران کی پشت پناہی سے باز نہیں آئی تھی بلکہ اس سوال پر تقسیم ہوگئی تھی تب ہی ایک طرف اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر آئین سے کھلواڑ کرنے کی جرآت کررہے تھے تو دوسری طرف پنجاب کو تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیا گیا تھا – عمران خان نے باوجوہ سے لڑائی اپنے زور بازو پر نہیں لڑی بلکہ اس میں اُسے فوجی اور عدالتی اسٹبلشمنٹ کے ایک بڑے سیکشن کی حمایت حاصل تھی اور ہے – اور جنرل باوجوہ یہ حقیقت بھی ماننے سے انکاری ہے کہ فوج میں درمیانے اور نچلے رینکس میں عمران خان کی حمایت نے ہی اُسے تحریک انصاف کے مکمل صفایا کے لیے جبر کی پوری مشینری کو عمران خان کے خلاف استعمال کرنے سے روکے رکھا ہے –
جنرل باوجوہ اپنی رخصتی کے وقت کے قریب آنے پر اپنے اور اپنے ساتھی جرنیلوں کی طرف سے پاکستان کی قسمت سے کھیلواڑ سے جنم لینے والے المیے کی خوفناک غلطی سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے اور اس کے لیے مسلم لیگ نواز کے گوئبلز نے اپنی خدمات اُس کے سپرد کردی ہیں –
یہ گوئبلز میاں محمدشہباز شریف کی آصف علی زرداری کی سیاسی سمجھ بوجھ پر اعتماد کرنے کی پالیسی کو ایک فاش غلطی بناکر دکھانے کی بھی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں –
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ نواز شریف کیمپ کے گوئبلز کیوں عدم اعتماد کے راستے سے پی ڈی ایم کے اقتدار میں آنے کی رائے پر شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کے آصف زرداری کی رائے سے اتفاق کو بار بار ایک غلطی قرار کیوں دیتے ہیں؟ کیوں نواز شریف کے حوالے سے یہ تاثر دیتے ہیں ایسا کرکے "سیاسی خود کُشی” کی گئی ہے؟ اصل میں اُن کو "چور دروازے” سے اسٹبلشمنٹ کے باوجوائی پلان میں کشش محسوس ہوتی ہے چاہے اُس کے نتیجے میں عمران خان کا ڈوبتا جہاز دوبارہ سے اپنا سفر کیوں نہ شروع کردیتا-
نواز شریف کے گوئبلز کو امریکہ، یورپ اور چین میں آصف زرداری، بلاول بھٹو اور پیپلزپارٹی کی پذیرائی اور اُن کے پیش کردہ جمہوری طاقتوں کی اجتماعی پیش قدمی ایک آنکھ نہیں بھا رہی کیونکہ اس راستے پر چلنے سے غیر جمہوری طاقتوں کے دوبارہ نظام میں فیصلہ کُن مداخلت کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجانے کا سو فیصد امکان ہے –
جنرل باوجوہ اور مسلم لیگ نواز کے گوئبلز کے موجودہ بیانیے میں سب سے بڑا جھوٹ تو یہ ہے کہ جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر نے سیاسی مداخلت سے دور رہنے کا فیصلہ رضاکارانہ بنیادوں پر کیا ہے اور وہ واقعی صدق دل سے جمہوریت کی بالادستی پر یقین کرنے لگے ہیں – یہ بیانیہ نواز لیگ کے گوئبلز اپنی جماعت کے پیروکاروں کی اکثریت میں تو قابل قبول بناسکتے ہوں گے لیکن پی پی پی کے جمہوری سیاسی تاریخ کے شعور سے لیس کارکنوں کو بیچنے میں کامیاب نہیں ہوں گے – انھیں اچھی طرح سے پتا ہے کہ ہاتھی کے کھانے کے دانت چھپانے پر ہاتھی کیسے مجبور ہوا ہے –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author